۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
ماہ رمضان المبارک کے نویں

حوزہ/ خدایا! میرے لئے اس مہینے میں اپنی وسیع رحمت میں سے ایک حصہ قرار دے، اور اسی دوران اپنی روشن دلیلوں سے میری راہنمائی فرما اور میری پیشانی کے بال پکڑ کر مجھے اپنی ہمہ جہت خوشنودی میں داخل کر، اپنی محبت سے اے مشتاقوں کی آرزو۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسیہم نویں دن کی دعا میں پڑھتے ہیں ’’اَللّهُمَّ اجْعَل لي فيہ نَصيباً مِن رَحمَتِكَ الواسِعَة وَاهْدِني فيہ لِبَراهينِكَ السّاطِعَة وَخُذْ بِناصِيَتي إلى مَرْضاتِكَ الجامِعَة بِمَحَبَّتِكَ يا اَمَلَ المُشتاقينَ‘‘

خدایا! میرے لئے اس مہینے میں اپنی وسیع رحمت میں سے ایک حصہ قرار دے، اور اسی دوران اپنی روشن دلیلوں سے میری راہنمائی فرما اور میری پیشانی کے بال پکڑ کر مجھے اپنی ہمہ جہت خوشنودی میں داخل کر، اپنی محبت سے اے مشتاقوں کی آرزو۔

’’اَللّهُمَّ اجْعَل لي فيہ نَصيباً مِن رَحمَتِكَ الواسِعَة‘‘
خدایا! میرے لئے اس مہینے میں اپنی وسیع رحمت میں سے ایک حصہ قرار دے۔

رحمٰن و رحیم اور ارحم الراحمین پروردگار کی ایک رحمت عام ہے جو اس کی تمام مخلوقات کے شامل حال ہے مومن ہوں یا مشرک، مسلمان ہوں یا کافر یا منافق جیسے زندگی۔ دوسری رحمت خاص ہے جو صرف نیک اور صالح بندوں کے شامل حال ہے۔

دنیا میں رحمت خاص یعنی پاکیزہ زندگی اور صراط مستقیم پر گامزن حیات اور آخرت میں رحمت خاص یعنی حصول جنت و رضوان الہی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ کی رحمت ہمارے شامل حال رہے تو ہمیں ان کے شرائط پورے کرنے ہوں گے۔ ذیل میں چند شرائط درج ہیں۔

۱۔ ایمان و عمل صالح: اگر کوئی بندہ چاہتا ہے کہ رحمٰن و رحیم خدا کی رحمت اس کےشامل حال ہو تو حصول رحمت کی اہم شرط ایمان اور عمل صالح ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔’’فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَيُدْخِلُهُمْ رَبُّهُمْ فِي رَحْمَتِهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْمُبِينُ ‘‘ جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح (نیک عمل) انجام دیتے ہیں ان کا پروردگار انہیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا اور یہی واضح کامیابی ہے۔ (سورہ جاثیہ ، آیت ۳۰)

۲۔ خدا و رسولؐ کی اطاعت: اگر کوئی بندہ چاہتا ہے کہ اللہ کی رحمت اس کے شامل حال ہو تو اسے اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرنی ہوگی۔ قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے۔ ’’وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ‘‘ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (سورہ آل عمران۔ آیت ۱۳۲)

۳۔ نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا۔ اللہ کے رحمت خاص جن بندوں کے شامل حال ہو گی وہ صاحب ایمان ہوں گے، آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہوں گے یعنی ان کے درمیان اختلاف نہیں ہوگا۔ ایک دوسرے کو نیکیوں کا حکم اور برائیوں سے روکیں گے، نماز قائم کریں گے، زکات دیں گے، اللہ و رسول ؐ کی اطاعت کریں گے۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ‘‘ اور مؤمن مرد مومن مردوں کے اور مؤمنہ خواتین مومنہ خواتین کی دوست ہیں ۔ آپس میں ایک دوسرے کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔ اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ اور اللہ اور اس کے رسول ؐکی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر عنقریب اللہ ضرور رحم فرمائے گا۔ بے شک وہ خدا صاحب عزت اور صاحب حکمت ہے ۔ (سورہ توبہ، آیت ۷۱)
آیت کا واضح مفہوم یہی ہے کہ جو مومنین سے دشمنی کرے یا مومنین کے درمیان اختلاف ایجاد کرے، فتنہ پیدا کرے، مختلف گروہوں میں بانٹ دے تو وہ اللہ کی رحمت سے دور ہوگا۔ یا اسی طرح جو برائیوں کو عام کرے اور نیکیوں سے روکے وہ بھی اللہ کی رحمت سے دور ہے۔ چاہے یہ برائیاں عام کرنا اور نیکیوں سے روکنا رسم و رواج کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں۔

۴۔ پیروی قرآن : اللہ کی رحمت جن لوگوں کے شامل حال ہو گی ان میں سے ایک قرآن کریم کی پیروی کرنے والے ہیں ۔ ارشاد ہو رہا ہے۔ ’’وَهَذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ‘‘ اور یہ (قرآن) بڑی بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے پس تم اس کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو۔ شاید کہ تم پر رحم کیا جائے۔ (سورہ انعام، آیت ۱۵۵)

۵۔ مومنین کے درمیان صلح کرانا: اللہ کی رحمت اس کے شامل ہے جو اہل ایمان کے درمیان صلح کراتا ہے ۔ ارشاد ہو رہا ہے۔ ’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ‘‘ بےشک اہلِ ایمان آپس میں بھائی ہیں تو تم اپنے دو بھائیوں میں صلح کراؤ اور تقویٰ الہی اختیار کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (سورہ حجرات۔ آیت ۱۰)
آیت کا واضح مفہوم یہی ہے کہ اہل ایمان کے درمیان کسی بھی صورت میں اختلاف ایجاد کرنا، فتنہ پھیلانا جائز نہیں ہے۔ بعض خواہشات دنیا کے اسیر اور شہرت طلب، مفاد پرست ناعاقبت اندیش بنام عقیدہ مومنین میں اختلاف ایجاد کرتے ہیں اور بعض بنام عمل۔ دونوں طریقے غیر مناسب بلکہ قابل مذمت ہیں۔

۶۔ مصیبتوں پر صبر کرنے والے : رحمت رحمٰن ان کے شامل حال ہوتی ہے جو آزمائشوں میں کامیابی اور مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں۔ ارشاد ہو رہا ہے۔ ’’وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ۔ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ ۔ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ‘‘ اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے خوف و خطر، اور کچھ بھوک (و پیاس) اور کچھ اموال، جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعہ (یعنی ان میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ)۔ (اے رسولؐ) خوشخبری دے دو ان صبر کرنے والوں کو کہ جب بھی ان پر کوئی مصیبت آن پڑتی ہے تو وہ کہتے ہیں بے شک ہم صرف اللہ کے لیے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ یہی وہ (خوش نصیب) ہیں، جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے درود اور رحمت ہے۔ اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ (سورہ بقرہ ۔ آیت ۱۵۵ تا ۱۵۷)

۷۔ تلاوت قرآن سننا اور استغفار: اللہ کی رحمت ان کے شامل حال ہوتی ہے جو تلاوت قرآن کو غور سے سنتے ہیں ۔ ارشاد ہو رہا ہے ۔ ’’وَإِذَا قُرِىءَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ‘‘اور جب قرآن کریم کی تلاوت ہو تو اسے سنو اور خاموش رہو تا کہ تم پر رحم کیا جائے ۔ (سورہ اعراف، آیت ۲۰۴) اور جو استغفار کرتے ہیں۔ ’’ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ‘‘ تم اللہ سے کیوں بخشش طلب نہیں کرتے تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔ (سورہ نمل، آیت ۴۶)

مذکورہ آیات کے علاوہ دیگر بہت سی آیات ہیں جنمیں اللہ کی رحمت کن خوش نصیبوں کے شامل حال ہو گی، ان کا ذکر ہے۔ قرآنی آیات کے علاوہ معصومین علیہم السلام کی حدیثیں ہیں جنمیں مرحومین کے صفات و خصائص بیان ہو ئے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے احکام کی تعمیل کر کے اس کی رحمت میں شامل ہو جاؤ۔ (میزان الحکمۃ، جلد ۴، صفحہ ۲۰۰۶)

امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے فرمایا: اللہ کی رحمت میں شامل ہونے کا بہترین وسیلہ لوگوں کے ساتھ رحم کرنا ہے۔

’’وَاهْدِني فيہ لِبَراهينِكَ السّاطِعَة ‘‘ (خدایا !مجھے اس ماہ میں ) روشن دلیلوں کے ذریعہ ہدایت فرما۔

انسان اگر خدا کی روشن دلیلوں کی جانب توجہ دے تو خدا شناس بن جائے گا۔ جیسے نظم کائنات میں غور انسان کو ناظم کائنات (خدا) سے نزدیک کرتا ہے۔

’’وَخُذْ بِناصِيَتي إلى مَرْضاتِكَ الجامِعَة‘‘ (خدایا !مجھے اس ماہ میں ) میری پیشانی کے بال پکڑ کر مجھے اپنی ہمہ جہت خوشنودی میں داخل کر۔

انسان کی مکمل سعادت اسی میں ہے کہ اسے اللہ کی کامل رضایت حاصل ہو جائے۔ رضایت کامل یعنی سو فیصد پروردگار کی خوشنودی۔ پروردگار کی خوشنودی اسی وقت میسر ہو سکتی ہے جب اسکی زندگی حلال میں بسر ہو اور حرام سے دور ہو، جو کھا رہا ہے وہ حلال ہو، جو دیکھ رہا ہے وہ حلال ہو، جو سن رہا ہے وہ حلال ہو، جہاں رہ رہا ہے وہ جگہ حلال ہو۔ اسکی زبان غیبت، برائی، چغلخوری، گالی گلوچ جیسی برائیوں سے پاک ہو، نا محرم پر اسکی نظر نہ پڑے، کسی پر ظلم نہ کرے، خیانت کار نہ ہو۔

مالک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ رحمت، ہدایت اور سعادت ہمارا مقدر بنے۔ آمین

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .