حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکہ میں مقیم شیعہ عالم دین مولانا نفیس حیدر تقوی کا تعلق ہندوستان کی ریاست راجستھان کے شہر جے پور سے ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی، اور اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کے لیے قمِ مقدسہ کا رُخ کیا، جہاں آپ نے ۲۱ برس تک تحصیلِ علم میں مشغول رہتے ہوئے درجہٴ درسِ خارج تک تعلیم حاصل کی۔ آپ کو آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپایگانیؒ کے درسِ خارج میں شرکت اور ان کے شاگرد ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ نے اسلامی عقائد، اسلامی تاریخ، اور اسلامی معاشی احکام میں ماسٹرز کی ڈگریاں بھی حاصل کیں۔ فی الحال آپ امریکہ کے شہر اٹلانٹا میں زینبیہ اسلامک سینٹر کے پیش نماز ہیں اور وہاں تبلیغِ دین کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
حوزہ نیوز کے نمائندے نے یکم ذی الحجہ، عقدِ زہرا (س) و علی (ع) کی مناسبت سے، مولانا موصوف سے دورِ حاضر میں شادی و نکاح کی موجودہ صورتِ حال پر تفصیلی گفتگو کی، جسے ہم سوال و جواب کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔
حوزہ نیوز: اہل بیتؑ کی سیرت میں اس عقد کی اہمیت کیا ہے؟
مولانا نفیس حیدر تقوی:
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
یومِ عقد مولائے کائنات حضرت علیؑ اور سیدہ النساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا تاریخِ انسانیت کا ایک بے مثل واقعہ ہے۔ یہ عقد صرف ایک ازدواجی رشتہ نہ تھا بلکہ دو معصومین کے درمیان ایک ایسا الٰہی پیمان تھا جو کائنات کی معنوی بنیاد بن گیا۔
یہ تاریخِ بشر میں پہلا اور آخری عقد ہے جو دو معصوموں کے درمیان ہوا۔ حضرت مریمؑ نے نکاح نہیں کیا، لہٰذا حضرت زہراؑ واحد معصوم خاتون ہیں جن کا عقد ایک معصوم مرد یعنی امیرالمؤمنینؑ سے ہوا۔
یہ عقد نسلِ امامت کا نقطۂ آغاز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نسلِ ابراہیمؑ کو اسی عقد کے ذریعے جاری رکھا۔ حضرت اسماعیلؑ کی نسل سے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اور پھر حضرت فاطمہؑ، اور حضرت علیؑ کے ذریعے یہ سلسلہ امامت جاری ہوا جو امام مہدی (عج) تک پہنچا اور قیامت تک باقی رہے گا۔
حوزہ نیوز: اس عقد میں سادگی کا جو مظاہرہ کیا گیا، وہ آج کی شادیوں کے لیے کیا پیغام رکھتا ہے؟
مولانا نفیس حیدر تقوی: نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی اگر چاہتیں تو دنیا کی کسی بھی خاتون سے زیادہ شان و شوکت سے شادی کر سکتی تھیں، لیکن انہوں نے سادگی کو چنا۔ ان کا جہیز سادہ، ان کا مہر معمولی، اور زندگی کا طرز عمل انتہائی پاکیزہ اور قناعت آمیز تھا۔ ان کی یہی سیرت آج کی فضول خرچ، دکھاوے اور اسراف سے بھری شادیوں کے کلچر کے خلاف خاموش مگر زوردار احتجاج ہے۔
اسی طرح حضرت علیؑ بھی، باوجود اس کے کہ کائنات کی کنجیاں ان کے اختیار میں تھیں، سادہ غذا اور سادہ لباس کے ذریعے مردوں کے لیے عملی نمونہ بنے۔
یہ سادگی وقتی یا مجبوری نہ تھی، بلکہ دائمی طرزِ حیات تھا—خواہ باپ کے گھر ہوں یا شوہر کے۔ دونوں ہستیوں نے کائنات کے ہر مرد و زن کو یہ پیغام دیا کہ عظمت سادگی میں ہے، نمود و نمائش میں نہیں۔
جہیز اور مہر کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟
مولانا نفیس حیدر تقوی: حضرت محمد مصطفیٰ (ص) نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا (س) کی شادی حضرت علی (ع) سے سادگی سے انجام دی، تاکہ امت کے لیے ایک عملی نمونہ قائم ہو۔ حضرت علی (ع) نے مہر میں اپنی زرہ پیش کی، جو 500 درہم میں فروخت ہوئی۔ اسی رقم سے حضرت زہرا (س) کا سادہ جہیز تیار ہوا۔ ان کے جہیز میں صرف چند ضروری اشیاء شامل تھیں۔
یہ نکاح ہمیں سکھاتا ہے کہ مہر شریعت کا حصہ اور شوہر کی ذمہ داری ہے، جبکہ جہیز کوئی شرعی فریضہ نہیں۔ آج کے معاشرے میں مہر کو نظرانداز کر کے غیرضروری جہیز کو لازم سمجھا جاتا ہے، جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
مہر ایک قابلِ ادائیگی مالی حق ہے، محض رسمی الفاظ نہیں۔ اسے شادی کے وقت ادا کرنا سنتِ نبوی ہے۔ اسلام سادگی، ایثار اور تقویٰ پر مبنی ازدواجی زندگی کی ترغیب دیتا ہے، نہ کہ دکھاوے اور رسومات پر۔
اگر ہم حضرت علی و فاطمہ (ع) کی سیرت پر عمل کریں گے، تو ہماری نسلیں بھی نیکی، حلم اور عبادت کی روش پر چلیں گی۔
عصر حاضر کی فضول رسموں کے مقابلے میں عقدِ زہراؑ و علیؑ ہمارے معاشرے کو کیا سبق دیتے ہیں ؟
مولانا نفیس حیدر تقوی: حضرت علیؑ اور حضرت زہراؑ کی زندگی قرآن مجید کی عملی تفسیر ہے۔ ان دونوں عظیم ہستیوں کا انتخاب خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو یہ بتاتا ہے کہ ازدواجی زندگی کا آغاز تقویٰ اور الٰہی معیار پر ہونا چاہیے، نہ کہ مال، چہرے یا دنیاوی حیثیت کی بنیاد پر۔
آج رشتوں کا معیار ظاہری دکھاوا بن چکا ہے، جبکہ قرآن ہمیں باطن، سکون، محبت اور رحمت کو اصل بنیاد قرار دیتا ہے۔ سورۂ روم کی آیت 21 میں ارشاد ہوتا ہے:
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً، إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
"اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اُس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھی۔"
یہ آیت بتاتی ہے کہ نکاح محض رسم نہیں، بلکہ ایک روحانی بندھن ہے، جس کی بنیاد اللہ کی نشانیوں پر ہے۔ عقدِ زہراؑ و علیؑ ہمیں سکھاتا ہے کہ سادگی، اخلاص اور تقویٰ سے بھرپور زندگی ہی اصل کامیابی کا راستہ ہے۔
اگر آج کے نوجوان حضرت علیؑ و حضرت فاطمہؑ کی سیرت سے رہنمائی لینا چاہیں، تو کہاں سے آغاز کریں؟
مولانا نفیس حیدر تقوی: قرآن میں اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کے رشتے کو محبت، رحمت اور سکون کا ذریعہ بنایا ہے۔ "مودّت" ایسی محبت ہے جو زندگی کی بقا سے جُڑی ہو، اور "رحمت" نرمی اور شفقت کا جذبہ ہے۔ یہ صفات اللہ کی طرف سے اس رشتے میں ودیعت کی گئی ہیں۔
بدقسمتی سے آج کے دور میں اس پاکیزہ بندھن کو دنیاوی مفادات اور دکھاوے تک محدود کر دیا گیا ہے، جبکہ اصل مقصد قربِ الٰہی اور روحانی کمال ہے۔
قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ رشتہ طے کرتے وقت مال و دولت نہیں، بلکہ تقویٰ، دینداری اور خاندانی شرافت کو ترجیح دینی چاہیے، کیونکہ اگر فقیر بھی ہو تو اللہ اپنے فضل سے اسے غنی کر دیتا ہے۔
ایک خوبصورت تمثیل میں لڑکا گیہوں کی فصل کی طرح اپنے گھر میں پروان چڑھتا ہے، جبکہ لڑکی چاول کی فصل کی طرح نکاح کے بعد دوسرے گھر منتقل ہو کر مکمل ہوتی ہے۔
لہٰذا، عقدِ زہراءؑ و علیؑ کی سیرت کو صرف خوشی کی رسم نہ سمجھیں بلکہ اسے عملی نمونہ بنائیں، جو سادگی، پاکیزگی اور کامل رشتہ ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری نسل کو ان کی سیرت پر چلنے کی توفیق دے، ہماری بیٹیوں کو نیک نصیب بنائے اور ان کے نصیبوں کو اپنے فضل سے بہتر فرمائے۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا، إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ، بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ۔









آپ کا تبصرہ