حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا شیخ ممتاز علی ابن محمد صدیق 25/اگست 1957 عیسوی میں سرزمین غازی پور صوبہ اترپردیش پر پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی پھر اس کے بعد بنارس کا رخ کیا اور جوادیہ عربی کالج میں ظفرالملت مولانا ظفرالحسن ، مولانا سید احمد حسن وغیرہ سے کسب فیض کیا۔
جوادیہ عربی کالج بنارس سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد فخرالافاضل کی سند حاصل کی۔پھر لکھنؤ کا سفر اختیارکیا اور برصغیر کی مشہور و معروف درسگاہ مدرسۃ الواعظین میں نادرۃ الزمن علامہ ابن حسن نونہروی، علامہ وصی محمد، اور مولانا مجتبیٰ علی خان ادیب الہندی سے کسب فیض کیا اور واعظ کی سند حاصل کی۔آپ نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے حوزہ علمیہ قم المقدسہ کا سفر کیا اور وہاں مدرسہ حجتیہ میں جید اساتذہ کرام کی خدمت میں رہ کر فقہ و اصول میں مہارت حاصل کی۔ مولانا ممتاز علی نے قم میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی زندگی کو دینی خدمات اور لوگوں کی رہنمائی کے لئے وقف کر دیا تھا۔
آپ نےسن 1988عیسوی میں افریقہ کا رخ کیا اور جرمنی، ہالینڈ وغیرہ میں سن 1992 عیسوی تک وظائف دینی انجام دیے۔ اور اسی سال ہندوستان واپس آئے دہلی کی انتظامیہ نے ظہیر زیدی مرحوم کے ذریعہ مولانا ادیب الہندی سے امامیہ ہال کے امام جمعہ و جماعت کے لئے رجوع کیا۔ مولانا ادیب الہندی نے اپنے شاگرد مولانا ممتاز علی کا انتخاب کیا اور ان کو امامیہ ہال کے لئے روانہ کردیا ۔ آپ سنہ 1992 عیسوی میں امام جمعہ و جماعت منتخب ہوئے اور اپنی آخری سانس تک اس وظیفہ کو بنحواحسن انجام دیتے رہے۔
مولانا ممتاز علی جس وقت امامیہ ہال تشریف لائے تو وہاں کی فضا جھاڑیوں کی وجہ سے خوف آورتھی لوگ جاتے ہوئے گھبراتے تھے۔ آپ نے امامیہ ہال میں دینی خدمات کے ساتھ وہاں کی صفائی، پیڑ پودوں اور چمن پر کافی توجہ دی۔آپ پیڑپودوں کو بہت اہمیت دیتے، اپنے ہاتھ سے پودوں میں پانی ڈالتے گویا اسلامی تعلیمات پرعمل کرتے ہوئے قوم و ملت کو پودوں کی عملی اہمیت بیان کرتے تھے جس کے نتیجہ میں امامیہ ہال جانے والافرد خوفزدہ نہیں ہوتا بلکہ پرسکون ماحول کا احساس کرتا اور وہاں بیٹھنے کو دل چاہتا ہے۔
ان کی زندگی کا ہر لمحہ منبر و محراب، درس و تدریس، قلم و زبان سے دین کی خدمت میں گزرا۔ موصوف اچھے مقرر، واعظ اور خطیب تھے۔ آپ کے خطبات سے سب ہی واقف ہیں خصوصاً اہل دہلی وہ ایک موضوع پر مہینوں مہینوں خطبات دیتے دہلی کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے مؤمنین
فقط آپ کے خطبات کو سننے کے لئے امامیہ ہال نماز جمعہ پڑھنے کے لئے آتے تھے۔ آپ کے خطبات نے اہل دہلی کو حق و انصاف کے لئےجینا سکھادیا ۔ موصوف اپنی تقریر اور وعظ کی وجہ سے پوری دنیا میں پہچانے جاتے تھے جس کی وجہ سے موصوف نے ہندوستان اور بیرون ہندوستان کے بہت سے شہروں اور ملکوں کے سفر کیے۔ آپ اپنی جائے تبلیغ کی طرح علماء کےحلقہ کا دل تھے۔ علماء موصوف کا بہت احترام کرتے تھے۔
مولانا ممتاز علی کے خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔ موصوف کاروان اسلام میں کئی سال تک روحانی راہنما کی حیثیت سے مکہ مکرمہ و عتبات عالیات تشریف لے گئے اور حجاج کرام کو مسائل حج سے آگاہ کرتے رہے۔ آپ جدید اور الگ ادارات بنانے کے بجائے قدیمی اور پہلے بنے ہوئے اداروں کو مزید مستحکم کرنے کے معتقد تھے۔ چنانچہ آپ نے کوئی ادارہ قائم نہیں کیا جبکہ لوگوں نے الگ ادارہ بنانے کی رائے بھی دیں۔ اسی بنا پر آپ ایک عرصے تک رسالہ توحید اور پیغام ثقلین ، تنظیم المکاتب لکھنؤ، نورمائکروفلم سینٹر ایران کلچرہاؤس دہلی اور جامعہ اہلبیت دہلی وغیرہ میں خدمات انجام دیتے رہے۔
مولانا ممتاز علی سنہ 2008عیسوی میں تنظیم المکاتب کی مجلس انتظامیہ کے رکن اور سنہ 2013 عیسوی میں نائب صدر مقرر ہوئے ہمیشہ تنظیم المکاتب کی سالانہ دینی تعلیمی کانفرنسوں میں شرکت فرماتے رہے ۔
آپ انٹرنیشنل نومائکروفلم سینٹر ایران کلچرہاؤس دہلی کے علمی، تحقیقی، تخلیقی، تاریخی اور علمی آثار کی حفاظت سے بہت متاثر تھے جس کی وجہ سے آپ نے وہاں کے شعبہ تحقیق و تالیف کی سرپرستی کو قبول کیا اور زندگی کی آخری سانس تک منسلک رہے۔آپ ہمیشہ تاریخ شیعیت اور سادات کے شجرات کو محفوظ کرنے میں کوشا ں رہتے اور جہاں ادارہ کی علمی و تحقیقی خدمات کو بیان فرماتے اور لوگوں کو اپنی اپنی تاریخ اور شجرات کو محفوظ کرنے کی تشویق کرتے مولانا ہر ہفتہ چھار شنبہ کو انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی میں حاضر ہوتے اور اپنے چھوٹوں کی تحقیق و تالیف میں راہنمائی فرماتے تھے۔ کبھی کبھی مذاق میں فرماتے تھے کہ میں ہمیشہ سادات کی تاریخ اور شجروں کو لینے اور محفوظ کرنے کی بات کرتا ہوں کہیں لوگ یہ نہ سمجھیں کہ میں سید بننا چاہتاہوں خیر سادات کی یہ خدمت درگاہ الہی میں قبول ہوجائے تو میرے لئے یہ ہی کافی ہے۔
مولانا ممتاز علی ہمیشہ درس و تدریس کو پسند فرماتے تھے جوادیہ عربی کالج میں طالبعلمی کے دروان ہی سے تدریس آغاز کردیا تھا اور اپنے نیچے والے درجات کے طلاب کو پڑھاتے رہتے تھےنیز آپ نے مدرسہ ایمانیہ بنارس میں بھی تدریسی فرائض انجام دیے۔ دہلی میں امامیہ ہال کی خدمات کے ساتھ ساتھ خشنودی خدا کے لئےجامعہ اہلبیت دہلی میں تدریس کے لیے جاتے اور کھبی کوئی اجرت نہیں لیتے حتی کرایہ اور کھانا بھی مدرسہ سے قبول نہیں کیا۔ آپ نے بہت سے شاگردوں کی تربیت کی جن میں: مولانا اطہر عباس کلکتوی، مولانا موسیٰ رضا یوسفی، مولانا غضنفر عباس طوسی، مولانا مرزا عسکری کلکتوی، مولانا معراج مہدی الہ آبادی، مولانا عازم جوراسی، مولانا ذیشان حیدر رجیٹوی، مولانا فرحت عباس سیوانی، مولانا محمد مہدی پھندیڑوی، مولانا عادل منظور جونپوری، مولانا محمد میاں مکارم، مولانا جوہر عباس زیدپوری، مولانا محمد حسن سرسوی، مولانا حیدر رضا نجفی، مولانا قمر عباس کانپوری، مولانا شیراز اختر نجفی، مولانا سلیم حسن سیتھلی، مولانا ذالفقار بنارسی، مولانا مجتبیٰ کلکتوی مولانا سمیع حسن ،مولانا عابد حسین ممبئی، مولانا عابد کانپوری، مولانا یوسف سرسوی، مولانا محمد عباس سرسوی وغیرہ کے نام لئے جا سکتے ہیں۔
موصوف اچھے مدرس، مقرر ، واعظ ، خطیب اور شاعر ہونے کے ساتھ تحقیق و تالیف اور ترجمے سے وابستہ رہے مولانا نے بہت سی کتابوں کے ترجمے کئے جن میں اکذوبۃالتحریف، اتحاد کا راستہ، فریاد مظلومیت، اسلامی بیداری کے درپیش مسائل، اسلامی اور بیسویں صدی کی تہذیب، نماز جمعہ اور خطبات رہبری، اسلامی بیداری (رہبر معظم کے افکار ونظریات پر مشتمل تحلیلی و تجزیاتی مقالات)، انسان کامل امام خمینی کی نظر میں، اسلام و ایران کے تقابلی خدمات جلد اول و دوم وغیرہ کے نام لیے جا سکتےہیں۔
مولانا ممتاز علی کی حق گوئی، خودداری، اور بے باکی میں بے نظیر تھے ہمیشہ خدا پر بھروسہ رکھتے اور کبھی کسی سے کوئی سوال نہیں کیا ہروقت زبان پر شکر خدا جاری رہا وہ فرماتے تھے طالب علموں کے رزق کا وعدہ اللہ نے کیا ہے تو پھر سوچنا کیا ہے۔
کبھی آپ نے ثروت اور دولت کو اہمیت نہیں دی ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ ایک شخص آپ کی خدمت میں کچھ معقول رقم لے کر آیا اور آپ کو دینے لگا تو آپ نے معلوم کیا کہ یہ کیسی ہے ؟ تو رقم دینے والے نے کہا یہ آپ رکھیں تو مولانا نے یہ کہتے ہوئے یہ رقم امامیہ حال کو دے دی کہ مجھ سے زیادہ امامیہ ہال کو ضرورت ہے۔
مولانا ممتاز علی کی سحر انگیز شخصیت، نرم مزاجی، اور عمدہ اخلاق سے متاثر ہوجاتے تھے۔ وہ علمی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ محبت اور ادب کی خوبصورت مثال تھے۔ مولانا نےامامیہ ہال کےسادہ مکان میں سادہ زندگی گزاری اور اپنا ذاتی گھر نہیں بنایا۔ آپ کے پاس نہ دہلی میں ذاتی گھر ہے اور نہ ہی ان کے وطن غازی پور میں۔
مولانا ممتاز علی صاحب نے کبھی دین کا سودا نہیں کیا اور ہمیشہ حق گوئی سے کام لیا۔ وہ نہایت جرات مندی سے لوگوں کے سامنے حق بات کہتے تھے۔ صاحبانِ ثروت سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے ہمیشہ لوگوں کے غلط ارادوں پر ٹوک دیا کرتے تھے۔ کبھی آپ کے کسی قدم سے قوم وملت رسوا نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی اپنی شخصیت کو کسی فتنہ و فساد کا حصہ بننے دیا۔یہی وجہ ہے کہ وہ اہلِ انصاف میں محبوب تھے۔
اللہ نے مولانا ممتاز علی کو دوبیٹیوں کی شکل میں رحمت سے نوازا جن کو آپ نے زیورعلم و ادب سے آراستہ کیا۔
آخر کار یہ علم و عمل کا ماہتاب 5/ نومبر 2024عیسوی بروز سہ شنبہ شب میں 10 بجے امامیہ حال دہلی میں حرکت قلب رکنے کی وجہ سے غروب ہوگیا ۔ غسل و کفن کے بعد پہلی نماز جنازہ امامیہ ہال میں مولانا شمیم الحسن بنارسی کی اقتدا میں اداکی گئی۔ دوسری نماز جنازہ قبرستان دہلی دروازہ میں مولانا احتشام عباس جونپوری کی اقتدا میں ادا کی گئی ۔ مؤمنین، علماء و طلاب کی کثیر تعداد کی موجودگی میں دہلی دروازہ قبروستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج9، ص331، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2023ء۔
ویڈیو دیکھیں: