ترتیب و تدوین: سید لیاقت علی کاظمی
16۔سوره نحل کا مختصر جائزه:اس سورت کو نحل اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں نحل(شہد کی مکھی) اور اس پر خدا کے الہام کی طرف اشارہ ہے خدا کی نعمتوں کا ذکر، معاد اور توحید کے دلائل اور عظمت خدا کی طرف اشارہ اس سورت میں پیش کردہ دیگر موضوعات ہیں سوره نحل عدل، احسان، ہجرت اور جہاد کی تلقین کرتی ہے اور ظلم و ستم اور عہد شکنی سے منع کرتی ہے شراب ، مردار، خنزیر اور خون کی حرمت ، اس سورت میں پیش کردہ دیگر عملی احکام ہیں پیغمبر(ص)سے روایت ہے کہ جو شخص سوره نحل کی تلاوت کرے گا، خداوند عالم اس سے دنیا میں عطاکردہ نعمتوں کا حساب نہیں کرے گا اسی طرح ابلیس اور اس کے لشکر سے امان کو اس سورت کی تلاوت کے خواص میں سے بیان کیا گیا ہے۔
مضامین
سوره نحل کے مضمون کو ان موارد میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے۔سوره نحل کے بیشتر اقتباسات میں خدا کی نعمتوں کے بارے میں بحث کی گئی ہے ان نعمتوں میں بارش، سورج کی روشنی، طرح طرح کی سبزیوں، پھلوں، کھانے پینے کی اشیا اور چوپائے شامل ہیں؛توحید اور عظمت خدا کے دلائل کا بیان، قیامت کا تذکرہ مشرکین و مجرمین کو انتباہ؛مختلف احکام از قبیل عدل و احسان، ہجرت و جہاد ، فحشا و منکر، ظلم و ستم اور عہد شکنی کی ممانعت اسی طرح نعمتوں کے شکرانے کی دعوت دی گئی ہے اور حضرت ابراہیم(ع) کا تعارف ایک شکرگزار بندے کے طور پر پیش کیا گیا ہے؛مشرکین کی بدعتوں کا ذکر اور انسان کو شیطان کے وسوسوں سے خبردار کرنا۔
فضیلت اور خواص
پیغمبر(ص)سے منقول ہے کہ جو شخص بھی اس سورت کی تلاوت کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے دنیا میں عطا کردہ نعمتوں کا حساب نہیں لے گا اور اس کی جزا اس شخص کے برابر ہے کہ جو مر جائے اور ایک اچھی وصیت چھوڑ جائے اور اگر اسی دن اس کی موت واقع ہو جائے کہ جس دن اس نے اس سورت کی تلاوت کی تھی تو اس کی جزا اس شخص کی مانند ہے کہ جو اچھی اور پسندیدہ وصیت چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوا ہو[1]۔ امام باقر(ع) سے بھی روایت ہے کہ جو شخص سورہ نحل کی ہر مہینے تلاوت کرے تو اسے دنیا میں نقصان نہیں ہو گا اور ستر قسم کی بلائیں (کہ جن میں سے سادہ ترین جنون،جذام اور برص ہیں) اس سے دور ہوں گی، اس کی جگہ بہشت عدن میں ہے کہ جو جنتی باغات کے وسط میں ہے[2]۔طبرسی نے مکارم الاخلاق میں اس سورت کی تلاوت کے بدلے ابلیس ، اس کے لشکر اور پیروکاروں سے امان جیسے خواص کو ذکر کیا ہے[3]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع
[1] طبرسى، مجمع البیان، 1373ش، ج6، ص535۔
[2] طبرسى، مجمع البیان، 1373ش، ج6، ص535۔
[3] طبرسی، مكارم الاخلاق، 1377ش، ص364۔