حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا قاری سید عباس حسین جارچوی سن 1824عیسوی میں سرزمین دہلی، پر پیدا ہوۓ۔ آپ کے والد، علامہ جعفر علی رضوی کا شمار اپنے وقت کے عظیم حفاظ، قراء اور علماء میں ہوتا تھا۔آپ کی ابتدائی تعلیم اور بچپن دہلی میں گزرا۔ دہلی اُس وقت ایک علمی مرکز تھا، جہاں مختلف مکاتب فکر کے علما ءموجود تھے اسی فضا میں آپ کے والد بھی دہلی میں وظیفہ تدریس انجام دے رہے تھے اورموصوف نے اپنے والد کی نگرانی میں ابتدائی تعلیم اورعلمی تربیت پائی۔ آپ عالم ہونے کے ساتھ بہترین قاری اور حافظ قرآن تھے۔
موصوف نے ابتدائی تعلیم کے بعد مشہور اساتذہ سے کسب فیض کیا اور اصول، فقہ، کلام، منطق اور فلسفہ جیسے علوم میں مہارت حاصل کی۔ علامہ اپنے والد کی وفات کے بعد دہلی کالج میں پروفیسر کی حیثیت سے منتخب ہوئے، علامہ قاری عباس جارچوی کی شخصیت بھی اپنے والد کی طرح علم و فضل سے سرشار تھی آپ کے تدریسی طریقے میں والد کی خصوصیات واضح طور پر نظر آتی تھیں فن قرات میں بھی آپ اپنے والد کے شاگرد تھے ۔
موصوف کا فن قرائت کا یہ عالم تھا کہ ایک انگریز سیاح کالج میں آیا تو اس نے پرنسپل سے کہا کہ کہ کالج میں کوئی قاری بھی ہے تو پرنسپل نے کہا قاری تو ایسا ہے جو ہندوستان میں لا جواب ہے اس سیاح نے آپ سے ملاقات کی کچھ عربی الفاظ کے مخارج دریافت کئے تو آپ نے بتا دئے تو اس نے کہا یہ تو سب ہی بتلاتے ہیں ادا کرکے بتلائیے آپ نے کچھ الفاظ کو مخرج کے ساتھ ادا کئے تو وہ سیاح حیرت میں پڑ گیا اور اس نے پرنسپل سے کہا کہ آپ نے مولانا کی کم تعریف کی ہے میں نے ایسا ممتاز قاری مصر وغیرہ میں نہیں دیکھا کہ جنکی زبان میں قرآن ہے۔
سن 1857 عیسوی میں ہندوستان میں برطانوی حکام کے خلاف جنگ آزادی میں دہلی میں سیاسی اور سماجی فضا میں غیر معمولی تناؤ قائم ہوا تو آپ نے اس ماحول کو محسوس کرتے ہوئے دہلی چھوڑ کر حیدرآباد جانے کا فیصلہ کیا۔ حیدرآباد میں آپ کچھ وقت مقیم رہے اور اسی دوران آپ کو سرسالار جنگ سلطان نے شمس العلماء کے خطاب سے نوازا۔ حیدر آباد میں آپ کی سر سید احمد خان سے ملاقات ہوئی وہ وہاں علی گڑھ یونیورسٹی کیلئے چندہ جمع کرنے گئے ہوئے تھے ۔ سرسید احمد خان نے مولانا عباس حسین سے درخواست کی کہ وہ مالی مدد کے لیے ان کےساتھ چلیں، تاکہ مسلم یونیورسٹی کی ترقی میں مدد مل سکے۔ مولانا عباس حسین نے جواب دیا ہمیں لوگوں کی ترقی کے لیے کام کرنا چاہیے میں اس راہ میں آپ کے ساتھ ہوں۔اس کے بعد سرسید احمد خان نے قاری عباس حسین کو علی گڑھ یونیورسٹی میں تدریس کی دعوت دی، اس طرح آپ سن 1876 عیسوی میں علی گڑھ یونیورسٹی میں تدریس کے لیے پہنچے۔ یہاں آپ نےطلبہ کو اسلامی فقہ کی گہرائیوں سے آشنا کیا اسی کے ساتھ جدید تعلیم کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔
خواجہ الطاف حسین حالیؔ اپنی کتاب "حیات جاوید" میں لکھتے ہیں کہ سرسید کی صداقت اور امانت کی بدولت ان کے دوست نادرالوجود تھے، جن میں مولانا عباس حسین بھی شامل تھے۔ مولانا عباس حسین اپنی زندگی بھر سرسید کے وفادار رہے۔ شبلی نعمانی بھی ان کے رفقاء میں تھے اور ان کے درمیان کوئی بھی تعارف نہیں تھا۔
مولانا عباس حسین کا علمی مقام صرف تدریس تک محدود نہیں تھا، بلکہ آپ نے سیاست میں بھی ایک مثبت کردار ادا کیا۔ آپ نے انگریزی تعلیم کو ایک گناہ سمجھنے کے رویے کے خلاف آواز اٹھائی اور اس کے مخالفین کو اپنی باتوں سے قائل کرنے کی کوشش کی۔ سرسید احمد خان نے علی گڑھ میں انگریزی تعلیم کو شروع کیا تاکہ مسلمانوں کی علمی ترقی کے لیے ایک نئی راہ ہموار ہو سکے۔ مولانا عباس حسین جارچوی نے اس میں مکمل حمایت کی۔
مولانا موصوف کی تدریس میں سنی اور شیعہ دونوں طبقوں کے طلبہ دلچسپی لیتے تھے۔ ان کی شخصیت نے طلبہ کو اپنے علم سے متاثر کیا اور دونوں مکاتب فکر کے طلبہ ان سے بہت متاثر تھے۔ آپ نے بیواؤں کے لیے ایک خاص تحریک شروع کی تھی، جس میں آپ کامیاب ہوئے اور بیواؤں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز بلند کی۔ مولانا عباس حسین نے اپنی زندگی میں متعدد علمی آثار چھوڑے جن میں سے کچھ اہم کتابیں اس طرح ہیں: الفرائد البہیہ ، ہدایت الصلاۃ، نکاح بیوگان، المتین، ازالۃ الاوہام، کشکول عباسی، حسام عباسی، وغیرہ۔ اللہ نے آپ کو دو فرزند عطا کیئے جن کونصیر عباس اور ناصر عباس کے نام سے پہچانا گیا۔
آخر کار یہ علم و حکمت کا آفتاب سن 1926ہجری میں سرزمین جارچہ پر غروب ہو گیا نماز جنازہ کے بعد مجمع کی ہزار آہ و بکا کے ہمراہ اپنے آبائی قبرستان جارچہ میں سپر خاک کر دیا گیا۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا غافر رضوی چھولسی ومولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج5، ص159، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2023ء۔









آپ کا تبصرہ