۱۶ آبان ۱۴۰۳ |۴ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 6, 2024
حجت الاسلام مولانا ممتاز علی طاب ثراہ

حوزہ/ مولانا ممتاز علی صاحب نے کبھی دین کا سودا نہیں کیا اور ہمیشہ حق گوئی اور بے باکی سے کام لیا۔ وہ نہایت جرات مندی سے لوگوں کے سامنے حق بات کہتے تھے۔ صاحبانِ ثروت سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے ہمیشہ لوگوں کے غلط ارادوں پر ٹوک دیا کرتے تھے۔ ان کا یہ انداز دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اہلِ انصاف میں محبوب تھے۔

از قلم: مولانا سید رضی حیدر پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا ممتاز علی سن 1377 ہجری میں سرزمین غازی پور صوبہ اترپردیش پر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد شیخ محمد صدیق شریف النفس انسان تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی پھر اس کے بعد بنارس کا رخ کیا اور جوادیہ عربی کالج میں ظفرالملت مولانا ظفرالحسن ، مولانا سید احمد حسن وغیرہ سے کسب فیض کیا۔

جوادیہ عربی کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد فخرالافاضل کی سند حاصل کی۔پھر لکھنؤ کا سفر اختیارکیا اور برصغیر کی مشہور و معروف درسگاہ مدرسۃ الواعظین میں نادرۃ الزمن مولانا ابن حسن نونہروی سے کسب علم کیا پھر اس کے بعد دو سال ہندوستان میں وظائف دینی کو انجام دیا اور واعظ کی سند حاصل کی۔ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ میں حجت الاسلام مولانا سید حسین مہدی حسینی واعظ قمی غازی پوری، حجت الاسلام مولانا سید محمد محسن واعظ جونپوری، مولانا کے ہمدرس تھے اور مولانا ابن حسن املوی واعظ، مولانا محمد داؤد املوی واعظ،مولانا تفضل مہدی واعظ معروفی جونیئر ہمعصر ساتھی تھے۔

آپ نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے حوزہ علمیہ قم المقدسہ کا سفر کیا اور وہاں مدرسہ حجتیہ میں جید اساتذہ کرام کی خدمت میں رہ کر فقہ و اصول میں مہارت حاصل کی۔

موصوف نے دینی تعلیمات کے ساتھ ساتھ اپنی دینی فکر میں مزید گہرائی حاصل کی اور اسلامی علوم میں اپنی مہارت کو پروان چڑھایا۔ آپ نے قم میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی زندگی کو دینی خدمات اور لوگوں کی رہنمائی کے لئے وقف کر دیا تھا۔

سن 1988عیسوی میں افریقہ کا رخ کیا اور جرمنی، ہالینڈ وغیرہ میں سن 1992 عیسوی تک وظائف دینی انجام دیے۔ سن 1992 عیسوی میں ہندوستان واپس آئے اور دہلی میں امامیہ ہال کے امام جمعہ وجماعت منتخب ہوئے اور اپنی آخری سانس تک اس وظیفہ کو بنحواحسن انجام دیتے رہے۔

آپ ایک عرصے تک رسالہ توحید اور پیغام ثقلین سے وابستہ رہے اور اپنی آخری سانس تک امامیہ ہال دہلی، جامعہ اہلبیت دہلی، تنظیم المکاتب لکھنؤ، نورمائکروفلم سینٹردہلی وغیرہ میں اخدمات انجام دیتے رہے۔

آپ ہمیشہ تاریخ شیعیت اور سادات کے شجرات کو محفوظ کرنے میں کوشا رہتے تھے اور جہاں بھی جاتے انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کی خدمات کو بیان فرماتے اور لوگوں کو اپنی اپنی تاریخ اور شجرات کو محفوظ کرنے کی تشویق کرتے۔ مولانا ہر ہفتہ چھار شنبہ کو انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی میں حاضر ہوتے اور اپنے چھوٹوں جن میں مولانا سید رضی حیدر پھندیڑوی، مولانا ذیشان حیدر رجیٹوی، مولانا غافر حسن چھولسی، مولانا عالم مہدی زیدپوری، مولانا گوہر عباس اور مولانا شیخ رضون علی وغیرہ کی تحقیق و تالیف میں راہنمائی فرماتے تھے۔ کبھی کبھی مذاق میں فرماتے تھے کہ میں ہمیشہ سادات کے شجروں کو لینے اور محفوظ کرنے کی بات کرتا ہوں کہیں لوگ یہ نہ سمجھیں کہ میں سید بننا چاہتاہوں خیر سادات کی یہ خدمت درگاہ الہی میں قبول ہوجائے تو میرے لئے یہ ہی کافی ہے۔

مولانا ممتاز علی ہمیشہ درس و تدریس کو پسند فرماتے تھے جوادیہ عربی کالج میں طالبعلمی کے دروان ہی سے تدریس شروع کردی تھی اور اپنے نیچے والے درجات کے طلاب کو پڑھاتے رہتے تھے۔ دہلی میں امامیہ ہال کی خدمات کے ساتھ ساتھ جامعہ اہلبیت میں بھی تدریسی سلسلے کوباقی رکھا اور بہت سے شاگردوں کی تربیت کی۔ آپ کے شاگردوں میں مولانا اطہر عباس کلکتوی، مولانا ذیشان حیدر رجیٹوی، مولانا مرزا عسکری حسین کلکتوی، مولانا افضل پھندیڑوی، مولانا معراج مہدی الہ آبادی، مولانا جوہر زید پوری، مولانا اعظم باقری جوراسی، مولانا محمد مہدی پھندیڑوی، مولانا عادل منظور اور مولانا حیدر رضا بجنوری، مولانا محمد حسن سرسوی وغیرہ کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔

مولانا ممتاز علی کی حق گوئی، خودداری، اور بے باکی بے مثل و بے نظیر تھی ہمیشہ خدا پر بھروسہ رکھتے اور کبھی کسی سے کوئی سوال نہیں کیا ہروقت زبان پر شکر خدا جاری رہا وہ فرماتے تھے طلاب کے رزق کا وعدہ اللہ نے کیا ہے تو پھر سوچنا کیا ہے۔آپ ایسی شخصیت کے مالک تھے جس کا ہر پہلو روشن اور منفرد تھا۔ دہلی امامیہ ہال میں امام جمعہ کی حیثیت سے ان کی خدمات نے اہل دہلی کو حق و انصاف کے لئے دھڑکنا سکھایا اپنی جائے تبلیغ کی طرح وہ علماء کےحلقہ کا دل تھے علماء ہمیشہ ان کا احترام کرتے تھے۔

موصوف اچھے مقرر ، واعظ اور خطیب ہونے کے ساتھ تحقیق و تالیف اور ترجمے سے وابستہ رہے مولانا نے بہت سی کتابوں کے ترجمے کئے جن میں اکذوبۃ التحریف، اتحادکا راستہ، فریاد مظلومیت، خدمات تقابل اسلام اور ایران شہید مطہری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

مولانا ممتاز علی کی سحر انگیز شخصیت، نرم مزاجی، اور عمدہ اخلاق کا ایسا اثر تھا کہ لوگ ان سے متاثر ہوجاتے تھے۔ وہ علمی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ محبت اور ادب کی خوبصورت مثال تھے۔ مولانا امامیہ ہال کےسادہ مکان میں سادہ زندگی گزارتے تھے اور آپ نے اپنا گھر نہیں بنایا۔ کبھی آپ نے ثروت اور دولت کو اہمیت نہیں دی ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ ایک شخص آپ کی خدمت میں کچھ رقم لے کر آیا اور آپ کو دینے لگا تو آپ نے معلوم کیا کہ یہ کیسی ہے ؟ یہ میرےلئے ہے یا امامیہ ہال کے لئے تو رقم دینے والے نے کہا یہ آپ کے لئے ہے آپ رکھیں یا امامیہ ہال کو دے دیں آپ کو اختیار ہے تو مولانا نے اس رقم کو امامیہ حال کو یہ کہتے ہوئے دے دی کہ مجھ سے زیادہ امامیہ ہال کو ضرورت ہے۔

مولانا ممتاز علی صاحب کے سحر انگیز اخلاق اور دلکش گفتگو نے انہیں ہر مجلس میں محبوب اور قابل احترام بنا دیا تھا۔ وہ اپنی بات کو دلنشین انداز میں بیان کرتے، جس میں سامعین مگن اور کھو جاتے تھے۔ ان کے بات کرنے کا انداز دلوں پر گہرے اثرات چھوڑ جاتا تھا۔ وہ علماء کے حلقوں میں بھی اپنی باتوں اور فہم کی وجہ سے بہت پسند کیے جاتے تھے۔

مولانا ممتاز علی صاحب نے کبھی دین کا سودا نہیں کیا اور ہمیشہ حق گوئی اور بے باکی سے کام لیا۔ وہ نہایت جرات مندی سے لوگوں کے سامنے حق بات کہتے تھے۔ صاحبانِ ثروت سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے ہمیشہ لوگوں کے غلط ارادوں پر ٹوک دیا کرتے تھے۔ ان کا یہ انداز دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اہلِ انصاف میں محبوب تھے۔

اللہ نے مولانا کو بیٹے سے محروم رکھا مگر دو بیٹیوں سے نوازا جن کو آپ نے علم عمل کی دولت سے آراستہ کیا۔

آخر کار یہ علم و عمل کا ماہتاب 5/ نومبر 2024عیسوی بروز سہ شنبہ شب میں 10 بجے دہلی امامیہ حال میں حرکت قلب رکنے کی وجہ سے غروب ہوگیا اور امامیہ ہال دہلی میں غسل و کفن کے بعد قبروستان دہلی دروازہ میں سپرد خاک کردیا گیا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .