۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
رمضان المبارک کے سترہویں دن کی دعا

حوزہ/ خدایا! اس مہینے میں مجھے نیک کاموں کی طرف ہدایت فرما، اور میری حاجتوں اور خواہشوں کو پوری فرما، اے وہ ذات جو کسی سے پوچھنے اور وضاحت و تفسیر کی ضرورت نہیں رکھتی، اے جہانوں کے سینوں میں چھپے ہوئے اسرار کے عالم، درود بھیج محمد اور آپ کے پاکیزہ خاندان پر۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی ماہ رمضان کے سترہویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں۔ اَللّهُمَّ اهدِني فيہ لِصالِحِ الأعْمالِ وَاقضِ لي فيہ الحوائِجَ وَالآمالِ يا مَنْ لا يَحتاجُ إلى التَّفسيرِ وَالسُّؤالِ يا عالِماً بِما في صُدُورِ العالمينَ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآله الطّاهرينَ
خدایا! اس مہینے میں مجھے نیک کاموں کی طرف ہدایت فرما، اور میری حاجتوں اور خواہشوں کو پوری فرما، اے وہ ذات جو کسی سے پوچھنے اور وضاحت و تفسیر کی ضرورت نہیں رکھتی، اے جہانوں کے سینوں میں چھپے ہوئے اسرار کے عالم، درود بھیج محمد اور آپ کے پاکیزہ خاندان پر۔

اَللّهُمَّ اهدِني فيہ لِصالِحِ الأعْمالِ۔ خدایا! اس مہینے میں مجھے نیک کاموں کی جانب ہدایت فرما۔ خالق بشر نے بشریت کی سعادت، خوشبختی اور کامیابی ایمان اور عمل صالح میں رکھی ہے۔ ارشاد ہو رہا ہے۔ وَالْعَصْرِ ۔ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ ۔ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۔ قَسم ہے زمانے کی۔ یقیناً (ہر) انسان خسارے (گھاٹے) میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیا اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اورصبر کی نصیحت کی۔ (سورہ والعصر)
معروف مفسر جناب فخر رازی کے بقول جب کسی تاجر کے اصل سرمایہ میں نقصان ہو تو اسے خسارہ کہتے ہیں۔ جیسے ایک برف بیچنے والا چاہے اسکی برف بکے یا نہ بکے جیسے جیسے وقت گذرتا جائے گا وہ پگھلتی جائے گی۔ اگر نہ بکی تو تاجر کا صرف فائدے میں نقصان نہیں ہوگا بلکہ اصل سرمایہ میں بھی نقصان ہو گا۔ اس سورہ میں اعلان ہوا کہ انسان خسارہ میں ہے۔ مگر ان صاحبان ایمان کے جو عمل صالح انجام دیتے ہیں اور ایک دوسرے کو حق و صبر کی وصیت و نصیحت کرتے ہیں۔ یعنی اگر کسی انسان میں مذکورہ چار خصوصیات نہیں پائی جاتی ہیں تو وہ خسارہ میں ہے۔ مطلب اسکی عمر ضائع ہو گئی۔
شیعہ مفسرین نے نقل کیا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس سورہ کی تیسری آیت "جو ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔" کے سلسلہ میں فرمایا کہ جو امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی ولایت پر لائے۔ وہ صاحبان ایمان خسارہ سے محفوظ ہیں۔ (تفسیر قمی، جلد ۲، صفحہ ۴۴۱) اسی طرح اهل سنت مفسرین نے اس (تیسری) آیت کو امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی فضیلت میں بیان کیا ہے۔ (الدرالمنثور، جلد۶، صفحہ ۳۹۲)
اللہ کی نظر میں عمل صالح انتہائی اہم ہے کہ قرآن کریم میں ۸۷ بار اس کا ذکر کیا ہے۔ کیوں کہ عمل صالح کا ایمان سے وہی تعلق ہے جو درخت کے تنہ اور شاخ کا جڑ سے ہوتا ہے کہ شاخ نہ ہو تو جڑ کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اسی طرح اگر ایمان ہو اور عمل صالح نہ ہو تو ایمان بے نتیجہ اور بے ثمر ہوگا۔ اور اگر شاخ جڑ سے جدا ہو جائے تو پھر وہ سر سبز و شاداب نہیں رہ سکتی۔ اور مرجھا جانا اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ اسی طرح اگر بغیر ایمان کے عمل انجام پایا تو نہ وہ عمل کرنے والے کے لئے مفید ہو گا اور نہ ہی کسی اور کے لئے فائدہ مند ہوگا۔ جیسا کہ قرآن کریم نے ایمان کو عمل صالح کی اصل، جڑ اور بنیاد قرار دیا ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَىٰ وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ۔ بیشک جو مومنین ، یہودی ، نصاریٰ اور ستارہ پرست سچے دل سے اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لے آئیں اور عمل صالح انجام دیں تو ان کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ (سورہ بقرہ، آیت ۶۲)

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ‌ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَ‌هُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ۔ جو کوئی بھی نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مؤمن ہو تو ہم اسے (دنیا) میں پاک و پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق عطا کریں گے۔ (سورہ نحل، آیت ۹۷)

وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَی اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِینَ۔ اور اس شخص سے بہتر بات کس کی ہوگی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل بجا لائے اور کہے کہ میں مسلمانوں (خدا کے فرمانبردار بندوں) میں سے ہوں۔ (سورہ فصلت، آیت ۳۳)

فَمَن كَانَ يَرْ‌جُو لِقَاءَ رَ‌بِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِ‌كْ بِعِبَادَةِ رَ‌بِّهِ أَحَدًا۔ جو اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہو اسے چاہیے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ (سورہ کہف، آیت ۱۱۰)

مَن کفَرَ‌ فَعَلَیهِ کفْرُ‌هُ ۖ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِأَنفُسِهِمْ یمْهَدُونَ۔ جس نے کفر کیا۔ پس اس کے کفر کا وبال اسی پر ہوگا اور جنہوں نے نیک عمل کئے وہ اپنے ہی لئے راہ ہموار کر رہے ہیں۔ (سوره روم، آیت ۴۴)
مذکورہ آیات سے واضح ہو گیا کہ عمل صالح بغیر ایمان کے ممکن نہیں ہے۔ عمل صالح کا درخت اسی وقت سرسبز و شاداب اور پھل دار ہو سکتا ہے جب آب ایمان سے اسکی سینچائی ہو۔ ممکن ہے بعض اذہان میں یہ سوال پیدا ہو کہ آخر اس عمل صالح اور ایمان میں ایسا گہرا رشتہ کیوں ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر مفید واقع نہیں ہو سکتے تو اہل علم و اہل نظر نے اس کی دو وجہیں بیان کی ہے۔ ایک، ایمان کی بنیاد پر جو عمل ہوتا ہے وہ انسان کو روحانیت کی معراج پر لے جاتا ہے نتیجہ میں اللہ کا تقرب نصیب ہوتا ہے۔ دوسری وجہ خود عمل میں قوام و دوام ہے۔ ہم اپنے اطراف میں دیکھ سکتے ہیں کہ جن دینی، تعلیمی، فلاحی مراکز کی بنیاد ایمان و اخلاص پر ہوتی ہے تو لاکھ حالات ناخوشگوار ہوں انمیں قوام و دوام ہوتا ہے. لیکن خدا نخواستہ جن کی بنیاد ایمان و اخلاص سے ہٹ کر ہوتی ہے، چاہے وہ دینی امور ہوں یا تعلیمی و فلاحی امور ہوں۔ وہ حالات کا مقابلہ نہیں کر پاتے اور بہت جلد ختم ہو جاتے ہیں۔
نیز ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ ایمان و عمل صالح کے صرف اخروی فائدے نہیں ہیں بلکہ اس کے دنیوی فوائد بھی ہیں جن کا بیان اس مختصر تحریر میں ممکن نہیں۔
وَاقضِ لي فيہ الحوائِجَ وَالآمالِ
اور میری حاجتوں اور خواہشوں کو پوری فرما،
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری دعائیں اللہ قبول کرے تو ہمیں اپنے نفس کا محاسبہ کرنا ہوگا کہ کہیں ہم اللہ کے علاوہ کسی اور سے تو امید نہیں لگائے ہیں۔ لیکن ہمیں اہلبیت علیہم السلام سے توسل کرنا نہیں بھولنا چاہئیے کیوں کہ بغیر اہلبیت علیہم السلام سے توسل کے دعا کی قبولیت ناممکن ہے۔
يا مَنْ لا يَحتاجُ إلى التَّفسيرِ وَالسُّؤالِ يا عالِماً بِما في صُدُورِ العالمينَ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآله الطّاهرينَ
اے وہ ذات جو کسی سے پوچھنے اور وضاحت و تفسیر کی ضرورت نہیں رکھتی، اے جہانوں کے سینوں میں چھپے ہوئے اسرار کے عالم، درود بھیج محمد(ص) اور آپ(ص) کے پاکیزہ خاندان پر۔
بے شک خدا عالم ہے وہ دلوں کے حالات اور نیتوں سے بھی واقف ہے۔ بلکہ اہلبیت علیہم السلام بھی عالم و واقف ہیں کیوں کہ اس نے اپنے اولیاء کو علم لدنی عطا کیا ہے جو عام بشر کو نصیب نہیں۔ تاریخ کے بہت سے واقعات ہمارے مدعا کی دلیل ہیں۔
خدایا محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود بھیج

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .