۲۸ فروردین ۱۴۰۳ |۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 16, 2024
مولانا سید حمید الحسن زیدی

حوزہ/ روشن مستقبل کی امید صرف دین اسلام سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ محققین کی تحقیق کے مطابق ظلم و ستم کے اندھیروں سے نجات ۔۔۔انسانی اور بشری طرز تفکر ہے۔

ولقدکتبنا فی الزّبور من بعد الذّکر أنّ الأرض یرثھا عبادی الصّالحون (انبیائ،١٠٥)

ہم نے پوری یادآوری کے بعد تحریر کیا ہے کہ زمین کی وراثت خداکے نیک بندوں کا حصہ ہے۔

 اس آیۂ کریمہ اور اس جیسی دیگر آیات کی روشنی میں انسانیت کا مستقبل روشن اور اطمینان بخش ہے اس لئے کہ اس کی حکومت صالحین کو ملنے والی ہے جیسا کہ علامہ طباطبائی اس آیۂ کریمہ کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ اس آیۂ کریمہ کی بنیاد پرزمین شرک و بت پرستی سے پاک ہوجائے گی اور ایک صالح انسانی معاشرہ تشکیل پائے گا۔

ایسے صالح اور نیک بندے ہوں گے جو خدائے واحد کے علاوہ کسی اورکی عبادت نہیں کریں گے اور کسی طرح بھی شرک ان کی زندگی میں نہیں ہوگا۔

اس آیت کا اعلان دنیا و آخرت دونوں کے لئے بشارت اور خوشخبری ہے اور ظہور کے دور میں نیک اور صالح صاحبان ایمان زمین کے وارث ہوں گے اور پھر وہی جنت الفردوس کے وارث ہوں گے۔

علامہ طبرسی مجمع البیان میں امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں جس میں امام علیہ السلام نے اللہ کے صالح بندوں کو امام مھدی عجل اللہ کے اصحاب میں شمار کیا ہے اسی طرح کی ایک اور حدیث تاویل الآیات الظاہرہ نامی کتاب میں سید شرف الدین نے نقل کی ہے : علی ابن ابراہیم قمی کی طرف منسوب حدیث میں بھی عبادی الصّالحون سے مراد امام مھدی  کے اصحاب ہی ہیں۔

روشن مستقبل کی امید صرف دین اسلام سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ محققین کی تحقیق کے مطابق ظلم و ستم کے اندھیروں سے نجات ۔۔۔انسانی اور بشری طرز تفکر ہے ۔لہٰذا یہ کہنا حق بجانب ہے کہ یہ نظریہ صرف آسمانی ادیان سے متعلق نہیں ہے۔ دنیا میں کوئی بھی قوم ایسی نہیں ہے جسے ایک حتمی اور آخری نجات دہندہ کی امید نہ ہو۔یہودیوں ، عیسائیوں ، زرتشت اور کنفوسیوس اور قدیم یونان نیز حبشی سرخ پوستوں میں بھی یہ عقیدہ بدرجہ ٔ اتم پایا جاتاہے کہ ایک دن ایک نجات دہندہ آئے گا البتہ ان سب میں روشن مستقبل کی کیفیت اور نجات دہندہ کے خصوصیات میں تھوڑا بہت اختلاف ضرور پایا جاتاہے۔

جیسا کہ مذکورہ آیت کے متن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بشریت کا مستقبل دیندار ہوگا اور زمین خداکے صالح بندوں کی ہی ہے ۔اس بنا پر دوسرے نظریات کو بھی قرآن کے معیار پر پرکھنے کی ضرورت ہے اگر قرآن مجید سے ان کی تائید ہو تی ہو تو انھیں قبول کر لیا جائے ورنہ انھیں چھوڑ دیا جائے اس لئے کے قرآن مجید نے خود کو قول فصل کے عنوان سے پہچنوایا ہے 'انہ لقول فصل ' یعنی قرآن فیصلہ کن اور حق و باطل کو ایک دوسرے سے الگ کرنے والا ہے۔ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے :لا یاتیہ الباطل من بین ید یہ و لا من خلفہ تنزیل من حکیم حمید۔

قرآن مجید میں نہ سامنے اور نہ پیچھے کسی طرف سے بھی باطل نہیں آسکتا اس لئے کہ یہ خدائے حکیم وحمید کی طرف سے نازل ہوا ہے 

اس موضوع یعنی قرآن مجید کے قول فصل اور حق و باطل کے معیارہونے کے بارے میں متواتر روایات ہیں جنھیں روایات عرض کہا جاتا ہے نبی اکرم ﷺاور ائمہ معصومین  سے اس طرح کےبہت سےاقوال و ارشادات نقل ہوئے ہیں -انھیں میں سے امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک یہ روایت مروی ہے  رسول خدا ﷺنے فرمایا کہ جو بھی کتاب خدا کے مطابق ہو اسے لے لو اور جو اس کے خلاف ہو اسے چھوڑ دو۔

قوم موعود کے زمین پر خلیفہ بننے سے متعلق آیت کی تفسیر

زمین کی خلافت کا حق کچھ ایسے افراد کےلیے ہونےکےبارے میں جنھیں یہ حق دینے کا وعدہ کیا گیا ہے قرآن مجید کی سورہ نور کی ٥ویں آیت شاہدہے جس میں ارشاد ہوتا ہے :وعداللہ الذّین آمنوا منکم و عملواالصّالحات لیستخلفنّھم فی الأرض کما استخلف الذّین من قبلھم ولیمکننّ لھم دینھم الذّی ارتضیٰ لھم ولیبدّلنّھم من بعد خوفھم أمناً یعبدوننی لا یشرکون بی شیئاً و من کفر بعد ذالک فأولٰئک ھم الفاسقون۔

خداوند عالم نے تم میں سے وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح بجالائےان سے یہ وعدہ کیا ہے کہ انھیں زمین کا خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے والوں کو بھی خلیفہ بنایا ہے اور انھیں اپنے اس دین کی باگ ڈور سونپے گا جن سے وہ راضی ہے اور ان کے لئے خوف کے بعد امن کے راستے کھولے گا وہ صرف میری عبادت کرنے والے ہوں گےاور اس سلسلہ میں ہرگز شرک نہیں کریں گے اس کے بعد بھی جو کفر اختیار کرے گا وہ فاسق ہوگا۔

اس آیت کے ذریعہ ایک موعود کے آنے کی خوشخبری اور امام عصر علیہ السلام کے ظہور کی نشاندہی کے بارے میں چند نکات کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے:

١:۔منکم کی ضمیر اشارہ کرتی ہے کہ وہ آخری مصلح اسی امت سے ہوگا لیستخلفنّھم اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اس کو اپنے احباب کے ساتھ زمین کا اقتدار حاصل ہوگا اور خداوند عالم اپنے اس وعدے کو پورا کرنا چاہتا ہے۔

٢:۔لیمکننّ لھم دینھم کی عبارت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دین کا نافذ کرنا ان کے لئے بغیر کسی زحمت کے ممکن ہوگااور ان کا دین سماج میں اپنی جگہ بنائے گا اس طرح کہ اس کے اصول اختلاف کی بنا پر کمزور نہیں ہوں گے اس لئے کہ انھیں ہر چیز سے زیادہ صرف دین کی فکر ہوگی اگر خداوند عالم انھیں زمین کا خلیفہ بنائے گا تو صرف اس لئے کہ وہ اس کے دین کو نافذ کریں گے اس طرح سماج میں دین بغیر کسی غلطی اور شبہہ کے پوری طرح اپنی جگہ بنائے گا۔

٣:۔آیت کے اس تسلسل میں دینھم الذّی ارتضیٰ لھم کی عبارت بیان کرتی ہے کہ جو دین خداوندعالم کی پسند ہے وہ سماج  میں نافذ ہوگا اور سب خداوندعالم کے پسندیدہ دین کے سامنے سرتسلیم خم کریں گے اور یہ خدا کا پسندیدہ دین سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ٣ میں ذکر ہوا ہے جہاں ارشاد ہوتا ہے :الیوم اکملت لکم دینکم و أتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔

خدا کا پسندیدہ دین ولایت اہل بیت علیہم السلام سے جڑا ہوا ہے اس لئے کہ آیت کی تفسیر اور معصومین علیہم السلام کی روایات کے مطابق دین اسلام غدیر کے دن ولایت امیر المومنین علیہ السلام کے اعلان کے ساتھ خداوند عالم کی پسند قرار پایا ہے۔

اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ظہور کے زمانے میں دین اسلام کا غلبہ ولایت اسلام کا غلبہ ہوگا جو شیعوں کے نظریہ کے مطابق ہے۔

٤:۔یہ جو ارشاد ہے :ولیبدلنّھم من بعد خوفھم أمناً۔خداوند عالم ان کے خوف و حراس کے بعد ان کے خوف کو امن میں بدل دے گا اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ذوات مقدسہ ایک عالمی دینی تحریک کے لئے ذخیرہ ہیں جو ظہور سے پہلے خوف کے عالم میں زندگی بسر کریں گی یہ خوف انھیں خود اپنی ذات یا جان کا نہیں ہوگا بلکہ خوف سماج کے دین قبول نہ کرنے اور اس کی ٹیڑھی فکر کا ہوگا جیسے پیغمبر اسلام ﷺکوحضرت علی علیہ السلام کی ولایت کے اعلان کے موقع پر خوف تھاجیسا کہ سورہ مائدہ کی ٦٧ نمبر آیت میں تذکرہ ہے یا داخلی دشمنوں سے خوف ہوگا جو دین کی توہین کریں گے یہ خوف اس وقت تک ہوگا جب تک خداوند عالم ان کے دین کو اقتدار نہ بخش دے۔

٥:۔یعبدوننی ولا یشرکون بی شیئاً۔آیۂ کریمہ کی اس تحریک کے رہبروں کے بارے میں سب سے بنیادی پیغام اس فقرہ میں ہے آیت کی ترکیب میں نکرہ در سیاق نفی اس بات کی نشاندہی بھی کر رہا ہے کہ کسی بھی طرح کا شرک باقی نہین رہے گا اس لئے کہ معصیت کی بنیاد نفس یا شیطان کی پیروی ہوتی ہے جوخدا کہ فرمانبرداری کے مقابلے میں شرک ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ خداوند عالم کا وعدہ ہے کہ ہر گناہ سے پاک و معصوم افراد اس سماج میں اس کے خالص دین کا نفاذ کریں گے اور وہ روی زمین کے وارث ہوں گے ،دینی احکام وتعلیمات کے علاوہ اس کی زندگی میں کسی اور چیز کا دخل نہیں ہوگا ، دین دینا کے تمام جغرافیائی حدود پر عالمی سطح پر نافذ ہوگا اور پوری دنیا کے تمام افراد اس کے سامنے سر تسلیم خم کریں گے اس طرح کہ پورے انسانی سماج میں صرف اور صرف دین کا بول بالا ہوگااور دینی احکام پربغیر کسی چون و چرا اور اندرونی مانع کے عمل کیا جائے گا ،خوف کا امن میں بدلنا بھی تمام اندرونی اور بیرونی عوامل کو کسی خاص زمین کے حصہ سے محدود کئے بغیر ہوگا جیسا کہ آیت کہ مفہوم سے واضح ہوتا ہے اور شیعہ و سنی دونوں طرح کی روایات اس کی نشاندہی کرتی ہیں ۔

غور کریں کہ آپ کی نظر میں اس آیت سے دیگر کون سے پیغامات حاصل ہو سکتے ہیں۔

شیعہ احادیث میں امام سجاد علیہ السلام کی یہ حدیث اس طرح نقل ہوئی ہےکہ،امام سجاد علیہ السلام نے اس آیت کی تلاوت کے بعد فرمایا :خدا کی قسم قوم موعود ہمارے شیعہ ہیں خداوندعالم ان کے لئے اس وعدے کو ہمارے ایک فرد کے ذریعہ محقق کرے گا جو اس امت کے مہدی ہوں گے ،یہ وہی شخص ہیں جن کے بارے میں پیغمبر اسلام ﷺنے فرمایا ہے:اگر دنیا کا ایک دن ہی باقی بچا ہو تو خداوندعالم اس کو اتنا طولانی کردے گا کہ ہماری نسل کا ایک شخص جس کا نام مہدی ہوگا اور جو میراہم نام اور میرا ہم سن و سال ہوگا اس کی کنیت میری کنیت ہوگی اسے دنیا کی حکومت وولایت حاصل ہوگی ،وہ زمین کو اس طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔

امام جعفرصادق علیہ السلام سے اس آیت کے بارے میں اس طرح روایت ہے کہ یہ آیت کریمہ امام مہدی عج اور ان کے اصحاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے بظاہر امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں امام جعفرصادق علیہ السلام کی مراد یہی ہے۔

خدایا!پیغمبر اسلام ﷺکی عترت پر درود و سلام کو دو برابر کر دے اور شیعوں کے دلوں کو اپنی اطاعت پر مستحکم قرار دے جو تیری ہی حزب سے متعلق ہیں ان کے لئے کامیابی اور سعادت کے ایام قرار دے تاکہ ان کے لئے آسانی فراہم ہو اور انھیں استحکام و کامیابی حاصل ہوجس طرح تونے قرآن مجیدمیں اپنے اولیاء کے لئے ضمانت کی ہے 

'وعداللہ الذّین آمنوا منکم وعملواالصّالحات'

خداوندعالم نے تمہارے درمیان سے ان لوگوں کے لئے خلافت کا وعدہ ہے جو ایمان لائے اور نیک عمل انجام دیتے ہیں۔

صحابی پیغمبر ﷺجابر بن عبداللہ انصاری سے اس طرح روایت ہے ؛یہودیوں میں سے جندب ابن جنادہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت  یں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ۖمجھے اپنے اوصیاء سے آگاہ فرمائیں،آپ نے فرمایا: اے جندب میرے اوصیاء بنی اسرائیل کے نقیبوں کی طرح ١٢ افراد ہیں اس کے بعد آپ ۖنے اس آیۂ کریمہ کی تلاوت کی'وعداللہ الذّین آمنوا منکم و عملواالصّالحات'۔

مرحوم بحرانی نے بھی اس حدیث کو شیخ صدوق کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔

دوسری حدیث کلینی سے نقل ہوئی ہے جسے عبداللہ ابن سنان سے اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ

 امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت میں مذکورہ قوم کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایاکہ وہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہیں۔

اہل سنت کی احادیث

دیگر احادیث میں سے وہ حدیث بھی ہے جسے پیغمبر اسلام ﷺسے نقل کیا گیا ہے کہ آپﷺنے فرمایا کہ یہ دین اسی طرح پوری دینا کو گھیرلے گا جس طرح رات چھا جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ صحابی پیغمبر ۖمقداد ابن اسود کی حدیث ہے جسے بعض اہل سنت علماء صحیح قرار دیتے ہیں اور ماوردی، قرطبی،ابن کثیر نے اسے اس آیت کے ذیل میں نقل کیا ہے :سمعت رسول اللہ یقول:لایبقیٰ علیٰ وجہ الأرض بیت مدر ولا وبر الّاأدخل اللہ علیہم کلمة الاسلام....پیغمبر اسلام ﷺسے سنا ہے روی زمین پر کوئی بھی مٹی یا جالوں سے بنا ہوا گھر نہیں بچے گا مگر یہ کہ اس میں دین اسلام داخل ہوگا۔

ایک دوسری حدیث جو اسی مذکورہ آیت کے ذیل میں نقل ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺنے فرمایا: خداوندعالم نے میرے لئے زمین کے شرق و غرب کو جمع کیا عنقریب اس سرزمین کی سربراہی میری امت کو نصیب ہوگی ۔اس حدیث کے ذریعہ دین کے غلبہ کی گفتگو بالکل اسی طرح کی ہے جیسی گفتگو سورہ ٔتوبہ آیت نمبر ٤٣ میں دین کے غلبہ کے بارے میں کی گئی ہے۔

حاکم حسکانی جو اہل سنت میں سے ہیں اپنی سند کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں :

انّی أقسم بالذّی فلق الحبّة و برأالنّسمة و أنزل الکتاب علیٰ محمد صدقاً و عدلاًلتعطفنّ علیکم ھٰذہ الآیة:'وعداللہ الذّین آمنوا منکم و عملواالصّالحات...

'قسم ہے اس خدا کی جو دانہ کو شگافتہ کرتا ہے اور مخلوقات کو خلق کرتا ہے ،جس نے قرآن مجید کو حضرت محمد ﷺپر عدل و انصاف کے ساتھ نازل فرمایا ہے یہ آیت تمہارے بارے میں ہے۔

ابن بطریق نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔اس طرح ابن حسکانی نے ابن عباس سے مذکورہ آیت کے بارے میں ایک اور جگہ نقل کیا ہے کہ یہ آیۂ کریمہ آل محمد  کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

انتخاب وترجمہ
سیدحمید الحسن زیدی
الاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور 

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .