۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں رشتہ ازاوج

حوزہ/ دین اسلام ایک مکمل ضابطء حیات ہےجو صبح قیامت تک امن و سلامتی اور نجات و عافیت کا پاسبان بن کر آیا ہے اور اس میں جسم و روح کے جملہ مسائل کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔ 

تحریر : سید قمر عباس قنبر نقوی سرسوی، نئی دہلی

حوزہ نیوز ایجنسی اسلام نے رشتہ ازدواج،شادی کو بہت اہمیت دی ہے قرآنِ مجید میں شادی کو سکون کا باعث قرار دیتے ہوئے صاحبانِ ایمان کو شادی کرنے کی تلقین کی ہے حضرتِ مرسل اعظمؐ نے شادی کو نصف ایمان کا محافظ اور رزق میں فراوانی کا سبب قرار دیا ہے علماء و فقہا کی نگاہ میں شادی سنت موکدہ ہے لیکن جو شخص شادی نہ ہونے کے سبب گناہ میں ملوث ہوتا ہو اس پر شادی واجب ہے۔

اسلام میں شادی کو محض جنسی تسکین یا حصول مال و دولت کے لیے قرار نہیں دیا گیا بلکہ اسلام میں نکاح، شادی کا تصور عفت و عصمت، پاکدامنی اور ایک ایسی طاہر و صالح نسل پر مبنی ہے جو علم و اخلاق سے آراستہ اور دین و انسانیت کی خدمت کے جزبے سے کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہو ۔ لیکن آج نکاح، مقصد نکاح  اور تقریب نکاح کے معنیٰ ہی بدل دیئے گئے ہیں۔ شادی کے لیے سب سے اہم ترین اور حساس مسئلہ لڑکا لڑکی کا انتخاب ہے اس انتخابی عمل میں نہ جانے کیسے بعض مسلمانوں میں غیر اسلامی تصورات قائم ہو گئے ہیں جو سب کے سب  تعلیماتِ دین اسلام ، قرآن مجید ، احادیث حضرت رسول اکرمؐ ، ارشادات حضرات اہلیبتؑ اور اصحاب اجمینؓ کے بالکل برخلاف ہیں ۔ آج بعض مسلمان ظاہری حسن وجمال، مال ومنال اور عہد و شہرت کو مقدم قرار دیتے ہوئے اس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ جبکہ دولت مستقل نہیں چند سالہ ہے ، حکومتی منصب چار ۔ پانچ سال اس کے بعد اکثر رسوائی یا قید خانہ ، افسری رٹیائر مینٹ کے بعد ختم اور اس کے بعد کوئی پوچھنے اور بات کرنے والا نہیں ہے ۔ لیکن دین اسلام نے جس چیز کو کفو کا معیار قرار دیا ہے وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں بلکہ جیسے جیسے وقت گزرے گا ازواجی زندگی کی پختگی اور حسن  میں اضافہ ہوتا چلے جا ئے گا اور وہ معیار  تقویٰ ہے۔ دین اسلام میں شوہر اور بیوی کے انتخاب کا معیار صرف اور صرف تقویٰ ہے یعنی لڑکا و لڑکی متقی ہوں ،  مومن ہوں ان کے یہاں ایمان ، پرہیز گاری ، دین و دینداری ، صبر ، حلم اور بردباری ہو۔ اسلام ایسے رشتوں کو مقدم قرار دیتا ہے۔ قرآن دونوں (لڑکا لڑکی) کو جامع حیات اور لباس عفت قرار دیتا ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ پاک و پاکیزہ لباس ہی خوبصورت اور پسندیدہ ہوتا ہے نجس اور غصبی لباس میں سوائے غلاظت اور کراہیت کے کچھ نہیں ہو تا۔ یوں بھی عورت ظاہری حسن و جمال میں کتنی ہی آچھی لگتی ہو صاحبِ ایمان عورت اس سے بہرحال بہتر ہوتی ہے۔ اگر ہم  لڑکا و لڑکی کی شادی کے انتخاب میں مرضئ پرورگار اور خوشنودئ حضرت مرسلِ اعظم کو مقدم رکھیں گے تو ہمارا یہ انتخاب مستقبل میں نیک و صالح اور مطیع و فرمانبردار نسل کا ضامن ہوگا۔ ظاہر ہے پھل وہی ملے گا جسکا درخت لگایا ہے۔ املی یا کریلے کا درخت لگا کر میٹھے آم یا بہترین ذائقدار سیب کا متمنی اپنی بے وقوفی کا اعلان ہے اور بعد میں اس کے نتیجے پر سوائے کف افسوس کے کچھ نہیں مل سکتا ہے۔

یہ مقامِ افسوس اور ستم ظریفی  نہیں تو کیا ہے کہ بلند آواز سے مجمع عام میں نعرہ تکبیر لگانے والے مسلم سماج میں ایک دیندار اور پڑھی لکھی لڑکی کی شادی معزز خا نوادے میں صرف اس وجہ سے نہیں ہورہی ہے کہ اس کا شریف اور دیندار باپ  لڑکے کے گھر والوں کے معیار کے مطابق " خاموش جہیز " اور انکے شایانِ شان اور پسندیدہ مقام پر  بارات کی ضیافت نہیں دے سکتا۔ دوسری طرف نہایت نیک کردار ، پاک نفس اور تعلیم یافتہ لڑکا مل رہا ہے آمدنی اتنی ہے کہ زن و شوہر مناسب زندگی گزار کر نئی نسل کی تر بیت میں مصروف ہو سکتے ہیں مگر رشتہ یہ کہکر ٹال دیا جاتا ہے  کہ ویسے تو سب ٹھیک ہے مگر ماشاء اللہ بچی نے ہرے بھرے گھر میں زندگی گزاری ہے اس مختصر سی آمدنی میں کیسے گزر کرے گی۔ جبکہ قرآن پکار پکار کر نکاح کی ترغیب دیتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ " اگر یہ لوگ محتاج ہوں گے تو خدا  اپنے فضل و کرم سے انھیں مالدار بنا دیگا " امام جعفر صادقؑ بیان فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص عورت سے اس کے حسن و جمال اور مال و منال کی وجہ سے شادی کرتا ہے تو خدا وند عالم اس سے اپنی نظر مرحمت کو اٹھا لیتا ہے اور اگر کوئی اسکی دین داری کی بنیاد پر شادی کرتا ہے تو خداوند عالم مال و جمال دونوں نوازتا ہے۔

آیئے ہم عہد کریں کہ اپنی اور اپنے بچوں اور بچیوں کی  شادی اسلامی تعلیمات ، سیرت پیغمبرؐ اکرم ، سیرت اہلیبتؑ اور سیرت اصحاب کرامؓ کے مطابق کریں گے ۔ نکاح اور ولیمہ کی تقریبات کو بہودہ اور غیر مہزب رسومات سے پاک اور محدود سطح پر کریں گے ۔ تاکہ ہماری شادیوں خوشگوار اور پاک نسل کی ضامن اور طعنوں ، گھٹن ، خوف ، طلاق اور خود کشی سے پاک و محفوظ رہیں ۔ لیکن یہ کام اس بگڑے ہوئے سماج میں اتنا آسان نہیں ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تحریک کا آغاز معروف علماء کرام ، امراء شہر ، مدبران ، اعلیٰ افسران ، تاجران اور ہر مسلک کے ممتاز افراد اپنے بچوں کی شادیوں سے کریں اور پھر انشاء اللہ تعالیٰ ہر کوئی اس تحریک اور دھارے کا حصہ بنتا نظر آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ

تبصرہ ارسال

You are replying to: .