۱۶ آبان ۱۴۰۳ |۴ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 6, 2024
مولانا ممتاز علی

حوزہ/ مولانا ممتاز علی کی سادگی، علمیت اور اخلاقی عظمت نے ہر دل میں جگہ بنائی۔ وہ ایک ایسے مربی اور استاد تھے جنہوں نے نہ صرف اپنے علم بلکہ اپنے کردار سے بھی رہنمائی کی۔ ان کی جدائی سے علمی و مذہبی حلقے ایک عظیم رہنما سے محروم ہو گئے ہیں۔ ان کی شخصیت کا خلوص، انکساری اور شفقت ہمیشہ دلوں میں زندہ رہے گی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،امامیہ ہال دہلی کے امام جمعہ و الجماعت اور علمی و تحقیقی شخصیت، مولانا ممتاز علی طاب ثراہ، گذشتہ روز داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ ان کی اچانک وفات کی خبر سے علمی و مذہبی حلقوں میں سوگ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مولانا ممتاز علی کی شخصیت انکساری، ملنساری، سادگی اور علم و فضل کا مجسمہ تھی۔ ان کی وفات کو ایک عہد کا خاتمہ اور ایک عظیم خسارہ قرار دیا جا رہا ہے۔

مولانا سید تقی عباس رضوی کلکتوی نائب صدر اہل بیت فاؤنڈیشن نے مولانا مرحوم کی وفات پر تعزیتی پیغام دیتے ہوئے کہا کہ "یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مولانا ممتاز علی صاحب اس طرح اچانک ہم سے جدا ہو جائیں گے۔" انہوں نے کہا کہ مولانا ممتاز علی صاحب ایک عظیم مربی، استاد اور صاحب بصیرت شخصیت تھے جنہوں نے ہمیشہ علم و عمل اور اخلاص و صداقت کے چراغ روشن کیے۔

مرحوم کی وفات پر ان کے محبین، مریدین، متعلقین اور تلامذہ کو تعزیت پیش کرتے ہوئے تقی عباس رضوی نے بارگاہ خداوندی میں دعا کی کہ خدا مرحوم کو اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .