حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنو/ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم عقد کے موقع پر ادارۂ تنظیم المکاتب میں ’’شادی خانہ آبادی یا خانہ بربادی‘‘کے عنوان سے جلسہ منعقد ہوا۔ اولاً مولانا سید صفدر عباس فاضل جامعہ امامیہ نے تلاوت قرآن کریم او ر بارگاہ اہلبیتؑ میں منظوم نذرانۂ عقیدت پیش کیا۔ بعدہ حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید صفی حیدر زیدی صاحب قبلہ سکریٹری تنظیم المکاتب نے سورۂ روم کی اکیسویں آیت ’’اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئےتمہارے ہی جنس سے تمہارے جوڑے بنائے کہ اُن سے تم آرام پاؤ اور اس اللہ نے تمہارے درمیان محبّت اور رحمت رکھی۔ بےشک اس میں نشانیاں ہیں فکرکرنے والوں کے لئے۔ ‘‘ کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بارگاہ خدا میں دعا کی کہ اس دن جومبارک رشتہ حکم خدا سے قائم ہوا تھا (حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا عقد ہوا۔ )اسی کے توسط سے ہمارے سامنے گیارہ معصوم امام ، رہبر اور ہادی آئے ۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم ان ائمہ علیہم السلام ، ام الائمہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور ابوالائمہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی سیرت سےسے سبق حاصل کرسکیں ، انکو اپنے لئے نمونہ حیات بنا سکیں ۔ صرف انکی خوشی میں خوش نہ ہو، صرف اپنی خوشی کا خیال نہ کریں بلکہ یہ دیکھیں کہ ان کی خوشی کس بات میں ہے؟
مولانا سید صفی حیدر زیدی صاحب قبلہ نے فرمایا: آج سوشل میڈیا پر ایسے لطیفے پیش ہوتے ہیں جن میں شادی قید و بند اور آزادی ختم ہو جانے کا دوسرا نام بن گئی ہے جب کہ آیت میں اللہ نے شادی کے اسباب و نتائج جو بیان کئے ہیں وہ سکون، مودت اور رحمت ہیں ۔ جس طرح نماز کے واجب ہونے کی وجہ جو اللہ نے بیان کی وہ فحش و منکرات سے روکنا ، روزہ کی وجہ تقویٰ الہی کا پیدا ہوجا نا ہے اسی طرح اللہ نے شادی کی وجہ انسانی سکون، میاں بیوی کے درمیان مودت و رحمت ہے۔ معصوم امامؑ سے پوچھا گیا کہ ہم کیسے جانیں کہ ہماری نماز قبول ہوئی یا نہیں ؟تو جواب دیا کہ یہ دیکھو کہ نماز کے بعد تم گناہوں سے کتنا دور ہوئے۔ اسی طرح اگر آج شادی کے بعد خدا نخواستہ سکون، مودت و رحمت نصیب نہ ہو تو انسان کو اپنا محاسبہ کرناچاہئے۔
سکریٹری تنظیم المکاتب نے بیان کیا کہ آج ہمارے سماج میں لڑکی والوں میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ رشتہ اچھا مل جائے، شوہر اچھا ملے، لڑکی پر ظلم نہ ہو اور یہ خوف صرف لڑکی والوں میں ہی نہیں بلکہ لڑکے والوں میں بھی پایا جا رہا ہے کہ لڑکی ایسی ملے جو گھر کو جوڑ کر رکھے، رشتہ داروں کو جوڑ کر رکھے۔ یعنی دونوں جانب خوف و ہراس برابر پایا جا رہا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ ہم اُس نظام سے دور ہو چکے ہیں جو اللہ کا بنایا نظام ہے۔ جو نظام دین ہے، جس نظام میں سکون، مودت و رحمت ہے ۔ آج سب سے بڑی مصیبت رشتہ ملنا، اس کے بعد رشتہ نبھانا، جہیز کی ڈمانڈ، براتیوں کی خاطر داری کی مانگ ہے۔ایسا لگتا ہے کہ بارات نہیں آ رہی ہے بلکہ کچھ لوٹ کھسوٹ کرنے والے لوگ آرہے ہیں اورلڑکی والے لٹتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور جب یہی لڑکی والے بارات لے کر جاتے ہیں تو اپنا انتقام لیتے ہیں ۔ اسی طرح یہ سلسلہ چل رہا ہے جو مشاہدہ میں ہے۔
مولانا سید صفی حیدر زیدی صاحب نے بیان کیا کہ اگر ہم غور کریں کہ رشتہ کے لئے جو معیار آج ہمارے یہاں قائم ہیں ، خاندان، مال و دولت ، اقتدار اور حسن و جمال انہیں معیاروں پر جب رشتے آئے تو پیغمبرؐاسلام نے انہیں ٹھکرا دیا لیکن وہ آیا جو کفو تھا، جو لائق تھا، جو محبوب خدا تھا تو اسے قبول کیا۔ مہر کے لئے مولا علیؑ نے اپنی زرہ بیچی۔ جس کے ذریعہ جہیز مہیا کیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےخود مہمان بلایا اور بیٹی کو شوہر کے گھر تک پہنچایا۔ یہاں نہ شادی میں کوئی غیر اسلامی رسم نظر آئی اور نہ ہی لڑکے والوں کے مہمانوں کی مہمان داری لڑکی والوں پر تھوپی گئی۔
یہ پروگرام تنظیم المکاتب یوٹیوب چینل اور دہلی عزاداری فیس بک پیج پر لائو نشر ہوا۔