حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،انتہائی افسوس کے ساتھ یہ خبر موصول ہوئی کہ ’’ محمدامیر محمد خاں عرف سلیمان میاںراجہ صاحب محمودآباد‘‘ کا حدود 80؍سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
نوٹ: مرحوم کی تدفین ان شاء اللہآج ۴؍بجے شام کو محمودآباد میں انجام پائے گی۔
مختصر حالات زندگی؛
’’عالی جناب راجہ محمد امیر محمد خاں صاحب بالقابہٗ(سلیمان میاں)کی ولادت ۳۰؍نومبر ۱۹۴۳ء مطابق ۱؍ذی الحجہ ۱۳۶۲ھ کو اپنے اجداد کے تعمیر کردہ قلعہ محمود آباد ضلع سیتا پور (یو۔پی) میں ہوئی۔آپ کے والدِ ماجد امیر الامراء خاں بہادر راجہ محمد امیر احمد خان صاحب نوراللہ مرقدہٗ کا نامِ نامی کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔
مرحوم راجہ صاحب کی والدۂ ماجدہ کی ذاتِ گرامی بھی تعارف کی محتاج نہیں ہے جناب مرحومہ و مغفورہ نہ صرف رانی صاحبہ محمودآباد تھیں بلکہ اپنے والدِ مرحوم کی طرف سے ایک مشہور و قصبہ بلہر ہ ضلع بارہ بنکی کی مطلق العنان تعلقداریہ بھی تھیں۔
سولہ سال کی عمر تک جناب راجہ محمد امیر محمد خاں صاحب نہایت مہذب،شائستہ اور ادب واحترام کا ایک نمونہ بن چکے تھے۔ یہ سلسلہ تقریباً گیارہ سال تک چلتا رہا اور پھر جناب راجہ صاحب موصوف مزید تعلیم کے لئے برطانیہ بھیج دئیے گئے جہاں پہلے اسکول اور پھر اپنے والد مرحوم کے زیرِ سایہUniversity of Cambridge Pembroke College میں علمِ ریاضی میں Mathematical Tripos کیا۔بعد ازاںImperial College,London میںSpace Physics میں D.I.Cحاصل کیا۔ اس کے بعد دوبارہ University of Cambridge میں علم ہیئت یعنی Astrophysics میں تحقیق کے مدارج طے کئے۔اسی دوران موصوف Fellow of the Royal Astronomical Socity منتخب کئے گئے۔
۱۹۶۱ء سے ۱۹۷۳تک سلیمان میاں اپنے والد محترم کے ہمراہ ہر سال ایران و لبنان کا سفر کرتے رہے۔یہ سفر گوکہ زیارت کے سلسلے میں کئے گئے لیکن ایک اہم سبب ان علماء ،ادباء اور مصنفین سے ملاقات کرنا بھی تھا جو ان ممالک میں مقیم تھے۔یہ قابلِ ذکر ہے کہ ۱۹۶۵ء میں مرحوم راجہ صاحب نے اپنے فرزند سلیمان میاں کے ساتھ پہلے عراق اور لبنان کا سفر کیا۔
۔’’وقف مدرسۂ احمدیہ‘‘جس کے بانی و موسس راجہ صاحب موصوف کے جدّامجد، مہاراجہ سر محمد علی محمدخاں صاحب اعلی اللہ مقامہٗ تھے ،مذکورہ وقف کا ایک تحتی ادارہ’’مدرسۃ الواعظین‘‘ہے اس میں بھی جناب ممدوح رکنِ مجلس تولیت ہوئے اور خان بہادر راجہ محمد امیر احمد خاں صاحب بہادر نوراللہ مرقدہٗ کی وفات (۱۴؍اکتوبر ۱۹۷۳ء) سے ازروئے وقف نامہ’’وقفِ مدرسۂ احمدیہ‘‘ بحیثیت مسند نشین ریاست محمودآباد ، جناب ممدوح الشان صدر مجلسِ تولیت بھی ہوگئے۔
لیکن اس وقت جناب ممدوح کے عم نامدادعالی مرتبت جناب مہاراجکمار امیر حیدر خاں صاحب بہار اعلی اللہ مقامہٗ بیرسٹر۔ایٹ۔لامتولی منتظم رہے۔دسمبر ۱۹۹۱ ء میں مہاراجکمار و محمد امیر حیدر خاں صاحب ۔مرحوم و مغفور کے انتقال کے بعد متولی منتظم کی ذمہ داریاں بھی عالی جناب راجہ صاحب بالقابہٗ نے سنبھالیں‘‘۔
جناب راجہ محمد امیر خاں صاحب ملک اور اپنے صوبے نیز شہرِ لکھنؤ کے متعدد اداروں میں اعزازی عہدوں پر فائز رہے ہیں:
۱۔ ممبر مرکزی حج کمیٹی،گورنمنٹ آف انڈیا ممبئی
۲۔ صدر توحید المسلمین ٹرسٹ ،لکھنؤ (یو۔پی)
۳۔ صدر یونٹی انٹر کالج ،لکھنؤ
۴۔ نائب صدر شیعہ ڈگری کالج،لکھنؤ
۵۔ صدر سیتا پور آئی ہاسپٹل ٹرسٹ سیتاپور،(یو۔پی)
۶۔ صدر کالون انٹر کالج،محمودآباد ضلع سیتاپور،(یو۔پی)
۷۔ ممبر انجمن تعلقد ارانِ اودھ، لکھنؤ
۸۔ سابق نائب صدر انجمن تعلقہ داران اودھ، لکھنؤ
۱۰۔ متولی منتظم مدرسۃ الواعظیں لکھنؤ
مرحوم کی تدفین ان شاء اللہآج ۴؍بجے شام کو محمودآباد میں انجام پائے گی۔
(ماخوذ از کتاب ’’تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ،جلد اول صفحہ 519‘‘و جلد 3،صفحہ 689، مولف مولانا ابن حسن املوی واعظ،ناشر انٹرنیشنل نور مائکروفلم سینٹر،ایران کلچر ہاؤس ،نئی دہلی)۔
تعزیتی پیغام؛
افسوس عالم اسلام کا مایہ ناز واحد تعلیمی و تبلیغی مرکز’’اداہ عالیہ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ‘‘ اپنے متولی و منتظم سے محروم ہو گیا۔اور رہندوستان کی شاندار و باوقار ریاست محمودآباد اپنے ہر دلعزیز روایتی راجہ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گئی۔مرحوم اپنے آباء واجداد کی طرح پر خلوص محب اہل بیتؑ اور مداح اہل بیت ؑ تھےخصوصاً مرثیہ گوئی اور مرثیہ خوانی گویا آپ کو خاند انی وراثت میں ملی تھی۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ اہل بیت علیہم السلام کے صد قہ میں مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت میں بلند درجات عنایت فرمائےان الفاظ کے ساتھ میں مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور ان کے صاحبزادےڈاکٹر علی خان محمودآبادی و دیگر جملہ لواحقین و معلقین ،وابستگان و پسماندگان کی خدمت میں تعزیت و تسلیت عرض کرتا ہوں۔’’انّا لا نعلم منہ الّا خیرا‘‘۔اللہم اغفر لہ۔
فقط والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شریک غم
حجۃ الاسلام مولانا ابن حسن املوی واعظ
بانی و سرپرست حسن اسلامک ر یسرچ سینٹر املو مبارکپور،ضلع اعظم گڑھ