۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
مدرسۃ الواعظین

حوزہ/ اترپردیش شیعہ وقف بورڈ میں بھی درج ہے ۔اس کی بقا و سالمیت ہر شیعہ پر فرض ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی |

تحریر : مولانا ابن حسن املوی، (صدرالافاضل،واعظ)بانی و سرپرست حسن اسلامک ریسرچ سینٹر۔املو، مبارکپور۔ضلع اعظم گڑھ(اتر پردیش)ہندوستان

مدرسۃ الواعظین لکھنؤ دنیائے اسلام کا واحد تبلیغی ادارہ ،ایک گراں بہا عظیم شیعہ قومی سرمایہ ہے

مدرسۃ الواعظین کی مختصر تاریخ

’’بتاریخ ۳۰ و ۳۱ ؍دسمبر ۱۹۲۹ء؁ و یکم جنوری ۱۹۳۰ء؁ کو اجلاس دہم مدرسۃ الواعظین لکھنؤ منعقدہ امروہہ میں عالیجناب معلیٰ القاب راجہ سید محمد اکبر علی خاں صاحب بہادر آف پنڈراول ضلع بلند شہر نے اپنے خطبۂ صدارت میں بیان فرمایا تھا:

مدرسۃ الواعظین لکھنؤ جو دنیائے اسلام میں واحدتبلیغی ادارہ ہے ۱۷؍ ربیع الاول ۱۳۳۸ھ؁ کو بمقام لکھنؤ قائم ہوا۔ اہم ترین مقصد قیام یہ ہے کہ عیسائی و آریہ مشن آئے دن مذہب حقہ اسلام اور واجب التکریم بانی اسلام کی متبرک و مقدس زندگی پر حملہ کرتے رہتے ہیں۔ اس کی روک تھام اور کامیاب مقابلہ کیا جائے۔ اسی مقصد کو ملحوظ خاطررکھتے ہوئے امیر الامراء عالیجناب مہاراجہ سر محمد علی محمد خان صاحب بہادر والی محمود آباد (اودھ) نے بمشورۂ حضرت صدر الشریعت سرکار نجم الملۃ والدین شمس العلماء جناب مولانا و مقتدانا السید نجم الحسن صاحب قبلہ اپنے مرحوم بھائی جناب راجہ محمد علی احمد خان صاحب بہادر اعلی اللہ مقامہ کی یادگار میں اس مبارک و متبرک ادارہ کی بنیاد قائم کی۔ اور مبلغ پانچ ہزار ورپیہ سالانہ اس کے مصارف کیلئے منظور فرما کر وقف ریاست محمود آباد میں ایک دائمی حصہ مدرسۃ الواعظین کا معین فرمادیا۔ لیکن مدرسہ کی روز افزوں ترقی ملاحظہ فرما کر جناب ممدوح نے دو ہزار روپیہ سالانہ کا اضافہ فرمایا۔ چنانچہ فی الحال ریاست محمود آباد سے مبلغ سات ہزار روپیہ سالانہ مدرسۃ الواعظین کو ملتا ہے۔ مہاراجہ صاحب ممدوح کی یہ قابل قدر سر پرستی ہر طرح لائق ستائش اور شکریہ کی مستحق ہے۔ اور کامل یقین ہے کہ قدر شناس افراد قوم اس ادائے تشکر میںمیرے ہمنوا ہوںگے۔

۱۹۲۳ء؁ میں سر مہاراجہ صاحب بہادر نے بمشورہ ٔ کارکنان مدرسۃ الواعظین ایک اپیل شائع فرمائی جس میں مدرسۃ الواعظین کو اسلامی تبلیغی ادارہ لیکن کسی خاص ہستی سے نامزد و متعلق نہ ہونے کا اعلان فرماتے ہوئے قوم کے سپرد کردیا۔ اور اعانت کی استدعا کی۔ الحمد اللہ کہ یہ آواز بے کار ثابت نہ ہوئی اور چند ہی سال میں بجائے پانچ ہزار سالانہ کے مدرسہ کی آمدنی و خرچ کی مقدار مبلغ چالیس ہزار روپئے سے زائد پہونچ گئی ہے۔ لیکن مقصد تبلیغ اس درجہ اہم ہے کہ اس میںلاکھ روپیہ ماہواربھی خرچ ہو تو کم ہے۔ مجملاً مستقل آمدنی کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا۔

(۱) وقف ریاست محمود آباد سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سات ہزار روپیہ سالانہ

(۲)وقف ریاست عالیہ رامپور سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو ہزار چار صد روپیہ سالانہ

(۳) ریاست بلہرہ سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک ہزار پانصد روپیہ سالانہ

(۴) بعض مقتدر حضرات نے وظائف مستقل جاری فرمائے جن کی تعداد بھی ایک ہزار روپئے سالانہ کے قریب ہوتی ہے۔ جس میں ایک باہمت بزرگ نے پانصد روپیہ سالانہ کا ایک وظیفہ دیا ہے۔ لیکن اپنا نام ظاہر کرنے کی ممانعت فرمادی ہے۔ مدراس کے علم دوست رئیس سیٹھ جمال محمد راتھر نے ایک ہزار روپئے نقد نواب سیداقبال بہادر رئیس شمس آباد نے پندرہ روپیہ ماہوار اور نواب سید قاسم عباس صاحب رئیس شمس آباد نے پندرہ روپیہ ماہوار کا وظیفہ جاری فرمادیا ہے۔

خوجہ جماعت کراچی یک صد روپیہ ماہوار بطور تنخواہ واعظ ادا کرتی ہے۔ مستقل اعانت و امداد کے علاوہ ہندوستان کے ہرحصہ سے نیز دیگر ممالک سے وقتاً فوقتاً رقومِ اعانت موصول ہوتی ہیں جس میں سب سے زیادہ رقم مشرقی افریقہ کے خوجہ مسلمانوں کی ہے، جنہوں نے پچاس ہزار روپیہ نقد بطور اعانتِ مدرسہ کو گزشتہ چند سال میں بھیجا۔ اسی رقم کا کچھ حصہ وہیں کی تبلیغ اور کچھ حصہ ترجمہ قرآن مجید بزبان انگریزی شائع کرنے کیلئے مخصوص کیا گیا۔ بقیہ رقم میں مدرسہ نے ایک جائیداد مشرقی افریقہ میں خرید کی ہے جس کی آمدنی اسی ملک کی تبلیغ پر صرف ہوا کرے گی۔

مرحوم راجہ سر سید ابو جعفر صاحب کے ، سی آئی ، ای تعلق دار پیر پور نے دس ہزا ر روپئے کا گرانقد ر عطیہ اور جناب خان بہادر راجہ میر توکل حسین صاحب تعلقہ دار لو پور نے دس ہزا ر روپئے کا عطیہ مدرسہ کو مرحمت فرمایا تھا۔ چنانچہ ہر دو صاحبان گرامی قدر ’’معین الاسلام ‘‘ کے خطاب کے مستحق ہیں۔۔۔‘‘( ماہنامہ الواعظؔ لکھنؤ ۔ بابت ماہ مئی ۳۰ء؁ صفحہ ۱۲تا ۱۹)

مہاراجہ صاحب محمود آباد نے ادارہ مدرسۃ الواعظین کے قیام کے تین چار سال کے بعد ہی ادارہ کو قوم کے سپرد فرمادیا اور قوم نے اس کو قومی ادارہ تسلیم کر لیا:

’’۔۔۔ہم کبھی اس ذات والا صفات کو نہیں بھول سکتے اور نہ اس کے جود وایثار کا یہ مہتم بالشان نمونہ ٔ کاملہ (مدرسۃ الواعظین) کبھی ہمارے دلوں سے اس کی یاد کو محو ہونے دیگا۔ اتنے بڑے عظیم الشان ادارہ کا قائم کرنا اور سات ہزار روپیہ سالانہ کا گرانقدر وظیفہ بذریعہ ایک جائداد موقوفہ کے دائمی طورپر اس کے لئے مقرر کرکے قوم کے سپرد کردینا اور تمام افراد و قوم وملت کو اس کی شرکت و اعانت و ہمدردی کی دعوت دینا یا یوں کہیے ٔ کہ تمام قوم کو قومی و مذہبی ایثار کا ایسا نہ بھولنے والا سبق پڑھا نا آپ ہی کی ذات والا صفات سے مخصوص تھا۔

یہ ادارہ ۱۷؍ربیع الاول ۱۲۳۸ھ؁ مطابق ۱۱؍دسمبر ۱۹۱۹ء؁ کو مہاراجہ مرحوم کی اسلام نوازی و علم پروری کا نمونہ ٔکاملہ بن کر قائم ہوا ۔

اور ۲۳ ء ؁میں بذریعہ ایک عام اپیل کے آپ نے اس کو قوم کے سپرد کردیا اور اپنی حیثیت اس ادارہ میں ایک معمولی ممبر سے زیادہ نہیں رکھی۔ اور دیکھتے رہے کہ قوم اپنے توجہات کو اس ادارہ کی طرف کس قدر مبذول کرتی ہے ۔الحمد للہ کہ یہ اپیل رائگاں نہیں ہوئی اور قوم نے اس کی طرف متوجہ ہوکر اس کو ایک قومی ادارہ تسلیم کرلیا ۔۔۔‘‘ (ماخوذ از ماہنامہ الواعظ لکھنؤ۔ نمبر ۵، ۶ ، جلد ۱۰)

ادارہ مدرسۃ الواعظیں لکھنؤ کی موجودہ عمارت کی خریداری قومی عطیات کی بدولت عمل میں آئی:

اجلاس (سالانہ) پنجم

{دسمبر ۱۹۲۴ء؁}

مدرسۃ الواعظین لکھنؤ کی مختصر تاریخ

۲۷۔۲۸دسمبر ۱۹۲۴ء؁ کو مدرسۃ الواعظین لکھنؤ کے سالانہ اجلاس کی نشستیں مدرسہ کی مملوکہ عظیم الشان عمارت واقعہ کیننگ اسٹریٹ پر منعقد ہوئیں۔

رپورٹ حضرت صدر الشریعہ (سرکار نجم ا لملت طاب ثراہ)

حضرات ! بسم اللہ کرکے میں حمد و شکر سے اپنے کلام کی ابتدا کرتا ہوں۔ ۱۹۲۱ء؁ کے بعد آج ۲۷؍ دسمبر ۱۹۲۴ء؁ کو مدرسۃ الواعظین کے سالانہ اجلاس کی بنا ہوئی۔ اگر چہ درمیان کے دو سال میں مدرسہ اپنی مذہبی خدمات میں اسی طرح مشغول رہا جس طرح اس کا فریضہ تھا۔ لیکن سالانہ جلسہ کی نوبت نہ آئی۔ ۱۹۲۲ء؁ میں تاریخ جلسہ معین کرکے اشتہار بھی شائع ہوچکے تھے لیکن ایک دلخراش واقعہ کے سبب سے جس کی توضیح کرکے نہ اپنے غم کو تازہ کرنا چاہتا ہوں اور نہ آپ حضرات کے قلوب کو غم گین کرنا چاہتا ہوں جلسہ قہراً ملتوی کردیا گیا۔ اور ۱۹۲۳ء؁ میں خیال تھا کہ سالانہ جلسہ بمقام بمبئی منعقد کیا جائے گا لیکن اس کے طے ہونے میں تاخیر ہوگئی اور بالآخر اہل بمبئی کی رائے یہ ہوئی کہ ہم آئندہ کسی مناسب موقع پر مدرسۃ الواعظین کا جلسہ خود طلب کریں گے۔ اس کے بعد اتنا بھی موقع نہ رہا کہ یہیں جلسہ کا انتظام کیا جائے اور انجام کار یہ سال بھی جلسہ سے خالی رہا۔

اس وقت میں اگر تمام مدت کی کارگزاری بیان کروں تو بہت طول ہوجائے گا۔ اور سامعین بھی گھبراجائیں گے۔ اس لئے بہت اختصار کے ساتھ کچھ حالات عرض کئے جاتے ہیں۔

اس سال کے متعلق مدرسہ کی ایک نمایاں کامیابی یہ ہے کہ مدرسہ کرایہ کے مکان سے منتقل ہوکر بماہ مئی اپنے ذاتی اور زرخرید مکان میں آگیا ۔ ۱۹۲۴ء؁ کے اوائل تک تقریباً ____ماہواری دے کر مدرسہ نے کرایہ کے مکان میںبسر کی جو مدرسہ کی ضرورت کیلئے بھی ناکافی تھا۔ اور برابر فکر کی جاتی تھی کہ کوئی قطعۂ آراضی خرید کرکے مدرسہ کی مناسب حال عمارت بنوائی جائے۔ یا کوئی ایسی عمارت جو حال و آئندہ کے ضروریات مدرسہ کیلئے کافی ہو مول لی جائے لیکن نہ کوئی آراضی موقعہ کی مناسب دستیاب ہوئی اور نہ جدید عمارت بنوانے کے لائق سرمایہ حاصل ہوا۔ حسن اتفاق سے اس مکان کا حال معلوم ہوا اور بالآخر خرید کرلیا گیا۔ میرے پاس مدرسہ کے سرمایہ میں ساڑھے تیرہ ہزار روپیہ موجود تھے ۔ جس میںعالی جناب سر راجہ سید ابو جعفر صاحب دام اقبالہ کا عطیہ اور افریقہ کے سات ہزار کی رقم شامل تھی۔ اس کے بعد عالی جناب خان بہادر راجہ توکل حسین صاحب نے دس ہزار روپیہ مرحمت فرمائے اور دس ہزار روپیہ کی رقم ریاستِ محمود آباد کے خزانۂ وقف سے بتجویز کمیٹی وقف عطا ہوئی۔ کچھ مقدار قرض میںاضافہ کی گئی اور ۳۵۵۰۰ ( پینتیس ہزار پانچ سو) روپیہ میں یہ عمارت خرید کرلی گئی۔ اور کئی ہزار روپیہ مرمت وغیرہ میںصرف کیا گیا۔ عمارت نہایت عالیشان اور اس دینی و مذہبی درسگاہ کیلئے شایان ہے۔ وسط صحن میں خوشنما نہر اور اس کے دونوں جانب سر سبز و پر فضا باغ ہے۔ درسگاہ ، کتب خانہ، دار الاقامہ ، باورچی خانہ ، صدر دفتر مدرسہ ، دفتر الواعظ ، دفتر انجمن موئید العلوم ، مطبع ہر چیز کو ا س عمارت میں بآسائش جگہ مل گئی۔ نہایت دلکش منظر اور دلکشا عمارت ہے۔ میںنے اس مو قع پر مصرعۂ تاریخ نظم کیا تھا ؎

’’ مطلع انوار علم مدرسۃ الواعظین‘‘

(ماخوذ از ماہنامہ الواعظ لکھنؤ بابت ماہ جنوری ۱۹۲۵ء؁)

مدرسۃ الواعظین کیلئے عظیم الشان عمارت خرید کرلی گئی

{۱۹۲۴ء؁}

’’ مدرسۃ الواعظین اِس و قت تک کرایہ کے مکان (محلہ نخاس ،وکٹوریہ اسٹریٹ ،لکھنؤ) میں تھا۔ حال ہی میں اس درس گاہ کے واسطے ایک عظیم الشان عمارت خریدکرلی گئی ہے۔ بیع نامہ بھی رجسٹری ہوگیا ہے۔ صدر الشریعہ حضرت نجم العلماء کے مساعی جمیلہ قابل ہزار شکر و امتنان ہیں۔‘‘

(ماہنامہ الواعظ لکھنؤ بابت ماہ فروری ۱۹۲۴ء؁ صفحہ ۲)

جہان بطرّۂ عنبر فشان بیار ائی

بعقد سلسلہ صد د ودمان بیارائی

مدرسۃ الواعظین اپنی نوخرید عمارت میں منتقل ہوگیا۔ یہ عمارت شہر کی منتخب عمارتوں میں ہے عہدِ آصف الدولہ میں تعمیر ہوئی تھی۔ نہایت دلکشا اور خوشنما سامنے ایک وسیع نہر اور باغ ہے۔ اور مدرسہ کی تمام ضروریات پر حاوی ہے۔ مدرسہ کا سرمایہ مجتمعہ ۳۳ ہزار تھا عمارت ۳۵ ہزار میں خرید کی گئی اور ایک ہزار روپیہ رجسٹری وغیرہ میں صرف ہوا۔ عرصہ سے مکان بے مرمت تھا جابہ جا درستی میںتقریباً ایک ہزار روپیہ صرف ہوچکا ہے۔ اور ابھی مرمت بہت باقی ہے۔ حضرت نجم العلماء (طاب ثراہ) نے قرض سے اس کام کو انجام دیا مگر ہنوز یہ آئینہ گرد آلود محتاجِ صفا ہے۔ امید ہے کہ اکابر ملت اپنی توجہ مبذول فرمائیں گے تاکہ مدرسہ بارِ قرض سے سبکدوش ہوجائے۔ اور مرمت بھی حسب دلخواہ ہوجائے‘‘ (ماہنامہ الواعظ لکھنؤ بابت ماہ جون ۱۹۲۴ء؁ صفحہ ۲)

یاد ہانی

یاد دہانی کے عنوان سے یہ مختصر رپورٹ رسالہ کی صورت میں سرکار متولی منتظم کی طرف سے اجلاس سالانہ ( منعقدہ بمقام فیض آباد) کے موقع پر کثیر تعداد میں تقسیم کی گئی۔ (مدیر مسئول)

’’۔۔۔ریاست پیرپو رو لو ر پو ر اور افریقہ کے تجا ر کی امدا د سے ایک قدیم حویلی ادا رۂ مدرستہ الواعظین کے لئے خریدی گئی۔جوبحمداﷲآج بھی ۱۶؍سبھاش چند ر بو س ما ر گ لکھنؤ پر وا قع ہے اور جس میں یہ ادا رہ مع اپنے شعبوںکے قا ئم ہے ۔

عالیجنا ب نواب سید صفدر سلطان صا حب مر حو م رئیس شمس آباد نے ادا رہ کی ضرو یا ت کے لئے ا یک مطبع خریددیا جوآج بھی صفدر پریس کے نام سے ا سی ادارہ کا ایک اہم شعبہ ہے ۔عالی جناب سیدآ ل احمدصاحب امروہو ی مر حو م نے ٹاٹاپاور کمپنی کے حصص ادارے کے نام منتقل فر ما ئے تا کہ انجمن مؤید العلو م سے کتابوںا ور سا لو ں کی نشرو اشاعت ہوتی رہے۔۔۔‘‘

محمد امیر حیدر خاں آف محمودآباد

متولی منتظم مدرسۃ الواعظین لکھنؤ

( ماخوذ از ماہنامہ الواعظ لکھنؤ ۔دسمبر ۱۹۷۵؁ء)

مدرسۃ الواعظین لکھنؤ دنیائے اسلام کا واحد تبلیغی ادارہ ،ایک گراں بہا عظیم شیعہ قومی سرمایہ ہے

مدرسۃ الواعظین لکھنؤ کی وہ قدیم عمارت واقع نمبر 16؍سبھاش چندر بوس مارگ ،نزدآغا میر ڈیوڑھی پولیس چوکی جو قومی عطیات کی بدولت خرید ی گئی۔

مدرسۃ الواعظین لکھنؤ دنیائے اسلام کا واحد تبلیغی ادارہ ،ایک گراں بہا عظیم شیعہ قومی سرمایہ ہے

مدرسۃ الواعظین لکھنؤ واقع نمبر 16؍ سبھاش چندر بوس مارگ نزد آغا میر ڈیوڑھی پولیس چوکی ،لکھنؤ ۲۲۶۰۰۳

Madrasatul -Waizeen.16,Subhash Chandr Bos Marg.Lucknow-226003(Uttar Pardesh)BHARAT

۔۔۔

نوٹ :کتاب ’’ تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ ‘‘ 20X30/8 سائز کی تین ضخیم جلدوں میں مولانا ابن حسن املوی (صدرالافاضل،واعظ) نے مرتب کیا ہے جو انٹرنیشنل نورمائکرو فلم ،ایران کلچر ہاؤس ،نئی دہلی کی جانب سے نہایت دیدہ زیب و خوشنما ز یور طبع سے آراستہ و پیراستہ شائع ہوچکی ہیں۔

مدرسۃ الواعظین لکھنؤ دنیائے اسلام کا واحد تبلیغی ادارہ ،ایک گراں بہا عظیم شیعہ قومی سرمایہ ہے

خواہشمند حضرات درج ذیل پتہ پر رابطہ کرسکتے ہیں:۔

ث مرکز بین المللی میکروفیلم نور۔خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران،۱۸،تلک مارگ،نئی دہلی۔ہند

Phone:0091-11-23383116,E-Mail:noormicro@yahoo.com / indianmanuscript@gmail.com

http://indianislamicmanuscript.com

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .