تحریر: بشری علوی
حوزہ نیوز ایجنسی । زندگی کے ہر شعبے میں معمار ہوا کرتا ہے۔ کوئی بھی شعبہ معمار سے خالی نہیں ہے۔ اگر معمار نہ ہو تعمیر کا وجود ہی خطرے میں پڑتا ہے۔ یہ معمار ہی ہے جو ہر چیز کی تعمیر کر کے اوج کمال تک پہنچاتا ہے۔ معمار کے بھی اقسام ہیں۔ معمار جتنا اچھا ہوگا تعمیر بھی اتنی ہی اچھی ہوگی۔ اگر معمار اچھا نہ ہو تو عمارت کے گرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ کسی بھی عمارت کی تعمیر میں معار کی سوچ، ہدف اور اس تک پہچنے کی روش بہت اہم ہے، کیونکہ بدون ہدف کوئی معمار ایک عمارت کی تعمیر نہیں کر سکتا۔
عورت بھی معاشرہ سازی کا ایک مہم معمار ہے۔ جو ایک اچھے معاشرے کی تعمیر کرتی ہے۔ اگر اس تعمیر کے پیچھے کوئی سوچ اور ہدف نہ ہو تو معاشرے کی تمعیر بھی اچھی نہیں ہو گی۔ انسان کی اعلی سوچ اور ہدف، کے پشت پردہ تعلیم ہی ہوتی ہے۔ عورت جتنی تعلیم یافتہ ہوگی اتنا ہی معاشرے کی ترقی و تعمیر میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
معاشرے کی علمی ترقی کا تعلق بھی عورت کی گود ہی سے ہے۔ اگر ایک عورت اچھی تعلیم حاصل کرے، تب ہی اچھے بچے کی تربیت ممکن ہے۔ تعلیم حاصل کرنا مرد اور عورت پر لازم ہے۔ اسلام میں تعلیم کےلئے بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اسی لئے ہر ایک پر واجب قرار دیا کہ گہوارے سے لحد تک تعلیم حاصل کریں، کیونکہ ہر قسم کی اچھائی اور برائی کا تعلق عورت کی گود سے ہی جنم لیتی ہے۔ تمام اخلاقی اقدار، تعلیمات، کردار اور اسلاف کی روایات کے سوتے یہیں سے پھوٹتے ہیں۔
بقول کسی ادیب کے؛ "اگر عورت اچھی ہے تو ریاست بھی اچھی ہو گی۔ اگر وہ خراب ہے تور یاست بھی خراب ہوگی۔جس طرح ستون کو دیکھ کر کسی عمارت کی مضبوطی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے اسی طرح معاشرہ میں عورت کی حیثیت کو دیکھ کر قوم کی عظمت اور سربلندی کا اندازہ باآسانی کیا جا سکتا ہے ۔ معاشرہ کا یہ ستون اگر مضبوط ہے تو اس پر قوم کے امن وعافیت کی چھت ڈالی جاسکتی ہے۔"
عورت کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت اور تعمیر کردار کا کام اس طرح انجام دے کہ اسے زندگی کے ہر موڑ پر نیکی اور بدی کی تمیز رہے۔ یہ تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اسی لئے اسلام نے عورت کو مردوں کے شانہ بشانہ علم حاصل کرنے کو لازم قرار دیا۔
اسلام نے عورت کی اصل ماہیت کو آزادی ذریعے واپس پلٹایا۔ ورنہ قبل از اسلام پاؤں کے جوتی کے برابر بھی نہیں سمجھتے تھے۔ اسلام نے ایک باونڈری کے اندر رہتے ہوئے زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کا ضامن بننے کی عورت کو حق دیا۔ آج کے زمانے میں ایسی عورتیں دیکھنے کو ملتی ہے جنہوں نے اپنے بچوں کو ایسی تعلیم و تربیت دی کہ انہوں نے تاریخ میں ایک تحول لے آیا ۔ محمد علی جناح، علامہ مودودی، ڈاکٹر اسرار، علامہ اقبال، روح اللہ خمینی، سید علی خامنہ ائ، باقر صدر، شہیدہ بنت الہدیٰ جیسے شخصیات کی تربیت ایسے ماؤں نے کی جو تیعلیم و تربیت کے مبانی سے آشنا تھے۔
ان جیسے شخصیات کی تربیت وہی خواتین کر سکتی ہے جن کو تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہو۔ علمی معاشرے کی تعمیر میں معمار کے پاس مواد اولیہ تعلیم و تربیت ہی ہے۔ اسکے بغیر تعمیر ممکن نہیں ہے۔ آج بھی اگر چاہے کہ معاشرے کی علمی ترقی میں کوئی کردار ادا کریں تو چاہئیے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دیں لیکن تربیت کو تعلیم سے زیادہ اہمیت دیں۔ کیونکہ تربیت کے بغیر تعلیم دو دھاری تلوار کی مانند ہے جو کسی بچے کے ہاتھ میں تھما دیا ہو۔
یہاں ہم امام خمینی کے چند اقوال ذکر کرتے ہیں کہ امام خمینی نولسواں کے بارے میں کیا کہتے ہیں:
"خواتین کو سیاست میں مداخلت کا حق ہے۔ یہ ان کا فرض ہے۔ علماء کو بھی سیاست میں مداخلت کا حق ہے، یہ ان کا فرض ہے۔ اسلام ایک سیاسی مذہب ہے۔ حتیٰ کہ عبادت بھی سیاست ہے۔"
"دنیا میں خواتین کے کردار کی کچھ خصوصیات ہیں۔ کسی معاشرے کی اچھائی اور برائی اس معاشرے کی خواتین کی اچھی اور برائی سے آتی ہے۔ عورت ایک انوکھی ہستی ہے جو اپنی گود سے ایسے لوگوں کو معاشرے تک پہنچا سکتی ہے، جس کی برکت سے ایک معاشرہ بلکہ کئی معاشرے اعلیٰ انسانی اقدار کی طرف راغب ہوتے ہیں، اور اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے۔"
"اسلام کے مطابق اسلامی معاشرے کی تعمیر میں خواتین کا کلیدی کردار ہے، اور اسلام خواتین کو اس حد تک ترقی دیتا ہے کہ وہ معاشرے میں اپنی انسانی حیثیت کو دوبارہ حاصل کر سکے اور ایک شے سے بھی آگے بڑھ سکے، اور اس طرح اسلامی حکومت میں اپنی ذمہ داریاں سنبھال سکے۔"
"آج تمام طبقات اپنے اپنے معاملات میں، اپنے ملک کے معاملات میں، حکومت کے سیاسی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔ آج پوری قوم خواہ وہ عزت دار خواتین ہوں یا مردحضرات اپنی سرنوشت میں مداخلت کریں۔"
"اگر آپ کسی ایسی جگہ پر ہیں جہاں آپ کو چھوٹی بچیوں کو تعلیم دینی ہے، تو آپ کو چاہئیے کہ اچھی تعلیم دیں۔"
"میں امید کرتا ہوں کہ وہ برادران و خواہران جو مدرسہ شہید مطہری زیر تعلیم ہیں اور تبلیغ کر رہے ہیں، خدا ان پر رحم فرمائے، یہ دیکھیں کہ اس مدرسے کا نام ایک ایسے شہید کے نام پر رکھا گیا ہے جو اسلام کے لیے کارآمد تھے، اور یہ کہ ان کی تحریریں اور تقریریں استاد ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کا، اور یہ ہونا چاہیے۔ آپ برادران و خواہران جو اس مدرسے میں ہیں، اپنے شیڈول کو اس طرح ایڈجسٹ کریں کہ آپ کے درمیان چند مطہری میں سے ایک شہید مطہری بنے۔ آپ کا عزم اس مفہوم کا قائل ہونا ہے اور آپ کی توجہ خدا کی طرف اور آپ کے اعمال خدا تعالیٰ کے لئے خالص ہونا چاہئیے۔ آپ جس مدرسے میں ہیں اس میں پڑھنے کے بارے میں سنجیدہ رہیں۔"
"علم اور تقویٰ کسی کے لیے مخصوص نہیں، علم سب کا ہے، تقویٰ سب کا ہے۔ علم و تقویٰ کے لیے کوشش کرنا ہم سب کا فرض ہے۔"