حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ڈاکٹر شہوار حسین امروہوی نے اپنے ایک پیغام میں ممتاز خطیب اور عالم دین مولانا ممتاز علی کی المناک رحلت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تعزیت پیش کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پیکر خلوص ومحبت، مجسمہ علم وعمل مولانا شیخ ممتاز علی کا اچانک دنیا سے رخصت ہو جانا قوم وملت کا ایسا عظیم خسارہ ہے، جس کے تدارک کے لیے بڑا عرصہ چاہیے، آپ باصلاحیت عالم دین، بے مثل مقرر اور خوش بیاں خطیب تھے، آپ کے دل میں ملت کا درد اور قوم کی ہمدردی تھی، جس کا اظہار اکثر خطبات جمعہ میں کیا کرتے تھے، یہ خطبات اصلاح معاشرہ اور تبلیغ دین کا بہترین مرقع ہوتے تھے، جنھیں سننے کے لیے لوگ دور دور سے آتے تھے، آپ انتہائی پر تاثیر لب و لہجہ میں قومی وملی مسائل کو لوگوں کے سامنے اس طرح پیش کرتے تھے کہ جوانان ملت ان پر غور و خوص کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔
مولانا ڈاکٹر شہوار حسین امروہوی نے کہا کہ مرحوم مولانا ممتاز علی ایک بیباک خطیب، نڈر مقرر تھے، قوم میں رائج غلط رسومات کی بلا خوف مخالفت کرتے تھے جو چیز غلط ہوتی تھی اسے بر وقت اور بیساختہ ٹوک دیتے تھے اگرچہ یہ بات بہت سے لوگوں کو ناگوار گزرتی تھی، مگر کسی کی پرواہ کئے بغیر حق بات کہہ دینا آپ کا شعار تھا۔
مولانا شہوار نے کہا کہ مولانا ممتاز علی کی ولادت ١٣٧٧ /٢٥اگست ١٩٥٧ کو جناب شیخ محمد صدیق کے گھر ضلع غازی پور میں ہوئی، دینی تعلیم جامعہ جوادیہ بنارس میں رہ کر حاصل کی اور اکابرین علماء مثلاً ظفر الملت مولانا سید ظفر الحسن، مولانا احمد حسن، مولانا شمیم الحسن صاحب وغیرہ سے کسب علم کر کے فخر الافاضل کی سند حاصل کی۔علمی تشنگی بجھ نہ سکی تو لکھنؤ کا قصد کیا اور معروف درسگاہ مدرسہ واعظین میں داخلہ لے کر نادرہ الزمن مولانا سید ابن حسن نونہروی کے زیر سایہ تعلیمی سفر جاری کیا، اسی دوران مختلف شہروں کے تبلیغی دورے کیے اور واعظ کی ڈگری حاصل کی بعد ازاں عازم حوزہ علمیہ قم ایران ہوئے وہاں مدرسہ مبارکہ حجتہ میں زیرِ تعلیم رہ کر درجہ فضل وکمال پر فائز ہوئے، اسی اثناء میں ١٩٨٨ سے ١٩٩٢ تک سازمان تبلیغات کی جانب سے افریقی ممالک اور جرمنی، ہالینڈ کے تبلیغی دورے کیے اور لوگوں کو علوم آل محمد سے آشنا کیا، وطن واپس آنے کے بعد کچھ عرصے مدرسہ ایمانیہ بنارس میں تدریس کی اس کے بعد ١٩٩٢ میں امامیہ ہال دھلی میں امام جمعہ مقرر ہوئے اور آخری دم تک اس خدمت کو بحسن وخوبی انجام دیتے ہوۓ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مرحوم مولانا ممتاز علی انتہائی خوش اخلاق، منکسر المزاج اور سادہ انسان تھے، اکثر پروگراموں میں ساتھ رہا ہمیشہ ہنستے اور ہنساتے رہے۔ مرنجاں مرنج شخصیت کے حامل تھے، افسوس ایسی خوبیوں سے لبریز ذات ٣ جمادی الأول ١٤٤٦ / ٦ نومبر ٢٠٢٤ شب میں ہم سے ہمیشہ کیلیے جدا ہوگئی، آپ کا جسد خاکی علماء و فضلا کی موجودگی میں قبرستان دھلی گیٹ دھلی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ مرحوم و مغفور نے کئی کتابوں کے ترجمے کیے جن میں اکذوبت التحریف، اتحاد کا راستہ، فریاد مظلومیت، خدمات تقابل اسلام و ایران شہید مرتضیٰ مطہری وغیرہ قابلِ ذِکر ہیں، پسماندگان میں دو بیٹیاں ہیں، خدا وندعالم انہیں صبر جمیل عطا فرمائے۔