حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا حکیم امجد علی خاں سن 1826 عیسوی میں امروہہ کے علمی خاندان میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد مولانا حکیم ابو علی خاں کا شمار اپنے وقت کے معروف علماء میں ہوتا تھا۔ موصوف کو بچپن ہی سے علم دین کے حصول کا شوق تھا۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی پھر اس کے بعدلکھنو کا رخ کیا اور جید علماء و فضلاء بالخصوص سلطان المحققین مولانا سید سراج حسین بن مفتی محمدقلی کنتوری اورسید المتکلمین "میر حامد حسین صاحب عبقات الانوار " سے کسب فیض کیا۔
مولانا حکیم امجد علی نیک سیرت، نیک کردار ، مقدس، متقی عالم، جملہ صفات جمیلہ کے حامل تھے۔ مطالعہ کتب اور تصنیف و تالیف موصوف کی زندگی کا محبوب مشغلہ تھا آپ نےاپنی آخری سانس تک قلم اور کاغذ ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور تصنیف و تالیف میں میں مصروف رہے۔
موصوف علم تاریخ، کلام، فقہ، اصول، حدیث ، تفسیر پر گہری نظر رکھتے تھے، تاریخ کا اس حد تک علم تھا کہ تاریخ انبیاء، تاریخ اسلام تاریخ ملل و نحل، تاریخ ممالک ایسے بیان فرماتے کہ جیسے آپ ہی کے سامنے واقعات رونما ہوئے ہوں ۔
مولانا حکیم امجد علی طبیب، عالم اور محقق ہونے کے ساتھ اعلیٰ مناصب پر رہ کر خدمات انجام دیتے رہے۔ سن ۱۸۵۶ عیسوی میں شاہ جہاں پور میں تحصیلدار اور امروہہ میں آنریری مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز رہے، مگر ان تمام اعلیٰ مناصب کی مصروفیت کے باوجود مذہبی ذمہ داریوں سے غافل نہیں رہے۔
موصوف ماہر طبیب تھے اللہ نے سیکڑوں مریضوں کوآپ کے ہاتھ سےشفا عطا فرمائی، آپ نے طبابت کو کبھی پیشہ نہیں بنایا، ہمیشہ خدمت خلق کے لئے علاج و معالجہ کرتے رہے۔ آپ جون ۱۸۸۸عیسوی کو زیارات عتبات عالیات کے لئے ایران اور عراق تشریف لے گئے ۔
مولانا حکیم امجد علی نے امروہہ میں دینی تعلیم کیلئے ایک درسگاہ کی ضرورت کومحسوس کیا تو 1/اگست سن ۱۸۹۲ عیسوی میں درسگاہ کی بنیاد رکھی جس میں قوم کے دوسرے افراد نے بھی حصہ لیا۔ یہ درسگاہ آج بھی تشنگان علوم کوسیراب کر رہی ہے جسکو "سید المدارس" کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔آپ نے اورنگ آباد ضلع متھرا میں ایک عالیشان تعلیم گاہ قائم کی جس سے وہاں کے بچے مستفیض ہوتے رہے ہیں۔
آپ نے شہر متھرا میں شیعہ حفاظ کا ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کیا، جس میں تین سو شیعہ حفاظ نے حصہ لیا ، یہ جلسہ آٹھ روز تک چلا ، جس میں ملک کے گوشہ گوشہ سے لوگوں نے شرکت کی ، امروہہ سے بھی کافی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی جن میں سید الحفاظ سید محمد اسماعیل اور حافظ سید بشیر علی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
دوسرا جلسہ شہر بنارس میں منعقد کیا اس میں بھی کثیر تعداد میں حفاظ کرام نے شرکت کی اور امروہہ سے حافظ سید محمد اسماعیل، حافظ سید محمد اسرائیل اور حافظ سید منظور نے حصہ لیا۔ آپ نے امروہہ میں حفظ قرآن کیلئے ایک دارالقرآن قائم کیا۔ حفظ قرآن کے اساتذہ میں حافظ محمد علی خان اور حافظ سید زمرد حسن نے بہت سے بچوں کو قرآن مجید حفظ کرایا ۔
آپ نے اشرف المساجد محلہ شفاعت پوتہ کی تعمیر میں کافی سرمایہ خرچ کیا اور اس میں ایک دھوپ گھڑی سنگی صحن میں نصب کی جس سے آسانی سے نماز کے وقت کا پتہ ہو جاتاتھا۔یہ گھڑی آج بھی مسجد کے گوشتہ میں نصب ہے ۔
مولانا حکیم امجد علی خان کو درس و تدریس سے بہت لگاؤ تھا۔آپ کے حلقہ درس میں شیعہ و سنی دونوں طلباء شرکت فرماتے تھے موصوف نے بہت سے شاگردوں کی تربیت کی جن میں: سید احمد حسین ، حکیم مولوی سید مصطفیٰ ، حکیم سید گلشن ، مولوی احمد حسین ، مولوی حامد حسین ، جناب ظفریاب خانصاحب بجنوری، آل نبی اور سردار احمد خاں وغیرہ کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں۔
مولانا حکیم امجد علی خان نے تمام مصروفیت کے باجود تصنیف و تالیف میں بھی نمایاں کردار ادا کیا آپ کے آثار میں : تنزیہ القرآن، معراج المعرفہ، کنز المعرفه، ناصر الایمان، جواہر زواہر، فرائد الفوائد، کشف الرین فی اثبات العزاء علی الحسین، اور تحفہ اثنا عشری کے باب حدیث ثقلین کا مدلل جواب کے نام لئے جا سکتے ہیں ۔
اللہ نے آپ کو دو فرزند عطا کئے جو بیرسٹر حامد علی خان اور نواب علی خاں کے نام سے پہچانے گئے۔
آخرکار یہ علم و حکمت کا چمکتا آفتاب۱۴/اکتوبر سنہ ۱۹۰۰ عیسوی میں سرزمین امروہہ پر غروب ہو گیا ۔آپ کے اانتقال کی خبر بجلی کے مانند ملک کے کونے کونے میں پھیل گئی۔پورے ملک میں غم کے بادل چھا گئے۔ نماز جنازہ کے بعد مجمع کی ہزار آہ و بکاء کے ہمراہ عزاخانہ چھجی محلہ قاضی گلی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ مولانا حکیم امجد علی خاں کیلئے ملک بھر میں تعزیتی جلسے اور مجالس کا اہتمام کیا گیا، شہر امروہہ میں آپ کے ایصال ثواب کیلئے آپ کے شاگردوں نے 70 قرآن پڑھ کر اسکا ہدیہ پیش کیا۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج10، ص234 دانشنامۂ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2024ء









آپ کا تبصرہ