۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
News ID: 379956
26 اپریل 2022 - 10:00
سوره حِجر کا مختصر جائزه

حوزہ؍سوره حِجر قرآن کی پندرھویں سورت ہے جو ۱۴ویں پارے میں واقع ہے اسے مکی سورتوں میں شمار کرتے ہیں اس سورے کی وجہ تسمیہ سورے کی آیات ۸۰ تا ۸۴ میں مذکور داستان قوم حضرت صالح(ع) یعنی قوم ثمود میں حجر نام کے علاقے اور اصحاب حجر کا ذکر ہوا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی؍

ترتیب و تدوین: سید لیاقت علی کاظمی

15۔سوره حِجر کا مختصر جائزه:سوره حِجر قرآن کی پندرھویں سورت ہے جو ۱۴ویں پارے میں واقع ہے اسے مکی سورتوں میں شمار کرتے ہیں اس سورے کی وجہ تسمیہ سورے کی آیات ۸۰ تا ۸۴ میں مذکور داستان قوم حضرت صالح(ع) یعنی قوم ثمود میں حجر نام کے علاقے اور اصحاب حجر کا ذکر ہوا ہے خدا پر ایمان لانا، کائنات، علامات معاد، بدکرداروں کا انجام اور قرآن کی اہمیت اور عظمت اس سورت کے مضامین ہیں نیز داستان خلقت حضرت آدم(ع)،‌ ابلیس کے سوا سجدہ ملائکہ، حضرت ابراہیBم کے حضور ملائکہ آنا اور انہیں بشارت دینا نیز عذاب قوم لوط اور داستان قوم ثمود کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے۔

اس سورت کی مشہور آیات میں سے نویں(9) آیت ہے جس میں خداوند کریم نزول ذکر (قرآن) اور اس کی حفاظت کی تاکید کرتا ہے بہت سے مفسرین اس آیت کو عدم تحریف قرآن کی دلیل سمجھتے ہیں اس سورت کی تلاوت کرنے والے کو خدا مہاجرین و انصار کی تعداد کے برابر اجر عطا کرے گا۔

مضامین

اس سورت کے مضامین کا خلاصہ ۔عالم ہستى اور خلقت میں فکر کرنے کے ذریعے خدا پر ایمان لانے سے متعلق آیات؛معاد اور بدکرداروں کی سزا سے متعلق آیات؛قرآن کی خصوصیات،اہمیت اور عظمت سے متعلق آیات؛مختلف قصص کا بیان جیسے داستان خلقت حضرت آدم،‌ ابلیس کے علاوہ سجدہ ملائکہ، حضرت ابراہیم کے پاس فرشتوں کا آنا اور انہیں بشارت دینا، عذاب قوم لوط اور داستان قوم ثمود؛انذار، بشارت و تہدید و تشویق کے ساتھ مؤثر وعظ و نصیحت؛مکہ کے خطرناک حالات میں مخالفین کے سخت اقدامات کے مقابلے میں رسول خدا کو جرأت اور بہادری سے مقابلہ کی نصیحت اور ان کی دلجوئی۔

فضیلت اور خواص
مروی ہے کہ اگر کوئی سوره حجر قرائت کرے گا تو خداوند مہاجرین، انصار اور رسول سے مسخرہ کرنے والوں کی تعداد کے دس برابر اجر و حسنات عطا کرے گا[1]۔ بعض تفاسیر میں اس کے خواص ذکر ہوئے ہیں ان میں سے یہ ہے کہ اگر کوئی اسے لکھ کر اپنے پاس رکھے گا تو اس کے رزق میں وسعت پیدا ہوگی[2]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع
[1] طبرسی، مجمع البیان،‌۱۳۷۲ش، ج۶، ص۵۰۱کفعمی، المصباح، ۱۴۰۵ق، ص۴۴۱۔
[2] بحرانی، البرہان، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۳۲۹۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .