حوزہ نیوز ایجنسی | فخرالعلماء مولانا مرزا محمد عالم سن 1936 عیسوی میں سرزمین لکھنؤ صوبہ اترپردیش پر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مولانا حکیم مرزا ابوالقاسم کا شمار اپنے وقت کے عظیم علماء اور حکماء میں ہوتا تھا۔ وہ بمبئی کی خوجہ شیعہ اثناعشری مسجد میں امام جماعت کے فرائض انجام دیتے رہے اور وہیں داعی اجل کو لبیک کہا۔
فخر العلماء بچپن ہی سے غیر معمولی فہم و ادراک کے مالک تھے آپ نےچند ماہ میں پورا قرآن مجید پڑھ لیا تھا۔ موصوف علم و ادب سے خاص رغبت رکھتے تھے ۔ اردو، عربی اور فارسی کی ابتدائی تعلیم گھرہی پر حاصل کی ۔ ابتدائی تعلیم کے بعد مصاحب گنج اسکول میں داخل کیے گئے کچھ وقت کے بعد آپ کے والد مولانا حکیم مرزاابوالقاسم نے اپنے پاس ممبئی بلا لیا۔ وہاں پہنچ کرمولانا سید اکبر علی منچری سے کسب فیض کرنے لگے۔
آپ سن 1942 عیسوی میں سایہ پدری سے محروم ہوگئے تو موصوف ممبئی سے لکھنؤ واپس آگئے اور اپنے ماموں مولانا مرزا محمد ذکی کی سرپرستی میں اپنی زندگی کے سفر کو جاری رکھا۔آپ کے ماموں نے حسین آباد گورمنٹ اسکول کے درجہ پنجم میں داخلہ کرادیا ۔ کچھ دنوں بعد فخرالعلماء نے اپنے ماموں سے خواہش ظاہر کی کہ وہ انہیں علم دین حاصل کرنے کیلئے کسی عربی مدرسہ میں داخل کرا دیں۔
آپ کے ماموں نے موصوف کا دینی رجحان دیکھ کر سن 1943 عیسوی میں سلطان المدارس لکھنؤ کے درجہ سوم میں داخل کرادیا۔ آپ نے سلطان المدارس کے درجہ صدرالافاضل تک تعلیم حاصل کی اور آخری سند "صدرالافاضل" امتیازی نمبروں سے حاصل کی ۔ اسی دوران الہ آباد بورڈ، لکھنؤ یونیورسٹی اور شیعہ عربی کالج سے بھی اعلی نمبروں کے ساتھ سندیں حاصل کیں۔
آپ کے اساتذہ میں مفتی اعظم مولانا احمد علی ، نادرۃ الزمن مولانا سید ابن حسن نونہروی، محسن الملت آیت اللہ محسن نواب ، صفوۃ العلماء مولاناسید کلب عابد، زبدۃ العلماء مولانا سیدمحمد صادق اور مولانا سید حسین وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں۔
سن1957 عیسوی میں تحصیل و تکمیل علوم کی خاطرعراق تشریف لے گئے ۔عراق پہنچنے کے بعد چند ماه کربلائے معلی میں قیام فرمایا اور کتاب شرح کبیر کو دوبارہ مولانا سید حسن مرحوم سے پڑھا۔ اس کے بعد نجف اشرف میں آغا شیخ محمد علی بربری ، آغا مرزا اسلم خراسانی،آقائے سیدنصر اللہ المستنبط،آقائے شیخ علی فلسفی، آقائے سید جواد تبریزی اور آیت اللہ شہاب الدین مرعشی وغیرہ سے فقہ و اصول کے درسیات کی تکمیل کی اور آیت اللہ سید اسداللہ معروف بہ حاجی آغا سے رسائل و مکاسب پڑھ کر کمال کو پہنچے۔
آپ نے آیت اللہ سید محسن الحکیم طباطبائی، آیت اللہ سید حسین حمامی، آیت اللہ سید محموود شاہرودی، آیت اللہ سید ابوالقاسم خوئی، اور آیت اللہ سید عبداللہ شیرازی کےدرس خارج میں شرکت فرمائی۔ فخرالعلماء کی علمی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے علمائے عراق اور ایران نے اجازات سے نوازا ۔
موصوف سن ۱۹۶۱عیسوی میں نجف اشرف سے ہندوستان واپس تشریف لائے۔ مؤمنین اور دیگراداروں نےآپ کا بہت جوش و خروش سے استقبال کیا۔آپ نے اپنی پوری زندگی دین و شریعت، قوم و ملت کی خدمت کے لئے وقف کردی تھی۔
آپ بہترین مدرس تھے نجف اشرف میں قیام کے دوران ہی طلاب کو ادبیات، معقولات اور عقائد کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ جب ہندوستان واپس آئے تو درس وتدریس اور تبلیغ دین میں مصروف ہو گئے یہاں تک کہ 15/اکتوبر 1974 عیسوی میں حوزہ علمیہ جامعۃ التبلیغ کی بنیاد رکھی۔ یہ حوزہ کچھ عرصہ امامبارگاہ غفرانمآب اور رستم نگر میں فخرالعلماءکےشریعت کدہ پر رہا اس کے بعد مصاحب گنج میں فخرالعلماء کی آبائی عمارت میں منتقل ہوا۔اس درسگاہ کے تربیت یافتہ آج تک دنیا کے گوشہ گوشہ میں معارف اہلبیت پہنچا رہے ہیں۔ فخرالعماء کی وفات کے بعد خطیب اکبر مرزا محمد اطہر کی سرپرستی میں آپ کے فرزنداکبرمولانا مرزا جعفر عباس نے حوزہ علمیہ جامعۃ التبلیغ کی ذمہ داریوں کو سنبھالا شب و روز حوزہ کی ترقی کے لئے کوشاں رہتے ہیں جانشین فخرالعلماء نے حوزہ کے ساتھ ساتھ انگریزی میڈیم اسکول کھولا تاکہ تشنگان علوم سیراب ہوتےرہیں۔
مولانا مرزا محمد عالم اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ قلمی دنیا کے بھی ماہر انسان تھے۔عراق جانےسے پہلے علمی جریده "العلم" کے مدیر اعلی رہے، اور اہمیت نماز ، محيط الدائرہ اور نقد الشعر کی تلخیص فرمائی ۔ عراق میں قیام کے دوران علامہ حلی کی کتاب "شرح تجرید" کا اردو میں ترجمہ کیا۔ عراق سے واپسی کے بعدڈھائی درجن سے زیادہ کتابیں تصنیف فرمائیں۔آپ شعرو ادب پر دسترس رکھتے تھے بہت زور گوئی سے شعر کہتے تھےآپ کے قصائد انتہائی مرصع اور فصاحت و بلاغت کا اعلیٰ شاہکار ہوتے تھے۔
آپ بہترین مدرس اور مبلغ ہونے کے ساتھ بے مثل خطیب اور ذاکر بھی تھے فخرالعلماء کی خطابت کا انداز نہایت دلکش تھا مشکل سے مشکل مطالب آسانی سے سمجھادیا کرتے، واقعات کو یوں پیش کرتے کہ پورا منظر سامعین کے سامنے آجاتا ۔ مصائب بھی انتہائی اثرانگیز و گریہ خیز بیان فرماتے۔ فخرالعلماءعراق میں قیام کے دوران شام غریباں کی مجلس خیمہ گاہ حسینی کربلائے معلیٰ میں خطاب فرماتے ، مجلس میں مؤمنین کی کثیر تعداد ہوتی، خیمہ گاہ کی عمارت میں جگہ کم پڑجاتی تھی۔ سرزمین عراق پر آپ نے اپنے عہد میں جو شہرت و مقبولیت حاصل کی وہ اردو زبان کے خطباء میں اس سے پہلے اور بعد میں کسی کو میسر نہ ہوئی۔آپ نے خطابت کے سلسلہ میں ملک اور بیرون ملک میں بہت سے سفر کیے۔فروغ عزاداری میں کوشاں رہتے،لکھنؤ کی عزاداری پر سے پابندیاں ختم کرانے کی تحریکوں میں پیش پیش رہتے تھے۔
فخرالعلماء شب و روزعبادت الہی، خطابت، وعظ، مطالعہ، تصنیف و تالیف، قومی و مذہبی مسائل کا حل، قومی اداروں کا انتظام اور دیکھ بھال، مدینۃ العلم اخبار کی اشاعت کے تمام امور، مؤمنین کے اختلاف کوختم کرنا اور مختلف مقامات سے آنے والے مومنین سے ملاقات اور ان کے مسائل کے حل میں مصروف رہتے تھے۔
مولانا مرزا محمد عالم اکثر قومی تحریکوں کے روح رواں رہے بہت سے اداروں سے کسی نہ کسی حیثیت سے آپ کا تعلق رہا ان میں: آل انڈیا شیعہ کانفرنس، دارالمطالعہ کمیٹی، سرفراز قومی پریس بورڈ ، کل ہند مجلس ذاکرین، اداره عالیہ تبلیغ و اشاعت ، آل انڈیا شیعہ یوتھ فیڈریشن، ادارہ تنظیم ملت، مدرسہ ایمانیہ ناصر یہ جونپور، مسلم پرسنل لابورڈ اور شیعہ کالج کی مجلس عامہ وغیرہ کے نام شامل ہیں۔
فخرالعلماء ہمیشہ قوم و ملت کے مسائل کوحل کرنے کی جدوجہد میں لگے رہتے تھے۔آپ نے لوگوں کے تعلیمی اورمعیشتی حالات کو بہتر کرنے کے لئے بہت سے بزرگوں سے ملاقاتیں کیں جن میں ہندوستان کے وزیر اعظم شری راجیوگاندھی، آل انڈیا کانگریس کے جنرل سکریٹری شری اردن نہرو اور اترپردیش کے وزیراعلیٰ شری وشنوپرتاب سنگھ وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں۔
اس کے علاوہ آپ نے قوم و ملت کی دینی، سماجی، اخلاقی، تعلیمی اور اقتصادی مشکلات کی وجوہات اور ان کے حل کے لئے عالمی پیمانے پر ممبئی میں کانفرنس کی جس میں ملک اور بیرون ملک سے علماء دانشوران، اور مفکرین نے شرکت فرمائی اورقوم و ملت کی مشکلات کو حل کرنے کی تجاویز بھی پیش کیں۔
اللہ نے آپ کودو بیٹیاں اور چار بیٹے عطا کیے جو مولانا مرزا جعفرعباس، مولانا مرزا رضاعباس، مرزا حیدر عباس، مرزا مہدی عباس کے نام سے پہچانے گئے۔
فخرالعلماء کو تعلیم اورتعلم سے اتنا لگاؤ تھا کہ شب و روز کوشش و تلاش میں لگے رہتے تھے یہاں تک کہ اپنی زندگی کے آخری روز اپنے ہاتھوں سے حوزہ علمیہ جامعۃ التبلیغ کےفخرالعلماء ہال کی چنائی کی اور کوشش یہ تھی کہ آج ہی یہ کام مکمل ہوجائے کام مکمل ہونے کے بعد آپ ایک مقام پر جھاڑو لگانے لگے تو کسی نے آکر کہا جناب یہ کیا کر رہے ہیں تو آپ نے فرمایا یہاں میری قبر بنے گی اسلئے صاف کر رہا ہوں۔
اسی روز شام کے پانچ بجے طلاب کو حوزہ علمیہ کے صحن میں جمع کیا اور کہا آج تم سب کو میں اپنے ہاتھوں سے پوریاں تل کے کھلانا چاہتا ہوں فورا اپنی جیب سے پیسے نکالے اور سامان منگوایا تمام تیاریوں کے بعد خود چولہے کے پاس بیٹھ گئے اور پوریاں تلتے جا رہے تھے اور طلاب کو محبت اور پیار سے کھلاتے جارہے تھے اس روز آپ کاانداز ہی الگ تھا۔ کسی کو معلوم نہیں تھا اس شفیق اور مہربان استاد کا یہ آخری روز ہے اس کے بعد طلاب فخرالعلماء کی شفقت و محبت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محروم ہوجائیں گے۔
آخر کاریہ علم و عمل کاآفتاب 7/ جنوری1985عیسوی صبح 7/ بجے غروب ہوگیا۔ چاہنے والوں کا مجمع شریعت کدہ پر امنڈ پڑا دکانیں بند ہوگئیں غسل و کفن کے بعد جسد مبارک مؤمنین، علماء اور طلاب کےمجمع کی ہمراہی میں رستم نگر سے مصاحب گنج لایا گیا اور مولانا محمد ذکی آل نجم العلماء کی اقتداء میں نماز جنازہ ادا کی گئی، حسب وصیت آپ کےآبائی مکان جس میں حوزہ علمیہ جامعة التبليغ قائم ہے میں سپرد خاک کردیا گیا۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج9، ص331، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2023ء۔
آپ کا تبصرہ