۱۷ آبان ۱۴۰۳ |۵ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 7, 2024
مولانا ممتاز علی 

حوزہ/ مولانا ممتاز علی ؒ صاحب یقینا ایک ایسے غیرتمند مبلغ تھے جنہوں نے دنیا کی چند روزہ رنگینیوں کے حصول کی خاطرکسی کی کاسہ لیسی اور دست بوسی نہیں کی ؛کسی کے سامنے سر نیاز خم نہیں کیا۔ اگر یہ سر جھکا تو معبود حقیقی کی بارگاہ میں سجدہ کے لیےجھکا یا اہل بیت اطہار کی بارگاہ نیاز میں کوے یار کی غبار کو سرمہ چشم بنانا اپنے لیے باعث فخر و مباہات سمجھا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مولانا سید مراد رضا رضوی، صدر محبان ام الائمہ ؑ تعلیمی و فلاحی ٹرسٹ نے مولانا ممتاز علی واعظ کی رحلت پر تعزیتی پیغام ارسال کیا جسکا مکمل متن اس طرح ہے۔

بسمہ تعالیٰ

عالم المعی ،فاضلِ لوذعی ،خطیب ِہِبرزی،مرّوجِ دینِ مصطفویؐ،مُحی شریعت محمدی ؐ،صاحب ِفضائل ِعلمی وعملی،مدافع حریم فاطمی ؑ،محققِ حق ِمرتضوی ،ؑمنتظرِ ظہور ِپُر نور مہدوی ؑ،حامل ِنفس قدسی ،مبلغ دین الٰہی،سالک سلک حسینی ،پیرو ِمکتب حسینی ،عالم اجلّ واکمل وافضل ،پیکر زہد وعبادت وسعادت ،ناشراخبار دینی ،موئید ِفیض قدسی سرکار حجۃ السلام والمسلمین شیخ ممتازعلیؒ بن محمد صدیق کی وفات ِحسرت آیات کی روح فرسااور ہوش ربادل ہلا دینے والی لرزہ براندام اچانک خبر نے قلب وجگر کو جس طرح لہو لہان کیا ہے اس کا اندمال امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور موفور السرور کی خبر کے علاوہ کسی اور مرہم سے ہونا غیر ممکن ہے۔

سرکار ظفر الملت ؒ اور نادرۃ الزمن ؒ کی آغوش تربیت میں پروان چڑھنے والا فخر جواد ونازشِ وعظ وتبلیغ آبروے واعظین بن کر مکتب اہل بیت اطہار کی واعظانہ ،عالمانہ،زاہدانہ اور متواضعانہ تبلیغ کرنے والا مرد مجاہد ،منبر ومحراب وقلم سےزخمی قلوب کی بخیہ گری کرنے والا متواضع اور خاک نشین مرد حق ،پیرو حق آج کی شب اپنے مولا کی بارگاہ میں حرف ندامت کے ہمراہ شکوے شکایت کی ایک کائنات لے کر باریاب ہوچکا ہے ۔آج اس خاک نشین کو اس کے مٹی کے گھر میں اس وقت بڑی عزت نصیب ہوئی ہوگی جب وہاں بوتراب ؑ کے ہمراہ حسنین علیہما السلام بھی تشریف لا ے ہوں گے اور ان کے ایک استاد کا یہ شعر ان کے لیے عینیت کی صورت اختیار کرچکا ہوگا اور یہ تمنا ان کی آج مٹی کے مکان میں پہنچ کر پوری ہوگئی ہوگی ؎

بوتراب ؑ آئیں مری قبر میں حسنین ؑ کے ساتھ ۔رکھ لے یارب مرے مٹی کے مکاں کی عزت

مرحوم کا حرف ندامت تو اس وقت اشک شوق میں تبدیل ہوگیا ہوگا جب یہ حضرات ان سے ملاقات کے لیے پہنچیں ہوں گے اور صدیق اکبر حضرت علی علیہ السلام کے ہمرا ہ محمدصدیق یعنی حقیقت صداقت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے ان کو ان کی جانفشانیوں اور راہ حق میں اٹھانے والی زحمتوں کے نتیجے میں اپنی آغوش رحمت میں سمیٹا ہوگا تو رحمت باری بھی جھوم جھوم کر برسنے لگی ہوگی اور آج کی شب ان کی قبر پربارش رحمت نے تمام قبرستان کو سرشار رحمت کردیا ہوگا ؛لیکن اللھم انا نشکواالیک کے قانون کی بنیادپر جب انہوں نے دفتر شکایت کا پہلا ورق کھولا ہوگا تو مجھے یقین ہے کہ عرش الٰہی لرزنے لگا ہوگا ۔نہیں معلوم شکایت کاآغاز کہاں سے ہوا ہوگا ،فقدان رسول ﷺ کی مصیبت سے یا اس کے بعد اٹھنے والے فتنوں کی زد میں سیدۂ مرضیہ کی ٹوٹی پسلیوں کی فریاد اور اسی جسارت کے نتیجے میں آج فلسطین اور لبنان کی خواتین اور شیر خوار بچوں کی چیخ پکار پر اقوام عالم کی موت سے بدتر خاموشی پران کی فلک شگاف فریاد ؛یہ خیالات نہیں بلکہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے جس کی طرف کل ۵نومبر ۲۰۲۴؁ء کو دن میں ۱۱ بجے کے آس پاس مرحوم نے ٹلیفونی گفتگو میں حقیر سے باتوں کے درمیاں اپنے خاص لب ولہجہ میں بیان فرمایا تھا :مراد! دیکھو ! ابھی جوانوں کے درمیان کی جانے والی تقریر میں رہبر انقلاب نے کیا غضب کی تقریر کر دی۔کس شفافیت اور صراحت کے ساتھ دشمن کو للکارا ہے اور دنیا کو کھلا پیغام دیا ہے ۔ میں توامام خمینی ؒ کی عبقری شخصیت کے بعدجس دوسری شخصیت کا قائل ہوچکا ہوں وہ امام خامنہ ای کی ذات ہے ۔ اس کے بعد کافی دیر تک حالات حاضرہ پر گفتگو کرتے ہوے اپنے دل کی کیفیت اور اور کرب وبے چینی کو بیان کرتے رہے ۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ ایسا رس گھولنے والی صدا اچانک اس طرح خاموش ہوکر ایک وسیع حلقہ کو گریہ وزاری میں مبتلا کر دے گی ۔اب ایسا خاک نشین عالم،تواضع پیکر مبلغ اور سہل ممتنع میں خطاب کرنے والا ذاکر کہاں اور کسے نصیب ہوگا۔

۳۰ ؍سال سے زیادہ دہلی کے قلب شہر میں واقع امامیہ ہال کی مسجد میں امام جمعہ جماعت کے فرائض انجام دینے والی ذات کے پاس اپنا ایک ذاتی گھر بھی نہیں تھا ۔ اس پر کون یقین کرے گا!اب اس سے زیادہ کریدنا شاید مناسب بھی نہ ہو۔

ممتاز علی ؒ صاحب یقینا ایک ایسے غیرتمند مبلغ تھے جنہوں نے دنیا کی چند روزہ رنگینیوں کے حصول کی خاطرکسی کی کاسہ لیسی اور دست بوسی نہیں کی ؛کسی کے سامنے سر نیاز خم نہیں کیا۔ اگر یہ سر جھکا تو معبود حقیقی کی بارگاہ میں سجدہ کے لیےجھکا یا اہل بیت اطہار کی بارگاہ نیاز میں کوے یار کی غبار کو سرمہ چشم بنانا اپنے لیے باعث فخرو مباہات سمجھا۔

اللہ مرحوم کو جوار ِ معصومین میں جگہ مرحمت فرماے،پسماندگان کو صبرجمیل کی قوت وقدرت نصیب ہو اور قوم وملت ان کے راستہ پر چل کر اپنے مولا وآقا کو جلد ازجلد اپنے درمیان بلانے میں کامیاب ہو جائے۔

یقینا آج کا دن امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مجروح کے لیے ایک نئی مصیبت کا سبب ہوگا ؛اللہ ہمارے مولا اور ہماری مصیبت کو منتقم خون زہراے مرضیہ کے ظہور میں تعجیل کی صورت میں سرور وانبساط میں تبدیل فرماے ۔آمین یا رب العالمین بحق آل طٰہ و یاسین

شریک غم

سید مراد رضا رضوی

صدر محبان ام الائمہ ؑ تعلیمی و فلاحی ٹرسٹ

قم مقدسہ ،۶ نومبر ۲۰۲۴؁ء،۴ جمادی الاولی ٰ۱۴۴۶ ہجری

تبصرہ ارسال

You are replying to: .