۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
تاثرات بابت کتاب ’’تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ‘‘ (جلد دوئم)

حوزہ/ مولانا ناظم علی واعظ خیرآبادی: مدرسۃ الواعظین لکھنؤ عالم شیعیت کا اپنی نوعیت کا واحد تعلیمی، تربیتی، اور تبلیغی مرکز ہے۔ مولانا علی ناصر سعید عبقاتی: مدرسۃ الواعظین لکھنؤ ایسے علمی عمل کا نام ہے جو بے مثل و بے نظیر ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی |

تحریر : مولانا شیخ ابن حسن املوی واعظ

تاثرات بابت کتاب ’’تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ‘‘ (جلد دوئم)

مدرسۃ الواعظین لکھنؤ ایک عظیم تحریک ،عظیم ادارہ

تقریظ از قلم حقیقت رقم :زبدۃ الواعظین حجۃ الاسلام عالیجناب مولاناشیخ ناظم علی صاحب قبلہ واعظ خیر آبادی مدظلہ العالی ( پرنسپل جامعہ حیدریہ مدینۃ العلوم۔ خیرآباد ضلع مئو۔یوپی)

تاثرات بابت کتاب ’’تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ‘‘ (جلد دوئم)

مدرسۃ الواعظین لکھنؤ عالم شیعیت کا اپنی نوعیت کا واحد تعلیمی ،تربیتی،اور تبلیغی مرکز ہے جو اصول و فروع دین اور اخلاق اسلامی کی منطقی اور علمی استدلالی تعلیم کے لئے قائم کیا گیا۔اس کا مثالی نصاب تعلیم ،تدریس کا منفرد اسلوب،’’ مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘جیسے با کمال علماء و مدرسین کی تحقیقی اور استنباطی جد و جہد کے کاشانہ فکرونظر سے نکلے ہوئے نورانی بیانات،ماہرین تعلیم اور میدان تبلیغ کے یکہ ناز شہسواروں کی کدوکاوش کے گہر ہائے آبدار ،تصنیف و تالیف زبان و بیان کے مستحکم اور مستقیم نقوش جو قلب و دماغ کی گہرائی میں اتر کر دائمی اور لازوال اثر چھوڑ جاتے ہیں۔اس نصاب تعلیم کی جامعیت کے لئے یہ کہنا درست ہے کہ فطرت و خلقت کے زندہ اور زندگی بخش اصول و قوانین سے رابطہ ختم کرنے والوں ،انحراف،کج فکری،مادیر پرستی میں گرفتار افراد،گروہ اور معاشرہ کی نشاندہی بھی کرتا ہے اور ان کی باطل نوازی ،ہرزہ سرائی،اور خرافات سازی کے قلعہ کو مسمار کرکے دنداں شکن اور مسکت جوابات کا پتہ بھی دیتا ہے۔نصاب تعلیم کو مرتب کرنے والے محققین و مفکرین علمائے اعلام نے ان کتابوں کو شامل نصاب کیا تھا جو یہودیت،مسیحیت،کفر،شرک،منحرف اور فروغ دہندہ ٔ ضلالت افراد کے اسلام و مذہب اہل بیت ؑ اطہار کے خلاف ہفوات کا مکمل جواب بن جائے اور اصول و فروع اور اخلاق اسلامی کی زندہ و تابندہ تصو یر سامنے آجائے۔

تین سال کاتعلیمی نصاب اس کا بھی ثبوت فراہم کرتا ہے کہ اس سے متبحر علمائے کرام کی زیر نگرانی تحصیل علم کرکے اکناف عالم میں دین حق اور پیغام فطرت کی تبلیغ میں مصروف ہونے ولے کسی مخالف کے مقابلہ میں کبھی کمزوری ،عاجزی اور پستی کا احساس نہیں کرتے،تعلیم مکمل کرنے کے بعد دو سال تک ملک و بیرون ملک کے معینہ علاقہ میں احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ انجام دینا ضروری ہے تاکہ سرچشمۂ علم و عمل جاری و ساری رہے،حق و حقانیت کا دبدبہ باطل کے قلب و جگر کو وحشت زدہ رکھے۔

مدرسۃ الواعظین لکھنؤ سرکار نجم العلماء کی دینی بصیرت کا آئینہ دار ہے یہ ایک علمی دینی اور تبلیغی عظیم تحریک و عظیم ادارہ کی صورت میں منصہ ٔ شہود پر آیا راجہ محمود آباد کا مکمل تعاون اور علمائے اعلام کی پر خلوص و صادق تحریک کی حمایت نے تحریک کو ہمہ جہت تقویت دی،مومنین اور محبا ن دین و دیانت نے جوش سے ہوش مندانہ اس کا استقبال کیا،سب سے پہلے سرکار نجم العلماء کے شاگرد رشید ،خطابت اور تبلیغ دین حق کے بے مثل علمبردار شمس العلماء مولانا سید سبط حسن صاحب طاب ثراہ نے مسند تدریس پر جلوہ افروز ہو کر علم و معرفت کے آبدار موتیوں سے افاضل کے علمی دامن کو پر کیا اور انکی تشنگی کو آب زلال معرفت سے دور کیا ،آپ کے بعد مسلسل اس مقام عظیم پر مایہ ٔ ناز و صد افتخار تعلیم و تبلیغ میں امتیازی حیثیت کے حامل علماء فائز ہوتے رہے جن کا تذکرہ اس کتاب میں آپ پڑھ سکتے ہیں۔

مدرسۃ الواعظین کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں داخلہ انھیں علماء کا لیا جاتا ہے جو کسی حوزۂ علمیہ سے آخری سند حاصل کر چکے ہوں۔یا کم از کم فاضل پاس ہوں۔اس سے پتہ چلتا ہے کہاسکی تعلیم سابق کی تعلیم پر جلا بخشتی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگاکہ سابق کی تعلیم طالبعلم کی ذاتی زندگی کاتز کیہ کرتی ہے۔اور مدرسۃ الواعظین کی تعلیم صیقل کرکے آئینہ علمی کواتنا روشن اور منور کردیتی ہے کہ دوسرا بھی اپنی حقیقی تصویر اس آئینہ میں دیکھ سکتا ہے۔علم کے پیکر میں عمل کی روح داخل ہوکر اثر آفرینی کا چمنستان اس طرح سجا دیتی ہے کہ مبلغ اور واعظ کی حیات،کردار اور سیرت احیاء کلمہ ٔ حق کا نمونہ اور اس کی تبلیغ ،بیان اور خطابت باطل کے مزعومہ کاخ بلند کو زمیں دوز کردیتی ہے۔اور ضلالت ،جہالت اور باطل کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوپاتا۔ مدرسۃ الواعظین کی گونا گوں پر عظمت اور مفید ترین خصوصیت کی بنا پر اس سے کسب فیض کرنے والے صرف ہندوستان کے افاضل ہی نہیں تھے بلکہ بیرون ملک ایران ونجف کے علماء بھی اس مرکز علم و تحقیق سے استفادہ کرنے کے لئے طالبعلم کی حیثیت سے داخل ہوئے۔یا اس میں مقیم رہ کر اسکی علمی فضا اور تحقیقی ماحول اور اساتذہ سے فیض حاصل کرتے رہے۔ اس مدرسہ کے ایک پرنسپل فیلسوف عصر مولانا سید عدیل اختر طاب ثراہ تھے جنھیں دنیا کی متعدد زبانوں پر جیسے،انگریزی، گجراتی،فرانسیسی،جاپانی اور افریقی زبانوں پر عربی،فارسی،اردو کے ساتھ مکمل عبور تھا۔وہ ان زبانوں میں تحریر و تقریر کی ممتاز و باکمال صلاحیت رکھتے تھے۔اس لئے ان کے سامنے ان زبانوں کے جاننے والوں نے بھی زانوئے ادب تہہ کرکے شاگردی کا شرف حاصل کیا۔ایک قابل توجہ بات یہ بھی کہ مولانا موصوف نے جامعہ ناظمیہ لکھنؤ سے فارغ ہونے کے بعد مدرسۃ الواعظین میں تعلیم حاصل کی اور ہند و بیرون ہند تبلیغی خدمات انجام دیں بعد میں وہ اس میں بحیثیت پرنسپل خدمت دین کرنے میں مصروف رہے۔

مدرسۃ الواعظین نے ایک شعبۂ اسپیشل واعظ ( Special Waiz) کا بھی قائم کیا یہ ان افراد کے لئے مخصوص تھاجو اردو ،عربی،فارسی زبان کی شد بد رکھتے تھے مگر کسی معتبر حوزہ سے علم حاصل کرکے فارغ یا فاضل نہیں تھے ان کے لئے یہ دوسالہ نصاب تعلیم مرتب کیا گیا تھا جسمیں انھیں مذہب اہل بیت اطہار ؑ کے حقائق و معارف سے با خبر کرتے ہوئے مخالفین کے ماحول میں رائج شدہ کج فکریوں کے جوابات سے متعلق کتابوں کی تعلیم بھی دی جاتی تھی،یہ افراد بھی تعلیم مکمل کرکے تبلیغ دین میں مشغول رہتے تھے۔

مدرسۃ الواعظین کا ایک شعبہ تصنیف و تالیف اور ترجمہ سے متعلق ہے جسے مؤئید العلوم کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔اس کے ذریعہ واعظین اور علماء کی دینی خدمات کو شائع کیا جاتا ہے ،اس شعبہ نے سیکڑوں مفید کتابیں اردو،عربی،فارسی،انگریزی وغیرہ میں طبع کرکے قوم کے حوالہ کی ہیں،ان کتابوں کی فہرست ایک زمانہ میں جریدہ ٔ الواعظ میں چھاپی جارہی تھی ممکن ہے کتابچہ کی شکل میں وہ فہرست موجود ہو۔(اس کا بھی تاریخی تذکرہ اس کتاب کی جلد اول اور جلد سوم میں موجود ہے)۔

مدرسۃ الواعظین کا موقر جریدہ ماہنامہ الواعظ اردو میں اور مسلم ریویو انگریزی میں شائع ہوتا تھا ۔الواعظ کچھ دنوں تک حالا ت کی کسمپرسی کا شکار رہا مگر اب کبھی کبھی نظر آجاتا ہے۔مسلم ریویو غالباً اب نہیں نکلتا۔الواعظ تاریخ اشاعت سے لیکر کافی عرصہ تک قوم و ملت کے لئے ایک ایسا جریدہ تھا جسکے مضامین علمی اور پر مغز ہوا کرتے تھے ،اسمیں شیعیت اور اسلام کے خلاف دشمنوں کے پھیلائے ہوئے اعتراضات کے جوابات بھی دئیے جاتے تھے اور مذہب حق کا اثبات بھی کیا جاتا تھا ۔موجودہ دور میں بھی الواعظ اپنی انھیں خصوصیات کو باقی رکھے ہوئے ہے۔(انکی بھی شاندار تاریخی جھلکیاں اس کتاب کی جلد سوم میںملاحظہ کر سکتے ہیں)۔

ایک دور وہ بھی تھا جب مدرسۃ الواعظین میں بین المذاہب اختلافی موضوعات پر تقاریر کا وہ سلسلہ بھی قائم تھا جسکے لئے معتبر و مستند علماء کرام کو دعوت دی جاتی تھی اسمیں دیگر حوزات علمیہ کے طلبہ بھی شرکت کرتے تھے اس سلسلہ میں خصوصیت سے سید العلماء مولانا سید علی نقی نقوی کا نام مامی قابل ذکر ہے جنھوں نے مسلسل تقریریں فرمائیں ان تقاریر کو جمع کرکے الگ الگ کتابی صورت میں شائع بھی کیا گیا ہے جیسے اسلام کی حکیمانہ زندگی ،لاتفسدوا فی الارض،متعہ اور اسلام وغیرہ وغیرہ غالباً کچھ ہی زمانہ تک یہ سلسلہ رہا بعد میں اس پر جمود طاری ہوگیا۔

مدرسۃ الواعظین کا کتبخانہ اپنی نوعیت اور کتابوں کے علمی عظیم ذخیرہ کے اعتبار سے اہم ترین ہے۔ اس میں مختلف مذاہب کے علمی مدارک اور منابع ،مطبوعہ اور قلمی نسخے،منابع کے قدیم ترین نسخہ جات،چھوٹی بڑی ،عربی،فارسی،اردو،انگریزی،ہندی،گجراتی وغیرہ زبانوں پر مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتابوں کا بڑا سرمایہ موجود ہے،اس کتبخانہ میں ملک و بیرون ملک کے علماء و محققین ،ناقدین قدیم مطبوعہ اور خطی نسخوں کو دیکھنے کے لئے آتے ہیںاور کسب فیض کرتے ہیں،اگرچہ بہت سی کتابیں عدم توجہ اور غفلت کی بنا پر سیلن کی یا کیڑوں کی نذر ہوگئی ہیں،بہت سی کتابیں پراگندہ حالت میں ہونے کی وجہ سے اول و آخر و درمیان سے ناقص ہو گئی تھیںتو انھیں دفن کردیا گیا۔لیکن اب بھی جتنا بڑا سرمایہ موجود ہے وہ اپنی آپ مثال ہے۔حقیر نے اپنے زمانۂ طالبعلمی میں دیکھا ہے کہ ایکبار ندوہ لکھنؤ کے علماء ترمذی کا قدیم ترین نسخہ تلاش کرتے ہوئے لکھنؤ کی لائبریریوں کا جائزہ لے رہے تھے تو انھیں قدیم ترین مطبوعہ نسخہ مدرسہ کی لائبریری میں ملا،شیعہ سنی مدارک و منابع کے قدیم نسخے اب بھی لائبریری میں موجود ہیں ،تحفۂ اثنا عشریہ کا جواب اردو زبان میں مرزا محمد ہادی رسواؔ کے قلم کا تحریر کردہ بارہ جلدوں میں اپنی طالبعلمی کے زمانہ میں حقیر نے دیکھا ہے،اس کے سلسلہ میں چہاردہ صد سالہ جشن ولادت جناب معصومہ ؑ کے دو روزہ اجلاس میں ایک تجویز یہ پاس کی گئی تھی کہ مدرسہ کے ماہرین تصنیف و تالیف علماء کی ایک جماعت کی نگرانی میں ان کتابوں پر نظر ثانی کی جائے ،اس وقت یہ طے ہوا تھا کہ موجودہ واعظین حضرات کو اس کام کے لئے دعوت دی جائے گی مگر یہ تجویز پاس ہونے کے باوجود صرف کاغذ کی زینت بن گئی کوئی عملی اقدام نہیں ہو سکا،خدا کرے یہ کام انجام پا جائے تو بہت بڑی خدمت ہوگی۔

اس کتبخانہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اکثر اساسی کتابوں کو علماء ،افاضل اور اساتذہ نے مطالعہ میں رکھا اور مضامین سے متعلق اشاریہ یا تو حاشیہ پر لکھن دیا ہے یا کتاب کے شروع میں سادہ ورق پر تحریر کردیا ہے جسکے لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر طالبعلم صرف ان اشاریوں کو بھی پڑھ لے اور اپنی نوٹ بک میں جمع کرلے تو بڑا علمی ذخیرہ تیار ہو جائےگا۔تاریخ،حدیث،تفسیر،کلام،عقائد،فروع،اخلاقاور دیگر موضوعات سے متعلق گہری معلومات فراہم ہو جائے گی۔اکثر اساتذہ طلبہ کو ہدایت بھی کرتے تھے کہ اسے جمع کرلو،ان اشاریوں میں بعض اساتذہ نے کسی مضمون ،حدیث،تاریخی واقعہ کے بارے میں لکھ دیا ہے کہ اسے مزید کن کتابوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔اور اگر کوئی مخالف دین آل محمد ؐ یا مرتبہ اہل بیت ؑ کے معارض یا دین اسلام کے بنیادی اصول کے خلاف کوئی بات درمیان تحریر آئی ہے تو اسکی نشاندہی بھی کردی ہے۔اور صحیح امر کو سمجھنے کے لئے حوالہ جاتی کتابوں کا یا تو نام لکھ دیا ہے یا اسکی مختصر جملوں میں تردید بھی کردی ہے،’’ صلہ ٔ تاریخ احمدی‘‘ اور ’’ علمی خیانتیں‘‘ علامہ سید عدیل اختر طاب ثراہ پرنسپل مدرسہ کی کتابیں اس کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ کتبخانہ کی مکمل فہرست ایک ضخیم رجسٹر میں درج ہے مگر جدید طرز تنظیم کتب خانہ نہ ہونے کی بنا پر کسی کتاب کا تلاش کرنا بیحد مشکل ہوتا ہے شاید اسکی وجہ کسی معقول اور دلچسپی رکھنے والے عالم لائبریرین کا نہ ہونا ہے۔ مولانا سید سمی حسن صاحب مرحوم اسپیشل واعظ کی حیات تک یہ رجسٹر کتب خانہ باقاعدہ مرتب تھا اور انکی نظر بھی کتابوں پر تھی تو وہ آسانی سے بتا دیتے تھے۔مگر قانونی طور پرجو کہ کسی طالبعلم کو بھی لائبریری کی کتاب اپنے کمرہ میں بھی لے جانے کی اجازت نہ تھی تو مولانا باقاعدہ اس پر بھی ناظر تھے،ہدایت یہ تھی کہ ہال میں پڑھی جائے اور وہیں چھوڑ دی جائے ،جو کچھ نوٹ کرنا ہو اپنی ڈائری میں لکھ لیا جائے۔لیکن یہ افسوسناک امر بھی سامنے آیا کہ بعض قیمتی اور نادر کتابوں کو شاطرانہ طریقہ پر بعض طلبہیا مولوی حضرات لائبریری سے نکال لے گئے ،میں نے خود بعض لوگوں کے پاس ایسی کتابیں دیکھی ہیں جن پر مدرسۃ الواعظین کی مختلف صفحات پر مہر لگی ہوئی ہے ،اور کچھ لوگوں سے پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم نے فلاں جگہ سے خریدا ہے ،اگر ایسا بھی ہے تو یہ مدرسہ سے متعلق رہنے والے کسی خیانت کار نے کیا ہوگا کہ اسے معرض بیع و شرأ تک پہونچایا۔

کتب خانہ میں نوادرات کا ایک مکمل شعبہ تھاجس میں مطبوعہ یا قلمی ،واعظین یا دیگر علماء کی علمی خدمات تحریری صورت میں موجود تھیں جسے بڑی منّت سماجت کے بعد مولانا سمی حسن صاحب دیکھنے دیتے تھے اور سامنے بیٹھ کر نگرانی کرتے رہتے تھے،بعض خطی نسخوں کے مطالب حقیر نے اپنی نوٹ بک میں نقل کئے تھے وہ اب بھی میرے پاس موجود ہیں،تقریباً دس بارہ سال قبل ایکبار ایک کتاب کی تلاش میں مدرسہ میں حاضر ہوا تو دن بھر اسکو تلاش کرتا رہا ،مہتمم کتبخانہ سے دریافت کیا اور میرے زمانۂ تحصیل میں جس آلماری میں وہ کتاب رکھی رہتی تھی اسمیں بھی ڈھونڈھا لیکن کہیں پتہ نہ چل سکا ،میں عاجز ہوکر چلا آیا ،ممکن ہے کتاب موجود ہو لیکن نظم و ترتیب میں الٹ پھیر کی بنا پر نہ مل پائی ہو۔

مدرسۃ الواعظین کے لائق صد افتخار اساتذہ میں اگر میں استاذ محترم نادرۃ الزمن مولانا سید ابن حسن نونہروی صاحب قبلہ طاب ثراہ کا اسم گرامی اور ان کے خصوصیات تدریس و تربیت اور علمی مرکزیت کا تذکرہ نہ کروں تو بڑی حق تلفی ہوگی اور میری تحریر بھی مجھے معاف نہ کرے گی ۔اگرچہ انکی مکمل مدح و توصیف مجھ حقیر سے ممکن نہیں ہے جس حد تک زمانۂ طالبعلمی کی بے ہنگم اور کج مج کیفیت میں سمجھ سکا ہوں اسے اختصار کے ساتھ ذ کر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ (علامہ نونہروی ؒ کی عظمت و خصوصیت کے پیش نظر اس کتاب میں آپکے حالات کافی حد تک پیش کئیے گئے ہیں)۔

مولانا نہج البلاغہکا درس کہتے تھے اور ترجمہ کرنے میں اس کا خصوصیت سے لحاظ رکھتے تھے کہ نہج البلاغہ کی مقفیٰ و مسجع عبارت کا ترجمہ بھی اسی انداز اور طریقہ پر ہو یوں تو نہج البلاغہ کے ایک ایک لفظ ان کے ذہن پر نقش تھے اس لئے اگر ہم عبارت پڑھنے میں کوئی ایسا لفظ پڑھتے تھے جو شان عصمت کے لحاظ سے مناسب نہیں ہوتا تھا تو فرماتے تھے دیکھ کر پڑھئے اور اگر اس لفظ کو دہرایا جاتا تو فوراً دوسرا نسخہ نہج البلاغہ کا منگواتے اور اس لفظ کو اس میں دیکھنے کی تاکید کرتے اور جب فرق مل جاتا تو فرماتے تھے کہ یہ لفظ جو تمھاری کتاب میں ہے وہ مؑصوم ؑ کے شایان شان نہیں ہے لہٰذا طھپنے میں یا کتابت میں غلطی ہوگئی ہے۔ترجمہ کے بعد اس طرح اس کا مطلب بیان کرتے گویا وہ سارا ماحول اور نقشہ سامنے آجاتاجب امیر المومنین ؑ اس خطبہ کو ارشاد فرمارہے تھے۔

مولانا کا حافظہ تو ایسا تھا کہ ابتک اس جیسے ھافظہ کا عالم دیکھنے میں نہیں آیاجس چیز کو ایک بار پڑھ لیتے وہ ان کے ذہن میں محفوظ ہوجاتی ،میر انیس ؒ و مرزا دبیر وغیرہ کے پورے پورے مرثیے بیحد روانی سے سنا دیتے تھے ،اسی طرح درسی کتابوں کی عبارتیں ،تفسیر و کلام کے جملے ،فقہ و اصول ،تاریخ و حدیث و رجال کے بیانات بعینہ سناتے تھے ،اسی حافظہ کی بنا پر انھوں نے کوئی نوٹ بک نہیں تیار کیا بلکہ ان کا ذہن ہی نوٹ بک تھا۔چنانچہ مشہور بات ہے کہ نواب رامپور کے یہاں عشرہ کو خطاب کرنے کے لئے جاتے تھے مجلس کے تمام ہونے کے بعد نواب ایک سال آپکے پاس بیٹھ کر شطرنج کے اقسام سنایا کرتا تھا وہ بخیال خود اپنی علمی بلندی جتانا چاہتا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ علمائے دین کو اس فن سے کیا واطہ ہو سکتا ہے ،پانچ دن کے بعد جب اس نے موضوع گفتگو بدل دیا تو مولانا نے پوچھا کیا شطرنج کی قسمیں ختم ہو گئیں؟اس نے اثبات میں جواب دیا تو مولانا نے فرمایاکہ ابھی ار بھی شطرنج کی قسمیں ہیں،اور بارہ قسمیں مزید بیان کیں ۔نواب حیرت زدہ تھا کیونکہ وہ اپنے دور کا شطرنج کا ماہر تھا،اس نے پوچھا کہ آپکو ان اقسام کا علم کہاں سے ہوا؟تب آپ نے اسے پتہ بتایا کہ فلاں لائبریری کے مخطعطات کے شعبہ میں فلاں نمبر کی قلمی کتاب ہے اس میں یہ قسمیں لکھی ہوئی ہیں۔میں نے جب اس کتاب کو دیکھا تھا تو یہ خیال ہو رہا تھا کہ اس کتاب کو کیوں پڑھ رہا ہوں ،شاید اس دن کے لئے خداوند عالم نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی تھی تاکہ عالم دین کو کسی منزل میں پستی کا منھ نہ دیکھنا پڑے۔میں نے ایک روز مولانا سے دوران تحصیل جناب فضہ کے متکلمہ بالقرآن ہونے کے واقعہ کے بارے میں معلوم کیا تو فرمایا کہ تمھیں اس کے تسلیم کرنے میں تذبذب ہو رہا ہے تم مجھ سے بات کرو میں تمھیں قرآن سے جوابات دیتا رہوں گا،مجھے تو بزم عصمت نہیں ملی ہے اور اس کے بعد قرآن کریم کی آیتوں کے ذریعہ گفتگو کرنے لگے ۔کچھ دیر کے بعد فرمایا کہ جو خادمہ بزم معصومہ ؑ میں رہی ہو اس کے لئے اس منزلت اور درجہ پر فائز ہونا کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے۔

ایکبار ندوہ کے کچھ علمائصحیح ترمذی کا قدیم ترین نسخہ تلاش کرتے ہوئے مدرسۃ الواعظین تشریف لائے ،انھیں وہ نسخہ دیا گیا اور ضروری عبارت کو انھوں نے نقل کیا ،پھر کئی روز آتے رہے تو ہم طلبہ نے ان سے پوچھا کہ بات کیا ہے جو آپ لوگ برابر تشریف لاتے ہیں اور اسی کتاب کے اسی ایک صفحہ کو دیکھتے اور پڑھتے رہتے ہیں تو انھوں نے یہ بتایا کہ ایک روز ایک مقرر نے بیان کیا کہ پورا قرآن مجید تو جبرئیل امین لائے لیکن سورہ ٔ حمد ایک اسپیشل فرشتہ لایا،اور ترمذی کا حوالہ دیا ،ہمیں حیرت تھی کہ اس امر کی طرف ہمارے وہ علماء کیوں نہیں متوجہ ہوئے جو ترمذی کا برابر دورہ کرتے رہتے ہیں،جب ہم نے آکر دیکھا تو واقعی وہ حدیث اسی طرح سے ہے جیسے مقرر نے بیان کیا تھااس سے ہم کو پریشانی یہ ہے کہ نزول قرآن کا عقیدہ کراب ہو رہا ہے،مولانا نے جب اس کا ہم لوگوں نے تذکرہ کیا تو فرمایا کہ یہ آج ان لوگوں کو معلوم ہوا میں نے اپنی طالبعلمی میں اسے پڑ ھا تھا اور اس کا حل بھی تلاش کرلیا تھا۔ان علماء ندوہ سے اس امر کو بیان کیا تو وہ لوگ آپ کے پاس آئے ،مولانا نے فرمایا کہ ضمیر کے مرجع کا کل مسئلہ ہے اگر اسے صحیح طور پر سمجھ لیا جائے تو یہ دشواری ختم ہو جائے گی اور بتا دیا کہ فلاں کتاب میں فلاں نحوی نے اس حدیث کو شاہد بتاتے ہوئے ضمیر کا مرجع بیان کیا اس سے مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔مولانا کی حیات کے بہت سے ایسے واقعات ایسے واقعات ہیں ان سب کا تذکرہ تحریر کو طولانی بنا دیگا اس لئے صرف اسی پر اکتفا کی جاتی ہے ۔انھیں زبان و بیان پر مکمل قدرت حاصل تھی اپنے جملوں کے ذریعہبڑے بڑے واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسلامی مسائل کو حل کردیا کرتے تھے اگرچہ مولانا کو قرآن کریم اور نہج البلاغہ ازبر تھا لیکن کمال احتیاط یہ تھی کہ قرآن مجید کی آیت کو پہلے قرآن میں دیکھ کر باربار دہراتے تھے اسکی تفسیر دیکھتے تھے ،سنی و شیعہ دونوں تفاسیر پر نظر رکھتے تھے تب بیان کرتے تھے کہ ’’ قرآن کی آیت کو اپنے حافظہ پر بھروسہ کرکے نہ پڑھبا ورنہ معمولی غلطی پر بجائے ثواب کے گناہ میں مبتلا ہوجاؤگے‘‘ در حقیقت یہ مولانا کا انداز تعلیم و تربیت تھا جسکے ذریعہ وہ طلبہ کو عملی درس دیا کرتے تھے۔

مولانا نے قومی،ملی،اور شیعیان ھند کیفلاح و صلاح کے پیش نظر مجلس علماء کی بنیاد رکھی اس کے سب سے پہلے سکریٹری حجۃ الاسلام مولانا سید محسن نواب صاحب طاب ثراہ ہوئے ،مولانا خود اس کے صدر رہے ،اس کے اجلاس ممبئی،جونپور،لکھنؤ،فیض آباد،اور بنارس میں ہوئے جن میں قوم شیعہ کی فلاح و بہبود کے متعلق تجاویز پاس ہوئیں اور کچھ پر عمل بھی ہوا۔

مدرسۃ الواعظین کے مایہ ٔ ناز مبلغین جنھوں نے ملک و بیرون ملک خدمت دین اور اثبات حق کے ذریعہ مدرسہ کا نام روشن کیا اور قوم اس سے متعارف ہوئی سابق میں حافظ کفایت حسین صاحب ،مولانا عدیل اختر صاحب ، مولانا محمد عمید صاحب،مولانا ممتاز حسین صاحب ، مولانا مسرور حسن صاحب(امروہوی)،مولانا بنیاد علی صاحب مولانا محمد بشیر صاحب،مولانا لقء علی حیدری صاحب، وغیرہ اور بعد کے علماء میں مولانا غلام عسکری صاحب ،مولانا کرار حسین صاحب،مولانا کاظم رضا صاحب،مولانا محمد جواد صاحب، مولانا وزیر حسن صاحب،مولانا محمد ظہور صاحب ،مولانا شیخ محمد حیدر صاحب وغیرہ نے بیشمار خدمات انجام دی ہیں ( مبلغین کی فہرست طولانی ہے اسے اصل کتاب میں دیکھا جا سکتا ہے)مولانا غلام عسکری صاحب اور مولانا کرار حسین صاحب نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ جتنی عظیم خدمات انجام دی ہیں ان کا جواب نہیں ہے۔ادارہ تنظیم المکاتب کی تاسیس جسکے ذریعہ ہند و پاک میں ابتدائی دینی سیکڑوں مکاتب قائم ہوئے اور قوم میں دینی بیداری کی لہر آگئی ،تحریری خدمات کے لئے ان حضرات کے مضامین،تصنیفات و تالیفات کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری صاحب نے مدرسۃ الواعظین کے تعلق سے جو تحریر فرمایا ہے وہ بڑی حد تک مدرسہ کے تعارف کے لئے کافی ہے،مولانا لکھتے ہیں:۔

’’(مولانا) جابرجوراسی آج اس بوڑھے برگد ( مدرسۃ الواعظین)کو پانی دینے میں لگے ہیںجسکے سایہ میں میں نے اپنی کڑیل جوانی کے ۱۸؍سال گزارے ہیں ،مدرسۃ الواعظین کو میں نے برگد اس لئے کہا کہ برگد ہی وہ درخت ہے جسکی شاخیں جھولتے جھولتے زمین تک پہونچ جاتی ہیں اور مستقل درخت بن جاتی ہیں۔بر صغیر میں اس درخت کی بہت سی شاخیں مستقل درخت بن چکی ہیں ۔بوڑھا اس لئے لکھا کہ جب استاد محترم علامہ عدیل اختر صاحب قبلہ طاب ثراہ جوان تھے تو یہ قائم ہوا تھا استاد مرحوم اور حافظ کفایت حسین صاحب قبلہ اعلی اللہ مقامہ وغیرہ مدرسۃ الواعظین کے طلاب کی پہلی کھیپ تھی آج وہ زندہ نہیں ہیں اور ہم جو ان کے شاگردوں کی آخری صف میں شامل ہوئے تھے بوڑھے ہو چکے لہٰذا مدرسۃ الواعظین بوڑھا حاضر ہے ۔مگر چار جوانیاں آج بھی اسکی خدمت میں مصروف ہیں ،ایک نہیں دو جابر دل جوڑنے میں لگے ہیں تا کہ مدرسۃ الواعظین کی کار کردگی پھر ممتاز ہوجائے ۔اور چوتھے ادیب الھندی ہیں جو زندگی کی نئی لہر دوڑانے میں دوڑ رہے ہیں ،مولانا وصی محمد صاحب قبلہ اپنی پیرانہ سالی اور امراض کے باوجود ان جوانوں کے ساتھ ہم سفر ہیں تاکہ انکی کوششیں بارآور ہوں ،دعائیں پڑھ پڑھ کر دم کررہے ہیں کہ جوانوں کے دم پھولنے نہ پائیں ان جوانوں کی کوشش ہے کہ مدرسۃ الواعظین کی قدیم عمارت جو بارش سے متاثر ہوکر منہدم ہوچکی ہے ،کچھ کے منہدم ہونے کا خطرہ ہر وقت لگا رہتا ہے پھر سے نئی ہوجائے۔مدرسۃ الواعظین کا عظیم کتبخانہ تباہی سے بچ جائے ،جلد بندی ہوجائے ،الماریاں لوہے کی آجائیں،کتابیں اصول سے مرتب ہوجائیں ۔ہم ان تمناؤں میں سہیم ہیں کوششوں میں شریک ہیں دعا گو ہیں لیکن ملتجی ہیں کہ جبتک تعلیم کی کیاری سے تبلیغ کی کونپلیں نہیں اگیں گی اور شیعوں کو شیعہ بنانے کی وقت کی اہم ترین تبلیغ میں آپ عملی طور پر کوشاں نہ ہوںگے تو صرف نیک تمنائیں یا یاد ماضی کام نہ آئے گی‘‘۔ ( الواعظ ۔حجۃ العصر نمبر ،جون و جولائی ۱۹۸۱ء؁)

مدرسۃ الواعظین اس کا تعلیمی نظام اور تبلیغی کارناموں کے بارے میںبہت کچھ لکھا جا چکا ہے مگر اس کے مکمل حالات یکجا طور پر کتابی صورت میں کبھی نہیں لکھے گئے خداوند عالم برادر عزیز مولانا ابن حسن صاحب واعظ املوی کو طول عمر عطا فرمائے اور ان کی گرانقدر اس خدمت کو قبول کرے کہ انھوں نے اپنی تبلیغی مصروفیات کے باوجود مفصل حالات تین جلدوں میں مرتب فرمائے ہیں ،مولانا خود ایک عالم با عمل ،مبلغ بے بدل ،واعظ بصیر اور ممتاز صاحب قلم ہیں ،آپ نے ہندوستان اور دوسرے ممالک میں تبلیغ دین مبین اسلام کی مسلسل خدمت کی ہے ۔انھوں نے مقصد مدرسۃ الواعظین کو پیش نظر رکھتے ہوئے مذہب اہل بیت ؑکی تبلیغ بھی کی اور مخالفین کو دنداں شکن اور مسکت جوابات کے ذریعہ احقاق حق اور ابطال باطل کی ذمہ داری بھی پوری کی ہے۔عرصۂ دراز تک گجرات میں اور امریکہ و افریقہ میں متعدد مقامات پر اپنے بیانات و خدمات دینی سے مومنین کو فیض پہونچایا ،آپ نے زمانۂ طالبعلمی ہی سے علمی مضامین لکھنا شروع کیا اور برابر لکھتے رہے آج بھی لکھ رہے ہیں ۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

مولانا ابن حسن صاحب املوی کی یہ تالیف اپنی نوعیت کی واحد اور یادگار ہے ،اس سے قبل کوئی ایسی کتاب نہیں ملتی ہے ۔گویا مولانا نے خود ہی نقش بنایا ہے اور اسکو آراستہ و مزین کیا ہے ،کام بیحد مشکل تھا اور ہے کہ مدرسۃ الواعظین کی تاسیس سے لے کر موجودہ دور تک کے تعلیمی اور تبلیغی حالات و کیفیات کو قلمبند کرنا اور وہ بھی کمال احتیاط کے ساتھ، اس کے لئے انھیں نہ جانے کہاں کہاں کی خاک چھاننا پڑی ،کتنے دروازوں پر دستک دی ،کتنے ہی لوگوں کی پسندیدہ اور نا پسندیدہ باتوں کا سامنا کرنا پڑا ،موافق و مخالف بیانات کو سامنے رکھ کر حقائق کی تلاش میں کتنی جد و جہد کرنا پڑی اور پھر یہ سب بتوکل علی اللہ ،خا؛لصۃ ً لوجہ اللہ علمی تبلیغی درسگاہ کی ماضی و حال کی فعالیت کو اجاگر کرنے اور اسکی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے یہ ان کا قلب و جگر ہی جانتا ہوگا ۔بہر حال یہ ایک شاہکار ہے جو آپکی خدمت میں حاضر ہے۔

مجھے حقیر سراپا تقصیر سے کچھ لکھنے کے لئے فرمایا میں نے اقرار کرلیا تو کچھ لکھنا ہی پڑا ،کما حقہ تو نہیں لکھ سکا لیکن اپنی یادداشت کے مطابق کچھ باتیں تحریر کردی ہیں ممکن ہے مدرسۃ الواعظین میں تعلیم حاصل کرنے کا کچھ حق ادا ہوجائے۔میں نے مدرسۃ الواعظین کے مثبت رخ آپکے سامنے رکھ دئے ہیں منفی رخ کا تذکرہ مناسب نہیں سمجھا ورنہ کچھ نہ کچھ کمیاں اور کوتاہیاں ہیں جو غالباً ذمہ داروں کی بے توجہی کی بنا پر ہیں ( پوری کتاب میں کئی منفی پہلؤں سے عمداً صرف مفاد مدرسہ کے پیش نظر گریز کیا گیا ہے۔مؤلف)۔خدا کرے ان کی اصلاح ہو جائے اور مدرسۃ الواعظین کا روشن و تابناک و منور ماضی پھر سے واپس آجائے،تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے تو ایسا ممکن ہے۔

پروردگار !بطفیل ائمہ ٔ اطھار ؑ مدرسۃ الواعظین کی تعلیمی اور تبلیغی حیات کو دوام عطا فرما اور مولانا موصوف کی اس بیش قیمت خدمت کو شرف قبولیت فرما۔ وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ انیب۔

ناظم علی واعظ خیر آبادی

(ماخوذ از کتاب ’’تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ‘‘جلد دوئم، صفحہ ۱۱)

مدرسۃ الواعظین ایسے علمی عمل کا نام ہے جو بے مثل و بے نظیر ہے

تقریظ از قلم حقیقت رقم: سرکار روح الملت حجۃ الاسلام والمسلمین عالیجناب الحاج مولانا السید علی ناصر سعید صاحب قبلہ عبقاتی معروف بہ مولانا آغا روحی صاحب قبلہ مجتہدالعصر مدظلہ العالی آل صاحب عبقات الانوار۔ ناصریہ لائبریری۔ لکھنو ٔ

تاثرات بابت کتاب ’’تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ‘‘ (جلد دوئم)

’’ معتبر ، مستند ، مشہور ، معروف ، وسیع النظر ،عالم ، محقق ،مبلغ اور صاحب ِقلم عمدۃ الواعظین عالیجناب مولیٰنا ابن حسن صاحب قبلہ املوی کئی دہائیوں سے زبان اور قلم کے ذریعے خدمت دین میں مصروف ہیں۔

جناب موصوف ’’ تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ‘‘ کی شکل میں ہمیں ایک ایسی دستاویز عطا فرما رہے ہیں جو بر صغیر سے شروع ہو کر حقیقت میں چار دانگ عالم میں پھیلی۔

مدرسۃ الواعظین لکھنؤ میں کبھی مصر و عجم سے طلاب تحصیل و تربیت تبلیغ کے لئے آتے تھے ،(نجف وکربلا)عراق کے اھل ِخیر مومنین میں دوسری جنگ عظیم سے قبل یہ تحریک شروع ہوئی تھی کہ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ کے طرز پر وہاں بھی کوئی ادارہ قائم کیا جائے۔

سلام ان نیک ساعتوں پر اور ان نیک نفس ہستیوں پر کہ ان کی نیت خیر عمل مدرسۃ الواعظین بنی‘‘

سید علی ناصر سعید عبقاتی

ناصریہ لائبریری ۔لکھنؤ

(ماخوذ از کتاب ’’تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ‘‘جلد دوئم، صفحہ۲۱)

تاثرات بابت کتاب ’’تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ‘‘ (جلد دوئم)

نام کتاب : تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ۔(جلد دوئم)

مؤلّف : عمدۃ الواعظین عالیجناب الحاج مولانا شیخ ابن حسن صاحب قبلہ املوی واعظ۔

پروف ریڈنگ : حجۃ الاسلام عالی جناب مولانا شیخ مسرور فیضی املوی قمی

ناشر : مرکز بین المللی نور میکروفیلم ۔۱۸۔تلک مارگ۔ دہلی نو۔ھند۔با ہمکاری مدرسۃ الواعظین لکھنؤ

کمپیوٹر کمپوزنگ : شیخ محمد وصی اختر معروفی 9305652568

ایڈیشن : پہلا

تعداد کتاب : پانچ سو( 500)

تعداد صفحات : 802

تقطیع (سائز) : 20X30/8

سن اشاعت : دسمبر ۲۰۱۴ء؁

مطبوعہ : مرکز بین المللی نور میکروفیلم ۔۱۸۔تلک مارگ۔ دہلی نو۔ھند

نوٹ :کتاب ’’ تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ ‘‘ 20X30/8 سائز کی تین ضخیم جلدوں میں مولانا ابن حسن املوی (صدرالافاضل،واعظ) نے مرتب کیا ہے جو انٹرنیشنل نورمائکرو فلم ،ایران کلچر ہاؤس ،نئی دہلی کی جانب سے نہایت دیدہ زیب و خوشنما ز یور طبع سے آراستہ و پیراستہ شائع ہوچکی ہیں۔

{ خواہشمند حضرات درج ذیل پتہ پر رابطہ کرسکتے ہیں:۔ }

ث مرکز بین المللی میکروفیلم نور۔خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران،۱۸،تلک مارگ،نئی دہلی۔ہند

Phone:0091-11-23383116,E-Mail:noormicro@yahoo.com / indianmanuscript@gmail.com

http://indianislamicmanuscript.com

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .