۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
سعودی عرب میں مسیار کے نام سے خفیہ شادی کا وسیع پیمانے پر بڑھتا رجحان

حوزہ/ مسیار شادی کی ایک قسم ہے جو ازدواجی فرائض کی پاسداری کے بغیر انجام دی جاتی ہے اور عام طور پر چھپ کر کی جاتی ہے ،اس کا سعودی عرب رجحان تیزی سے بڑھ رہاہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مسیار شادی کی ایک قسم ہے جو ازدواجی فرائض کی پاسداری کے بغیر انجام دی جاتی ہے اور عام طور پر چھپ کر کی جاتی ہے ،اس کا سعودی عرب میں رجحان تیزی سے بڑھ رہاہے۔

مسیار شادی جو سعودی عرب میں قانونی ہے اور کئی دہائیوں سے سعودی عرب اور کچھ دوسرے خلیجی ممالک کے مسلمانوں میں مقبول رہی ہے، ایک ایسی شادی ہے جس میں مرد اور عورت مستقل طور پر ایک ہی چھت کے نیچے نہیں رہتے ہیں اور نہ ہی مرد پر خواتین کے لئے جگہ اور کھانا پینا مہیا کرنے کی کوئی ذمہ داری ہے تاکہ اس کے باوجود ان کے درمیان جنسی تعلقات ہوتے ہیں۔

اس سلسلے میں فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی ایک رپورٹ تیار کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب میں اس طرح کی شادی کم آمدنی والے مردوں میں بہت مشہور ہے ،تاہم اس بہت زیادہ تنقید بھی کیا جاتی ہےیہاں تک کہ کچھ علما بھی اس طرح کے تعلقات کو مرد اور عورت کے مابین شرعی نکاح کے فریم ورک سے باہر سمجھتے ہیں اور اسے حرام سمجھتے ہیں،تاہم اس قسم کا رشتہ کچھ غیر شادی شدہ خواتین اور مردوں میں بہت مشہور ہے جو اپنے جنسی تعلقات کےلیےمذہبی کور ڈھونڈنا چاہتے ہیں۔

ایک 40 سالہ سعودی ملازم جو 30 سال کی بیوہ سے دو سال سے زیادہ عرصے سے اس طرح کے رشتے میں منسلک ہے ، نے اے ایف پی کو بتایا کہ مسیار مرد اور عورت کے مابین ایک پرسکون،آزاد اور قانونی شراکت کے امکان کو مہیا کرتا ہے، وہ ، جو شادی شدہ ہیں اور تین بچوں کا باپ ہے اس کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ وہ جب بھی چاہتا ہے ریاض میں اپنے دوسری بیوی سے ملنے جاتے ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ میرے نئے دوست کی مسیار شادی کے ذریعے 11 خفیہ بیویاں ہیں،وہ مسلسل ایک کو طلاق دے کر دوسری سے شادی کررہا ہے۔،سعودی عرب میں مقیم سعودی اور غیر ملکی اکثراس طرح کی شادی کرنے کے لئے ڈیٹنگ سائٹوں اور ایپس کا استعمال کرتے ہیں۔

ریاض میں ایک 40 سالہ مصری فارماسسٹ نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ شادی بہت سستی ہے،اس میں نہ مہر دینا پڑتا ہے اور نہ ہی خرچے کی کوئی ذمہ داری ہے ،انھوں نے کہا کہ جب سے کورونا شروع ہوا ہے میں نے اپنی اہلیہ اور پانچ سالہ بیٹے کو قاہرہ بھیج دیا اور خود سعودی عرب میں زندگی گزارنے کے لیے اس طرح کی شادی کی تلاش کرنا شروع کر دی ۔

انھوں نے کہا کہ میں بہت سارے ایسے لوگوں سے رابطہ کیا ہے جو اس طرح کے کام کرواتے ہیں اور اس کے بدلہ میں 5 ہزار ریال (ایک ہزار یورو سے زیادہ) وصول کرتے ہیںمتاہم ابھی تک مجھے کوئی ملا نہیں۔

واضح رہے کہ سعودی عرب کے مقامی اخبار الوطن کی ایک رپورٹ کے مطابق 2018 میں سعودی وزارت انصاف نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس طرح کی شادیاں اکثر وقتی طور پر ہوتی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر 14 سے 60 دن کی مدت کے بعد ختم ہوجاتی ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .