۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
تاثرات بابت کتاب  ’’تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ‘‘جلد سوئم

حوزہ/ ڈاکٹر مھدی خواجہ پیری: مدرسۃ الواعظین لکھنؤ ہندوستان میں ایک بزرگ ترین شیعہ دینی درسگاہ ہے۔ راجہ محمد امیر محمد خاں صاحب بالقابہٗ:’’وقف مدرسۂ احمدیہ‘‘جس کے بانی و موسس مہاراجہ سر محمد علی محمدخاں صاحب اعلی اللہ مقامہٗ تھے ،مذکورہ وقف کا ایک تحتی ادارہ’’مدرسۃ الواعظین‘‘ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی |

تحریر : مولانا شیخ ابن حسن املوی

مقدمہ از قلم حقیقت رقم : ڈاکٹر مھدی خواجہ پیری ڈائرکٹر مرکز بین الملل میکرو فیلم نور ۔نئی دھلی۔ہند فارسی سے اردو ترجمہ اختصار کے ساتھ

تاثرات بابت کتاب  ’’تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ‘‘جلد سوئم

مدرسۃ الواعظین ہندوستان میں ایک بزرگ ترین اور مشہور ترین شیعہ دینی درسگاہ ہے۔ اس مدرسہ کی بنیاد راجہ محمد علی محمد خان، راجہ محمود آباد نے بمناسبت تاریخ ِ ولادت با سعادت رسول اسلامؐ 17 ربیع الاول 1338ھ بمطابق 9 دسمبر 1919ء کو لکھنؤ شہر میں اپنے جواں مرگ بھائی کی یاد میں رکھی تھی۔ مدرسہ احمدیہ شہر محمود آباد میں راجہ محمود آباد کے دوسرے اوقاف میں سے ایک تھا جو ان کے بھائی کے نام پر رکھا گیا تھا جسے احمدیہ اوقاف کا نام دیا گیا تھا۔

مدرسۃ الواعظین کے قیام کا مقصد ایسے نوجوان مبلغین اور مصنفین کو تربیت اور تعلیم دینا تھا جنہوں نے ہندوستان کے کسی اعلیٰ شیعہ دینی مدرسہ میںتعلیم حاصل کر کے اعلیٰ درجہ کی سند حاصل کی ہو ۔اور چھ سال کے عرصے میں انہیں واعظ کی سند سے نوازا گیا۔ پہلے تین سال تک طلاب کو اسلام بالخصوص ہندو، عیسائی اور پیروان ِدیگر مذاہب اور مکاتب فکر کو اسلامی بنیادوں سے متعارف کرایا گیا، وہ اسباق اور مباحثے کے لیے بیٹھتے تھے، اور طلبہ کو تقابلی فقہ اور فقہ سیکھنا پڑتا تھا تاکہ وہ دوسرے مذاہب اوران کے اصولوں اور بنیادوں سے واقف ہو سکیں۔ مخالفین کے شکوک و شبہات کا مدلل جواب دے سکیں اور دوسرے مرحلے میں طلبہ شیعہ مذہب کی بنیادوں اور اصولوں سے واقف ہوں گے تاکہ مخالفین کے مقابلے میں شیعہ مسلک کی بنیادوں کا دفاع کرسکیں۔

تاثرات بابت کتاب  ’’تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ‘‘جلد سوئم

مذاہب اور مذاہب کے عقائد سے مکمل آشنائی کے تین سال بعد طلبہ کو مبلغ کے عہدے پر ترقی دی گئی اور اگلے تین سال کی مدت کے لیے انھیں مختلف ممالک میں تبلیغ کے لیے بھیجا گیا، انھوں نے چین،جاپان،فرانس، تھائی لینڈ، مڈغاسکر، بحرین، سھگا پور وغیرہ کا سفر کیا۔ اور مکتب اسلام کے لیے گرانقدر خدمات انجام دیں اور مختلف ممالک میں ہزاروں لوگوں کو مذہب اہل بیت ؑ سے آشنا و متعارف کرایا۔

اس مدرسہ میں مبلغین کی تعلیم و تربیت کے علاوہ اسلامی علوم کی نشر واشاعت کے لئے مختلف شعبے قائم تھے۔

ماہنامہ رسالے:۔ اس مدرسہ کے دو ماہانہ رسالے انگریزی اور اردو میں شائع ہوتے تھے۔ انگریزی زبان کا مسلم ریویو ماہانہ رسالہ، جو مسلم اور غیر مسلم محققین اور مفکرین کے لیے باقاعدگی سے شائع ہوتا تھا، اور ہندوستان کی سرحدوں سے باہر کے محققین کے لیے دلچسپی کا باعث تھا، اور اردو زبان کا ماہنامہ الواعظ جو کہ اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کی تشریح کے لیے باقاعدگی سے شائع ہوتا تھا اور مسلمانوں بالخصوص برصغیر پاک و ہند کے شیعوں نے اس کا خیر مقدم کیا تھا۔

موید العلوم: یہ مدرسۃ الواعظین کا تحقیقی شعبہ تھا۔ اسلامی مسائل و بنیادوں کے میدان میں اس تحقیقی مرکز کے قیام کا مقصد مخالفین کے شکوک و شبہات کا مختلف زبانوں میں جواب دینا تھا۔اس شعبہ سے تعلق رکھنے والے صفدر پریس میں اس مدرسہ کے محققین و مدرسین و طلاب کی تالیفات و تصنیفات و تراجم پر مبنی مختلف زبابوں میں کتابیں شائع ہوئیں۔

صفدر پریس: یہ ایک پرنٹنگ ہاؤس تھا جسے نواب سید صفدر سلطان والی شمس آباد نے اسلامی معارف بالخصوص شیعہ کتابوںکی طباعت واشاعت کی غرض سے مدرسۃ الواعظین کےلیے خریدا تھا۔ مدرسۃ الواعظین کی کتابوں کی طباعت کے علاوہ یہ پرنٹنگ پریس دوسری کتابیں بھی چھاپتا تھا اور اسے لکھنؤ کے معتبر ترین پرنٹنگ ہاؤسز میں شمار کیا جاتا تھا۔بدقسمتی سے اس پرنٹنگ ہاؤس کی عمارت کو بعد میں دیگر مقاصد کے لیے لیز پر دیا گیا اور اس کی پرنٹنگ مشینیں تباہ ہو گئیں۔

ہندوستان کی تقسیم کے بعد دو ممالک ہندوستان اور پاکستان، اور بہت سے ہندوستان سے مسلمانوں کی نوبنیاد ملک پاکستان کی طرف ہجرت کے بعد، شیعہ مذہبی تنظیموں اور مراکز کو مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور بہت سے مذہبی اور تبلیغی مراکز بند ہو گئے۔ ان سالوں میں صفدر پریس کی عمارت 99 سال کے لیے لیز پر دے دی گئی۔ موید العلوم کو بند کر دیا گیا اور گراں قدر علمی مجلہ مسلم ریویو کو معطل کر دیا گیا، مدرسہ میں طلباء کی تعداد کم ہو گئی اور اساتذہ نے سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مدرسہ چھوڑ دیا۔

تاثرات بابت کتاب  ’’تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ‘‘جلد سوئم

۔۔۔ اور آج یہ ایک ایسا مدرسہ ہے جو کبھی ہندوستان کا سب سے بڑا شیعہ دینی مدرسہ سمجھا جاتا تھا بند کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس ادارہ کی لائبریری کی بہت سی شاندار کتابیں ضائع ہو گئی ہیں۔ اس عرصے کے دوران اس عظیم درسگاہ کو محفوظ رکھنے کے لیے مدرسۃ الواعظین کی تاریخ کو مرتب کرنا تھا، حجۃ الاسلام مولانا ابن حسن املوی واعظ سابق مدیر مجلہ الواعظ ان چند افراد میں سے ہیں جو مدرسہ کی تاریخ سے آشنائی رکھتے ہیں۔ مشورے اور درخواست کے بعد انہوں نے تاریخ مدرسۃ الواعظین 3 جلدوں میں لکھنے کے لیے اقدام کیا اور اللہ کا شکر ہے کہ کتاب تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ ،انٹرنیشنل نور مائکرو فلم سینٹر پرنٹنگ پریس میں باوقار شکل میں زیور طبع سے آراستہ ہو کر شائع ہوئی۔

امید ہے کہ ائمہ معصومین صلوات اللہ اجمعین کی عنایات و توجہات سے ان شاءاللہ یہ مدرسہ دوبارہ پر رونق ہوگا اورپروان چڑھے گا اور مکتب اہل بیت کے علماء اور خادمین کی پرورش ہوگی۔

( تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ، جلد 3، صفحہ 14 سے ماخوذ)

عالی جناب راجہ محمد امیر محمد خاں صاحب بالقابہٗ(المعروف بہ سلیمان میاں) موجودہ متولی منتظم وصدر مجلس تولیتِ ادارۂ مدرستہ الواعظین،لکھنؤ

تاثرات بابت کتاب  ’’تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ‘‘جلد سوئم

’’ ۱۹۶۴؁ء میں مرحوم سر کار خاں بہادر راجہ محمد امیر احمد خاں صاحب بہار نور اللہ مرقدہٗ نے اُن تمام اوقاف سے استعفیٰ دے دیا تھا جن کے جناب ممدوح الشان’متولی‘ متولی منتظم یا صدر مجلس تولیت تھے اور ازروئے وقف نامہ جات اپنے فرزند سعید جناب راجہ محمد امیر محمد خاں صاحب کو تمام اُن اوقاف کا متولی نامزد کریا۔’’وقف مدرسۂ احمدیہ‘‘جس کے بانی و موسس راجہ صاحب موصوف کے جدّامجد، مہاراجہ سر محمد علی محمدخاں صاحب اعلی اللہ مقامہٗ تھے ،مذکورہ وقف کا ایک تحتی ادارہ’’مدرسۃ الواعظین‘‘ہے اس میں بھی جناب ممدوح رکنِ مجلس تولیت ہوئے اور خان بہادر راجہ محمد امیر احمد خاں صاحب بہادر نوراللہ مرقدہٗ کی وفات (۱۴؍اکتوبر ۱۹۷۳؁ء) سے ازروئے وقف نامہ’’وقفِ مدرسۂ احمدیہ‘‘ بحیثیت مسند نشین ریاست محمودآباد ، جناب ممدوح الشان صدر مجلسِ تولیت بھی ہوگئے۔لیکن اس وقت جناب ممدوح کے عم نامدادعالی مرتبت جناب مہاراجکمار امیر حیدر خاں صاحب بہار اعلی اللہ مقامہٗ بیرسٹر۔ایٹ۔لامتولی منتظم رہے۔دسمبر ۱۹۹۱ ؁ء میں مہاراجکمار و محمد امیر حیدر خاں صاحب ۔مرحوم و مغفور کے انتقال کے بعد متولی منتظم کی ذمہ داریاں بھی عالی جناب راجہ صاحب بالقابہٗ نے سنبھالیں۔اور جناب مہاراجکمار صاحب وا علی اللہ مقامہٗ کے دورِ علالت سے انتقال تک جو انتظامی کمزوریاں پیدا ہوگئی تھیں اُنہیں حتی المقدور درست کرنے میں منہمک ہوگئے‘‘۔( ماخوذ از کتاب ’’تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ،جلد سوئم۔صفحہ۶۹۵)

تاثرات بابت کتاب  ’’تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ‘‘جلد سوئم

نام کتاب : تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ۔(جلدسوم)

مؤلف : عمدۃ الواعظین عالیجناب الحاج مولانا شیخ ابن حسن صاحب قبلہ املوی واعظ

پروف ریڈنگ : حجۃ الاسلا م مولانا شیخ مسرور فیضی املوی قمی

ناشر : مرکز بین المللی نور میکرو فیلم۔نئی دہلی،ھند۔باہمکاری مدرسۃ الواعظین لکھنؤ

کمپیوٹرکمپوزنگ : شیخ محمد وصی اختر معروفی 9305652568

ایڈیشن : پہلا

تعداد : ۵۰۰

تعداد صفحات : ۷۰۴

تقطیع(سائز) : 20x30/8

سن اشاعت : دسمبر ۲۰۱۴ء؁

مطبوعہ : مرکز بین المللی نور میکرو فیلم۔نئی دہلی،ھند

تاثرات بابت کتاب  ’’تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ‘‘جلد سوئم

نوٹ :کتاب ’’ تاریخ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ ‘‘ 20X30/8 سائز کی تین ضخیم جلدوں میں مولانا ابن حسن املوی (صدرالافاضل،واعظ) نے مرتب کیا ہے جو انٹرنیشنل نورمائکرو فلم ،ایران کلچر ہاؤس ،نئی دہلی کی جانب سے نہایت دیدہ زیب و خوشنما ز یور طبع سے آراستہ و پیراستہ شائع ہوچکی ہیں۔

خواہشمند حضرات درج ذیل پتہ پر رابطہ کرسکتے ہیں:

مرکز بین المللی میکروفیلم نور۔خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران،۱۸،تلک مارگ،نئی دہلی۔ہند

Phone:0091-11-23383116,E-Mail:noormicro@yahoo.com / indianmanuscript@gmail.com

http://indianislamicmanuscript.com

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .