حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس کرتے ہوئے جسے آپ نے 18 ستمبر 1996 کی تاریخ کو خطاب کیا جسکا مکمل متن اس طرح ہے؛
بسمہ تعالی
آج اس عظیم اجتماع میں، میں خواتین کے مسائل سے متعلق دو تین باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
پہلی بات یہ ہے کہ آج خواتین کے تعلق سے ایک بڑی مشکل نہ صرف ایران میں بلکہ پوری دنیا میں پائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ زندگی کے بعض شعبوں میں خواتین کے حقوق اور شخصیت کے تئیں کوتاہی اور بعض زیادتیاں ہوتی ہیں ۔ یعنی خواتین پر ظلم ہوتا ہے۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مشرقی یا اسلامی ملکوں کی خصوصیت ہے۔ یہ تصور غلط ہے۔ مغربی ملکوں میں، خواتین کے بارے میں ان کے تمام دعووں کے برخلاف، خواتین کے ساتھ ظلم اگر اسلامی اور مشرقی ملکوں سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے۔ گھر کےاندر، خواتین کے ساتھ مردوں کا ظلم، شوہر کی طرف سے بھی، باپ کی طرف سے بھی اور بھائیوں کی طرف سے بھی بہت زیادہ ہے ۔ میں نے اس کے اعداد وشمار دیکھے ہیں۔ یہ اعداد وشمار انسان کو لرزہ براندام کردیتے ہیں اور انسان حیرت میں پڑجاتاہے۔
بنابریں جس مشکل کی طرف اشارہ کیا گیا وہ دنیا میں ہرجگہ پائی جاتی ہے۔یہ مشکل دور ہونی چاہئے۔ البتہ ملکوں میں انقلابات کی جدوجہد کے دوران سیاسی مجاہدت کے عظیم میدانوں میں خواتین نے سرگرم حصہ لے کر اپنا کردار ثابت کیا ہے تو اس کے بعد حالات بہت حد تک بدل گئے ہیں۔ میں یہاں ،آپ عزیز خواتین، اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے درمیان عرض کروں گا کہ انقلاب کی کامیابی میں خواتین کے اجتماعات کا کردار، شاید مردوں کے مخصوص اجتماعات سے زیادہ رہا ہے۔ عام اور سیاسی مجاہدت میں خواتین کی موجودگی کثیر الجہتی پہلووں کی حامل ہوتی ہے۔ مرد، ایک فرد تھا، جو مجاہدت، اجتماعات اور جلوسوں میں شرکت کرتا تھا۔اس کی حیثیت بس ایک فرد کی تھی۔ لیکن جب خاتون خانہ،خود کو مجاہدت میں شریک سمجھ کے میدان میں قدم رکھتی تھی تو وہ پورے گھرانے کو جس میں عورت مرد اور بچے سبھی ہوتے ہیں، میدان میں لاتی تھی ۔ وہ پورے کنبے کو مجاہدت کے میدان میں لاتی تھی۔ جنگ میں بھی ایسا ہی تھا۔ اگر شہیدوں کے پسماندگان، مائیں، اور ان کی بیویاں، صبر نہ کرتیں تو جنگ بہت زیادہ مشکلات سے دوچار ہوجاتی۔ اس دور میں خواتین کا کردار بہت نمایاں تھا۔ انقلاب اور جنگ نے ہماری خواتین کو سیاسی بصیرت اور رشد سے آراستہ کیا۔ عورت اگر تعلیم یافتہ ہو، سیاسی بصیرت رکھتی ہو تو پھر کوئی آسانی سے نہ اس پر ظلم کرسکتاہے اور نہ ہی اس کا حق پامال کرسکتا ہے۔ یہ وہ ثمرات ہیں جو انقلاب خواتین کے لئے لایا ہے۔ ۔ یہ پہلا نکتہ ہے۔
میری گزارش ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان لڑکیاں اور سمجھدار خواتین اس نکتے پر اچھی طرح توجہ دیں جو میں عرض کرنے جارہا ہوں: خواتین کے بارے میں اسلامی نظریئے کوواضح کرنے کے لئے ، تین نقطہ نگاہ سے ان پر توجہ دی جاسکتی ہے۔ ایک، بحیثیت انسان، معنوی اور نفسانی تکامل کی راہ میں خواتین کا کردار ہے۔ اس پہلو سے عورت اور مرد میں کوئي فرق نہیں ہے۔ تاریخ میں جس طرح مردوں کی عظیم اور ممتاز ہستیاں پائی جاتی ہیں اسی طرح ، خواتین کی بھی عظیم اور ممتاز ہستیاں پائی جاتی ہیں ۔ قرآن کریم میں جب خدا وند عالم مومین کی مثال پیش کرتا ہو تو (مومن) عورتوں کی مثال اس طرح پیش کرتا ہے کہ " وضرب اللہ للذین آمنوا امرات فرعون۔"(1) یہ مثالی مومن خاتون ایسی ہے کہ اس دور کے انسانوں میں یا اس کی نظیر نہیں تھی یا کم تھی۔ یہ پہلا نقطہ نگاہ ہے۔
دوسرا نقطہ نگاہ، سماجی، سیاسی، علمی اور اقتصادی شعبوں میں سرگرمیوں سے متعلق ہے۔ اسلام میں، سماجی، علمی،سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں خواتین کی سرگرمیوں کے لئے میدان پوری طرح کھلا ہوا ہے۔ اگر کوئی اسلامی نظریئے کا حوالہ دے کر خواتین کو علمی کام سے روکنا چاہے، اقتصادی سرگرمیوں سے محروم کرنا چاہے،یا سیاسی اور سماجی سرگرمیوں سے الگ کردینا چاہے، تو حکم خدا کے خلاف عمل کرے گا۔ خواتین ، جس حدتک ان کی جسمانی توانائی اور ضرورتیں اجازت دیں، سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں۔ وہ اپنی توانائی بھر اقتصادی، سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں۔ اسلام کی مقدس شریعت اس میں رکاوٹ نہیں ہے۔ لیکن چونکہ عورت جسمانی لحاظ سے مردوں کے مقابلے میں نازک ہے اس لئے اس کی کچھ ضرورتیں ہیں۔ عورتوں کو بھاری کام دینا ان پر ظلم ہے۔ اسلام اس کی سفارش نہیں کرتا۔ اسی طرح منع بھی نہیں کرتا ہے۔ البتہ حضرت امام علی بن ابیطالب علیہ الصلواۃ والسلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ" المراۃ ریحانۃ ولیست بقھرمانہ"(2)یعنی عورت پھول ہے، نوکرانی نہیں ہے۔"قہرمان" یعنی باعزت خدمتگار اور ملازم۔آپ مردوں سے فرماتے ہیں کہ خواتین تمھارے گھر میں پھولوں کی طرح لطیف ہیں۔ ان کے ساتھ نرمی اور لطافت سے پیش آؤ۔ عورت تمھاری نوکرانی اور خدمت گار نہیں ہے کہ تم یہ سوچو کہ بھاری کام اس کے ذمہ کرو۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔
ابھی حال ہی میں، مجھے جو رپورٹ دی گئی ہے ، اس میں بتایا گیا ہے کہ مغربی آذربائیجان کے بعض علاقوں میں روز مرہ کے ستر فیصد کام خواتین اور بقیہ تیس فیصد مرد انجام دیتے ہیں۔ یہ ظلم ہے۔ یہ اسلام کے نظریئے کے خلاف ہے۔ یہ جو بعض مرد شادی کے وقت یہ شرط رکھتے ہیں کہ عورت کام کرے اور پیسے کمائے، غلط ہے۔ اگر چہ خلاف شریعت نہیں ہے لیکن اسلام اس کی سفارش نہیں کرتا ہے۔ ہم اگر عورت کے لئے اقتصادی اور سماجی سرگرمیوں کو ممنوع کرنا چاہیں، تو یہ اسلام کے نقطہ نگاہ سے غلط ہے۔ اسلام نے یہ نہیں کہا ہے ۔ لیکن اسلام نے یہ بھی نہیں کہا ہے کہ عورت کو بھاری کام کرنے اورسخت اقصادی، سماجی اور سیاسی سرگرمیوں پر مجبور کیا جائے۔ اسلام کا نظریہ اعتدال پر مبنی ہے ۔ یعنی عورت کے پاس اگر وقت ہو، بچوں کی پرورش مانع نہ ہو، اور اس کے اندر جسمانی توانائی اور شوق پایا جاتا ہو تو وہ سیاسی، سماجی اور اقتصادی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہے۔اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اس کو مجبور کرنا اور یہ کہنا کہ اس کو لازمی طور پر کام کرنا چاہئے، اور ہر روز اتنا کام کرنا چاہئے اور اتنا پیسہ کمانا چاہئے کہ گھر کا خرچہ پورا ہوسکے، گھر کے اخراجات کا ایک حصہ اس کو اپنے ذمہ لینا چاہئے، یہ غلط ہے۔ اسلام نے عورت سے یہ نہیں چاہا ہے۔ یہ عورت کے ساتھ ایک طرح کا ظلم شمار ہوتا ہے۔
مختصر یہ کہ، دوسرے پہلو سے اسلام کا نظریہ ہے کہ علمی، اقتصادی، سماجی اور سیاسی سرگرمیوں کے میدان میں نہ عورت پر کوئي چیز مسلط کرنی چاہئے، نہ اس کو مجبور کرنا چاہئے، اور نہ ہی اس کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنی چاہئے۔ خواتین چاہیں تو سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں۔ کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔ البتہ علمی سرگرمی بہتر ہے، دوسری سرگرمیوں پر اس کو ترجیح حاصل ہے۔
میں لوگوں سے سفارش کروں گا کہ اپنی بیٹیوں کو پڑھنے دیں۔ یہ نہ ہو کہ ماں باپ ، دینی تعصب کے باعث بیٹیوں کواعلی تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کے بارے میں سوچیں۔ نہیں، دین نے یہ نہیں کہا ہے۔ دین کی نظر میں حصول علم کے تعلق سے بیٹی اور بیٹے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جس طرح آپ کا بیٹا اعلی تعلیم حاصل کرتا ہے اسی طرح بیٹی کو بھی اعلی تعلیم حاصل کرنے دیجئے ۔ بیٹیوں کو علم حاصل کرنے دیجئے، اطلاعات حاصل کرنے دیجئے، اپنی قدرومنزلت سے واقف ہونے دیجئے تاکہ سمجھ سکیں کہ عورتوں کے بارے میں عالمی سامراج کے پروپیگنڈے کتنے بے بنیاد اور کھوکھلے ہیں۔ تعلیم کے ذریعے ان باتوں کو سمجھا جاسکتا ہے۔
آج ہماری متدین ترین، انقلابی ترین، با ایمان ترین، اور پاکیزہ ترین بیٹیاں اور نوجوان لڑکیاں، تعلیم یافتہ طبقوں میں ہیں۔ وہ لڑکیاں جو زرق و برق اور پیسے و زیورات وغیرہ کی عاشق ہیں، لباس پہننے اور طرز زندگی میں مغربی روشوں کی تقلید کرتی ہیں، وہ زیادہ تر علم، اطلاعات اور کافی معلومات سے بے بہرہ ہیں۔ جس کے پاس علم ہو وہ اپنے طرزعمل کو کنٹرول کرسکتاہے خود کو حق، حقیقت اور اچھائی کے مطابق ڈھال سکتا ہے۔بنابریں علم کے میدان میں خواتین کے لئے تمام راستوں کو کھلا رہنا چاہئے۔ دیہات میں بھی لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنا چاہئے۔ والدین سے میری سفارش یہ ہے کہ اپنی بچیوں کو اسکول اور کالج جانے دیں۔تعیلم حاصل کرنے دیں۔ اگر ان کے اندر استعداد ہے اور وہ ابتدائی مراحل طے کرنے کے بعد اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہیں، یونیورسٹیوں میں جانا چاہیں، تو انھیں نہ روکیں۔ ہمارے اسلامی معاشرے میں انہیں تعلیم یافتہ ہونے دیں ۔( یہ خواتین کے بارے میں) دوسرا نقطہ نگاہ (ہے)۔
خواتین کے بارے میں اسلام کا تیسرا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ اسلام انھیں کنبے کا ایک رکن سمجھتا ہے۔ یہ سب سے اہم پہلو ہے۔ میرے عزیزو!اسلام میں مردوں کو یہ اجازت نہیں دی گئی ہے کہ عورت کے ساتھ زور زبردستی کرے اور اس پر اپنا حکم چلائے۔ گھرانے میں مرد کو محدود حقوق دیئے گئے ہیں جس میں کچھ حکمت اور مصلحت ہے۔ ان حقوق کی تشریح کی جائے تو سبھی اس کی تائید کریں گے۔ اسی طرح خواتین کے لئے بھی گھرانے میں کچھ حقوق معین کئے گئے ہیں ۔ اس میں بھی مصلحت ہے۔ عورت اور مرد میں سے ہر ایک کی اپنی فطرت، اخلاق، جذبات اور خواہشات ہیں۔ اگر وہ اپنی خصوصی فطرت اور عادات سے صحیح طور پر استفادہ کرے تو ان کی جوڑی کامل ہوگی اور گھرانے میں ہماہنگی اور سازگار حالات پیدا ہوں گے۔اگر مرد نے زیادتی کی تو اعتدال اور توازن ختم ہوجائے گا ۔ اسی طرح اگر عورت زیادتی کرے تو بھی توازن ختم ہوجائےگا۔ اسلام گھرانے کے اندر عورت اور مرد کو ایک دروازے کے دو پٹ کی مانند سمجھتا ہے ایک چہرے پر دو آنکھوں کی طرح قرار دیتا ہے، زندگی کی جنگ کے مورچے میں بیٹھے دو سپاہیوں کی طرح، ایک دکان کے دو حصے داروں کی طرح قرار دیتا ہے ۔ ان میں سے ہرایک اپنی فطرت میں، خصوصیات اور خصلت میں ، جسم و روح ، فکر اور سوچ ، خواہشات اور جذبات میں اپنی الگ خصوصیات کا مالک ہے ۔یہ دونوں اگر ان حدود اور اصولوں کے مطابق جنہیں اسلام نے معین کیا ہے، ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزاریں تو گھرانہ اور کنبہ پائیدار، مہربانیوں، برکتوں، اور فوائد سے مملو ہوگا۔
آج مغربی دنیا میں خاندان کی بنیادیں بہت کمزور ہوچکی ہیں۔ کنبے کے افراد بالخصوص خواتین علیحدگی کی مصیبتیں برداشت کرتی ہیں۔ اگر خدانخواستہ کنبے کا شیرازہ بکھر جائے تو عورت اور مرد دونوں سرگردان و پریشان رہتے ہیں ۔ لیکن اس بیچ عورت زیادہ تکلیفیں اٹھاتی ہے۔ آج مغربی دنیا میں عورتیں اس مصیبت میں مبتلا ہیں۔ کیونکہ مغرب میں خاندان آسانی سے منتشر ہوکے ختم ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات خود خواتین خاندان کا شیرازہ منتشر کرنے کا اقدام کرتی ہیں اور نتیجہ بھی بھگتی ہیں۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ خاندان میں ، جیسا کہ میں نے عرض کیا، خاندان میں یہ دو بنیادی عناصر، اپنی مخصوص خصوصیات کے ساتھ ہی، ایک دوسرے سے مکمل ہماہنگی کےساتھ رہتے ہیں۔ لیکن عورت جسمانی لحاظ سے زیادہ نازک ہے اور مرد زیادہ قوی اور طاقتور ہے ۔ اس صورتحال میں اگر قانون عورت کا دفاع نہ کرے تو ممکن ہے کہ مرد اس کےساتھ زیادتی کرے۔ لہذا قانون پر ان خواتین کی حمایت کے تعلق سے جو اپنے کنبے کے اندر زندگی گزارتی ہیں، بہت سنگین ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے ملک کے اندر خواتین کی اخلاقی اور قانونی حمایت پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینی چاہئے تاکہ مرد ان کے ساتھ زیادتی نہ کرسکیں۔ انقلاب کے بعد، خاندان کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے لئے شادی بیاہ سے متعلق قوانین میں کافی اصلاحات انجام پائی ہیں، لیکن کافی نہیں ہیں۔ بنابریں تمام ذمہ دار افراد سے، ان سے بھی جو پارلیمنٹ میں ہیں، ان سے بھی جو سرکاری محکموں میں ہیں، اور ان لوگوں سے بھی جو اہل منبر خطیب اور واعظ ہیں، اور خود خواتین سے بھی ، میری سفارش یہ ہے کہ اس سلسلے میں سنجیدگی کے ساتھ کوشش کریں۔یہ وہی بنیادی نقطہ ہے کہ اسلام نے اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے۔ مغرب میں اس اہم نکتے کی جانب سے غفلت برتی گئی اور وہاں آج خواتین بہت مظلوم ہیں۔بعض لوگ جو صرف ظاہر پر نظررکھتے ہیں، جب مغربی سماج پر نظرڈالتے ہيں، تو دیکھتے ہیں کہ خواتین بے خوف ہوکے معاشرے میں ظاہر ہوتی ہیں، تو سمجھتے ہیں کہ خاندان کے اندر بھی وہ اسی طرح نڈر اور بے خوف ہیں۔ یہ تصور غلط ہے مغرب میں خاندان کے اندر خواتین پربہت ظلم ہوتا ہے۔
اسلام عورتوں کے ساتھ اس ظلم کو روکتا ہے۔ اگر آج ہمارے معاشرے میں اس سلسلے میں کمی محسوس ہوتی ہے، تواس کو دور ہونا چاہئے اور خواتین کی قانون کے ذریعے پوری قوت سے حمایت ہونی چاہئے۔ لیکن سماج کے اندر، بہت سے شعبے اور امور ایسے ہیں جن میں خواتین زیادہ فعال ہیں۔ یہاں میں نرسوں کے دن کی مناسبت سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ وہ سنگین ذمہ داری ہے جس میں خواتین مردوں سے زیادہ سرگرم اور فعال ہیں ۔ یہ بہت اہم کام ہے اور اس کی قدر ومنزلت بہت بلند ہے۔
عزیزخواتین، خواہران گرامی! آج اسلام نے اپنے قوانین اور اصولوں کے ذریعے معاشرے کے کمزور طبقات ، عورت اور مرد، دیہی اور شہری سبھی علاقوں کے باشندوں، مختلف طبقات بالخصوص کمزور طبقات کی حمایت کی کوشش کررہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی نظام اور احکام اسلامی نے دنیا کے سبھی مظلومین کے دفاع کا تہیہ کررکھا ہے۔ اسی نقطہ نگاہ کی وجہ سے آج عالمی سامراج اسلامی جمہوری نظام کے خلاف سازش کررہا ہے ۔ بہت کم مہینے ایسے گزرتے ہیں، جب سامراج، اپنی پوری مشینری، کمپنیوں، زرخرید تھنک ٹینک، اداروں اور منصوبہ سازوں کے ذریعے، جو مستقل طور پر حریت پسند حکومتوں اوراقوام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں، اسلامی جمہوریہ کے نظام پر وارلگانے کی کوشش نہ کرتا ہو۔ ان میں بعض سازشیں حتی ہر ہفتے اور ہر روز ، مستقل طور پر کی جاتی ہیں۔ لیکن خدا کے فضل سے انہی اجتماعات ، اسی ہمدلی ، اسی یک جہتی اور اسی آگاہی کی برکتوں سے، جو الحمد للہ ہمارے ملک کے تمام افراد، عورتوں اور مردوں، سبھی میں پائی جاتی ہے، اسلامی جمہوریہ کے خلاف سامراجی کی تمام سازشیں اور کوششیں ناکام رہتی ہیں اور اس عظیم قوم سے مقابلے میں بارہا اور بارہا اس کی ناک زمین پر رگڑی گئی ہے ۔یقینا اس سلسلے میں، تمام دیگر عوامل سے زیادہ لوگوں کی آگاہی اور اہم سیاسی و سماجی میدانوں میں ان کی موجودگی زیادہ موثر رہی اور خاص طور پر خواتین کی موجودگی اور کردار کا اثر زیادہ رہا ہے۔
آج الحمد للہ ملک میں ہر جگہ، یونیورسٹی اور دینی تعلیم کا مرکز ہے اور نوجوان لڑکیاں،ان دونوں علمی مراکز کے مختلف شعبوں میں حصول علم میں مصروف ہیں۔جب تک ہمارے معاشرے میں معلومات اور محبت ومہربانی سے سرشار اور مستحکم عزم و ارادے کے مالک یہ نوجوان موجود ہیں، اس وقت تک سامراج، امریکا اور دوسرے چھوٹے بڑے دشمن اس قوم اور ملک کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ اپنی عزیز بہنوں اور بیٹیوں سے میری سفارش یہ ہے کہ اپنی اطلاعات اور معلومات بڑھائيں۔ مطالعہ، تحقیق، پڑھائی، روز مرہ کے مسائل پر توجہ اور دینی امور کی انجام دہی، وہ اہم اور مسلمہ فرائض ہیں جن پر عمل مردوں کی طرح خواتین کے لئے بھی ضروری ہے۔ اولاد کی پرورش کرکے انھیں صالح اور نیک آپ بناتی ہیں۔ اپنے شوہر کی مثبت کاموں اور میدانوں میں سرگرم ہونے کے لئے حوصلہ افزائی آپ کرتی ہیں۔ بہت سی خواتین ایسی ہیں کہ اپنے شوہر کو جنت کا مستحق بناتی ہیں اور اس کو دنیا و آخرت کی مشکلات سے نجات دلاتی ہیں۔ عورت کی محنت ، آگاہی، آور اس کا موقف اختیار کرنا، ایسی اہمیت رکھتا ہے۔
خدا وند عالم سے دعا ہے کہ وہ آپ سب پر اپنا لطف وکرم اور رحمتیں نازل فرمائے ۔ میں آپ تمام خواہران گرامی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ دور و نزدیک سے یہاں تشریف لائیں اور یہ پر شکوہ اور عظیم اجتماع تشکیل دیا اور ثابت کردیا کہ آذربائیجان کی خواتین مومن، فعال، محنتی، باہمت اور ضروری اطلاعات وآگاہی نیز پختہ عزم وارادے کی مالک ہیں۔ میں آپ سب کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔ آپ کے لئے خداوند عالم سے روز افزوں لطف و کرم کی دعا کرتاہوں اور آپ کو خدا کے حفظ و امان میں دیتا ہوں۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
1-تحریم 11
2- نہج البلاغہ:خط نمبر31 (امام حسن علیہ السلام سے وصیت)