۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
مولانا شیخ ابن علی واعظ

حوزہ/ مولانا ابن علی صاحب قبلہ نے اسلامی تاریخ کے اس معرکہ آرا واقعہ کو ایک غیر جانب دار اور انصاف پسند مؤرخ کے نقطۂ نظر سے اپنی بحث کا مرکز قرار دیا ہے۔اور اس کے تضمنات کا جائزہ لیا ہے۔خوشی کی بات یہ ہے کہ انداز نظر ایک جج کا ہے وکیل کا نہیں،جو اپنا کیس پیش کرنے میں حق و ناحق کا امتیاز نہیں کرتا۔

تحریر: مولانا ابن حسن املوی

حوزہ نیوز ایجنسی

نام : ابن علی                                                                      ولدیت : سعید احمد صاحب
وطن : شیعہ نگر رجیٹی ضلع غازی آباد                                      ولادت: تقریباً ۱۳۵۴ھ؁ ہے

تعلیم و تربیت : وطن کے ابتدائی اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے برادر بزرگ مولانا منظور حسین صاحب کے ہمراہ لکھنؤ تشریف لے گئے،اورجامعہ ناطمیہ میں تعلیم حاصل فرمائی اور جامعہ کی آخری سند ممتاز الافاضل حاصل کر کے مدرسۃ الواعظین سے شعبۂ واعظ کی اعلیٰ سند بھی حاصل کی۔

خدمات: فارغ التحصیل ہونے کے بعدمدرسہ باب العلم نوگانوہ سادات میں چند سال پرنسپل کے عہدہ پر فائز رہے اور یہاں کے بعد آپ نے موضع شکار پور ضلع بلند شہر میں ایک مدسہ بنام ناصر العلم قائم کیا اور ایک عرصہ شکارپور میں قیام فرمایا ،بعد میں مصالح کی بنا پر حجۃ الاسلام مولانا روشن علی صاحب قبلہ کی دعوت پر جامعہ منصبیہ میرٹھ تشریف لے گئے اور وہاں بھی ایک بہترین مدرس کی حیثیت سے فرائض کی انجام دہی کی یہاں کے بعد آپ حقیر کی خواہش پر جامعہ عالیہ جعفریہ نوگانوہ سادات تشریف لائے اور یہاں بھی باحسن وجوہ خدمات انجام دیںپھر اس کے بعد خطیب اعظم علامہ سید غلام عسکری صاحب کے حکم پر جن کے ساتھ آپ جامعہ ناظمیہ اور مدرسۃ الواعظین میں شریک کار کی حیثیت سے زندگی گزار چکے تھے ،لکھنؤ جامعہ تنظیم المکاتب میں شعبۂ تعلیم کی مسئولیت کے عہدہ پر فائز رہے۔

شاعری: آپ ایک اچھے شاعر بھی ہیں۔شائقؔ تخلص ہے۔قصیدہ،نوحہ،اور دیگر اصناف سخن میں طبع آزمائی فرمائی ہے۔اور ایک مناجات حسن قبول کے نام سے شائع ہوئی جو بہت مقبول ہوئی۔اور نوحوں کا مجموعہ آئینۂ فرات ،تشنۂ فرات بھی شائع ہوچکا ہے۔

تالیف و تصنیف :آپ نے بڑے گرانقدر موضوعات پر قلم فرسائی فرمائی ہے اور بعض کتب بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔مثلاً قرطاس،ہمارے فرائض وغیرہ۔

اولاد امجاد: آپ کے پانچ صاحبزادے اور ایک صاحبزادی ہیں۔(۱) مولانا رضا عباس صاحب(۲)مولانا شہوار حیدر صاحب۔یہ دونوں حضرات قم ایران میں زیر تعلیم ہیں(۳) ایک صاحبزادی بھی جامعۃ الزہراء قم میں زیر تعلیم ہیں(۴)مولوی سعید حیدر صاحب(۵)باقر سعید(۶)ایک فرزند قمی کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں۔

مختصر حالات زندگی مرحوم نجم الواعظین مولانا شیخ ابن علی واعظ طاب ثراہ

آپ بہترین خوش نویس اور اعلیٰ کاتب ہیں عمدہ ادیب اور بہترین خطیب کی حیثیت سے ہندوستان میں مشہور و معروف ہیں ۔نہایت حلیم،بردبار،صائب الرائے،منکسر المزاج،اور خوش اخلاق انسان ہیں۔

آخر میں مرحوم کی عالمانہ زندگی اور ان کے قلم کی چمک ،دمک اور دھمک کتاب قرطاس پر شائع شدہ ایک پرانے تبصرہ کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں:

جناب شادؔ رضا صاحب نے قرطاس منشور انجمن موئید العلوم مدرسۃ الواعظین لکھنؤ دیکھنے کے بعد ذیل کے سطور میں اپنے تاثرات پیش فرمائے ہیں۔

جناب مولانا ابن علی صاحب قبلہ واعظ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ  پختہ استعداد کے فاضل ہیں۔انھوں نے لکھنؤ کے مشہور عربی مدرسہ مشارع الشرائع جامعہ ناظمیہ کے شیریں چشمہ سے عربی درسیات کی تحصیل کی تشنگی دفع کی ہے اور پھر مدرسۃ الواعظین جیسے عظیم ادارے سے اس تحصیل کی علمی اور عملی تکمیل کی ہے۔اور اب وہ نتیجۃً ایک بالغ نظر رکھنے والے خوش بیان و خوش فکر ’’ واعظ ‘‘ کے قالب میں قوم و ملت کے سامنے ارشاد و تبلیغ کا علم بلند کئے ہوئے ہیںکہ   ؎ 
مشعل علم و عمل لے کے چلا ہوں اے دوست
آ میرے  ساتھ  کہ  تقدیر  ِ زمانہ  بدلیں

انھیں صرف تقریری موعظت و ارشاد ہی سے واسطہ نہیں ہے بلکہ فطرت سے تحریر و انشاء کی جو صلاحیت ملی ہے اس سے بھی کام لینے کا انھیں کافی ذوق و سلیقہ ہے۔اسی ذوق کا ایک ثمر خوش ذائقہ ان کی تازہ تصنیف ’’ قرطاس ‘‘ ہے۔
اس رسالہ ٔ وجیزہ کا تعلق اسلامی تاریخ کے اس مشہور واقعہ سے ہے جو سرور کائنات ؐ کے حادثہ ٔ ارتحال سے چند ساعت پہلے ظہور پذیر ہوا تھا۔سرور کائنات ؐ نے اپنے انتقال سے چند ساعت پیشتر دوات و قرطاس (کاغذ) طلب فرمایا تھا تا کہ کچھ ایسی ضروری وصیتیں لکھ دی جائیں جو مسلمانوں کے لئے پروانۂ نجات بن سکیں۔غیر مناسب مداخلت کی وجہ سے رسول اسلام ؐ کا ارادہ پورا نہ ہو سکا۔اور ملت کی بہتری کی یہ دستاویز تکمیل کی حدودمیں داخل نہ ہو سکی۔یہ واقعہ اپنی جگہ بہت ہی تکلیف دہ ہے ۔نہ صرف اس لئے کہ خدا کے رسول کی یہ نا فرمانی چاہے وہ کسی پردے میں سہی اس کے آخری لمحات زندگی میں اس کی دل آزاری اور ایذا رسانی کا سبب بنی بلکہ اس لئے بھی کہ اس طرح اس دروازہ ہی کو ہمیشہ کے لئے مسدود کر دیا گیا جس کے ذریعہ مسلمانوں تک نہ معلوم کون کون سی نعمتیں پہونچتیں۔اور بہت ممکن تھا کہ اس کی یہ آخری وصیت ان اسباب ہی کا قلع قمع کردیتی جنھوں نے مسلمانوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نہ ختم ہونے والا ایک عظیم اختلاف و افتراق پیدا کر دیا ہے۔اور انھیں ایسے فرقوں اور گروہوں میں کے خانوں میں بانٹ دیا ہے جن کے ایک ہونے کی قیامت تک کوئی عملی صورت نہیں دکھائی دیتی۔

اس قسم کے اختلافی مسائل پر قلم اٹھانا جسے فکر و نظر کے منجھے افراد اپنے قلم کی جولان گاہ بھی بنا چکے ہیں۔مولانا موصوف کے عزم و حوصلہ کی نشان دہی کرتا ہے۔جبکہ غیروں کے ساتھ اپنے بھی ان موضوعات کے سلسلہ میں ’’ چاہے اس کا سبب رواداری ہو یا فیشن ‘‘شرف پسندیدگی نہیں بخشتے…

مولانا ابن علی صاحب قبلہ نے اسلامی تاریخ کے اس معرکہ آرا واقعہ کو ایک غیر جانب دار اور انصاف پسند مؤرخ کے نقطۂ نظر سے اپنی بحث کا مرکز قرار دیا ہے۔اور اس کے تضمنات کا جائزہ لیا ہے۔خوشی کی بات یہ ہے کہ انداز نظر ایک جج کا ہے وکیل کا نہیں،جو اپنا کیس پیش کرنے میں حق و ناحق کا امتیاز نہیں کرتا۔

مختصر حالات زندگی مرحوم نجم الواعظین مولانا شیخ ابن علی واعظ طاب ثراہ


ماخوذ: ( کتاب تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ جلد اول ،مصنفہ مولانا ابن حسن املوی واعظ۔صفحہ۱۴۶)

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .