۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
سویرا بتول

حوزہ/ عورت اور ویلنٹٸاٸن ڈے کی بجاٸے ہمیں حجاب ڈے اور حیإ ڈے منانا چاہیے۔خاتون کی تعلیم و تربیت پر غور و فکر کرنا چاہیے ناکہ آزادی کے نام پر عورت کو عریاں کردیا جائے یہ عورت سے اُسکی عظمت و وقار چھیننے کے مترادف ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،پاکستان کی نامور تجزیہ کار اور سوشل ایکٹوسٹ محترمہ سویرا بتول جنکا شمار معروف کالم نگاروں میں ہوتا ہے، آپ کا شمار ادبی اور علمی حلقوں میں نامور شخصيات میں ہوتا ہے ۔آپ پاسبان حرم کتاب کی مصنفہ بھی ہیں، آپ کے کالم پاکستان، ہندوستان اور ایران کی نیوز سائٹس کی زینت بنتے رہتے ہیں اور آپ بطور صحافی بہترین فراٸض انجام دے رہی ہیں۔حالیہ دنوں میں حوزہ نیوز ایجنسی سے "عصرِ حاضر کے چیلنجز اور مسلم خواتین کی ترقی" کے عنوان سے تفصیلی گفتگو کی۔ جسے ہم سوال و جواب کے شکل میں پیش کر رہے ہیں۔

حوزہ نیوز : ایک کامیاب اور آئیڈیل گھرانے میں خواتین کے کردار کو بیان کریں؟

سویر ابتول: بسم رب الشہد والصدیقین سب سے پہلے تو ہم حوزہ نیوز ایجنسی کے شکرگزار ہیں کہ ہمیں موقع فراہم کیا کہ ہم معاشرے میں خواتین کے کردار پر لب کشاٸی کرسکیں اور علماء اور مراجع کرام کے اس پلیٹ فارم پر اپنا نکتہ نظر پیش کر سکیں۔معاشرے کی تشکیلِ نو اور آٸیڈیل گھرانے میں خاتون کا اہم کلیدی کردار ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔اس کردار کی واضح جھلک ہمیں سیدة نسإ العالمین سلام علہیا کی سیرت میں نظر آتی ہے۔بلاشبہ ام الاٸمہ بضعتہ رسول قلب رسول ایک ایسی خاتون تھیں جنہوں نے ایک سادہ اور چھوٹے سے کمرے میں ایسی ہستیوں کی تربیت کی جن کا نور،ارضِ خاکی سے افلاک تک اور عالم ملک سے عالمِ مالکوت تک چمکا۔

سیرتِ جناب فاطمہ زہرا سلام علہیا کا مطالعہ کرکے آج کی خاتون ایک آٸیڈیل عاٸلی زندگی بسر کر سکتی ہیں۔

سیرتِ جناب فاطمہ زہرا سلام علہیا کا مطالعہ کرکے آج کی خاتون ایک آٸیڈیل عاٸلی زندگی بسر کر سکتی ہیں۔معاشرے میں خواتین کی اہمیت کے حوالے سے امام خمینی کہا کرتے تھے کہ معاشرےکی تشکیل نو میں مردوں سے زیادہ خواتین کا کردار ہے کیونکہ خواتین معاشرے کی تربیت کرتیں ہیں اوراسی لیے معاشرے میں ایک ماں کی خدمت ایک استاد سے بھی زیادہ اہم ہے۔

حوزہ نیوز: آپ کی نظر میں دنیا میں مسلمانوں کی ابتر صورتحال اور باہمی تضاد و انتشار کے اسباب کیا ہیں؟

سویر ابتول: مسلمانوں کی موجودہ ابتر صورتحال کے بہت سے اسباب ہیں جن پر بروقت ضرورت توجہ نہ دی گٸی جنکی وجہ سے آج ہم موجودہ دور کی گھمبیر مشکلات کا شکار ہیں۔ہماری نظر میں موجودہ زوال کی بڑی وجہ قرآن اور سیرت پیغمبرِ اسلام (ص) سے دوری ہے۔وہ عفو ودرگزر جو ہمیں سرکار کی سیرت سے ملا آج ہم نے یکسر فراموش کردیا جس سے ایک عدم برداشت کی فضا نے جنم لیا اور مسلمان پستی کا شکار ہوٸے۔ہم جب تک متحد تھے مضبوط تھے ،عدم استحکام نےہمیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا یہی وجہ ہے کہ آج اکثر مقامات پر مسلم امہ ہمیں ایک پلیٹ فارم پر نظر نہیں آتی اور مسلم ممالک باہمی تضاد اور انتشار کا شکار دیکھاٸی دیتے ہیں۔

حوزہ نیوز : ایک دینی خاتون معاشرہ کی ترقی اور اس کی پیشرفت میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟

سویرا بتول: ایک مذہبی خاتون جس کے بارے میں عموماً یہ گمان کیاجاتا ہے کہ وہ معاشرے سے جدا صنف ہے سراسر غلط ہے۔ہمارے سامنے جنابِ خدیجہ سلام علہیا کی مثال موجود ہےکہ کیسے عرب کے مرد معاشرے میں نہ صرف اپنا مقام بنایا بلکہ ایک بہترین Business woman کے طور پر سامنے آٸیں۔آج خاتون اپنی عفت،حیإ اور پاکدامنی برقرار رکھتے ہوٸے بہترین انداز میں اپنی معاشرتی ذمہ داریاں نبھا سکتیں ہیں۔حجاب اس سلسلے میں بہترین مددگار ثابت ہوتا ہے۔ہمیں یاد ہے جب ہم صحافت کے شعبے میں آٸے تو کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔مردوں کے معاشرے میں اپنا نام اور مقام بنانا کتنا دشوار لگتا تگا مگر ہم نے اپنی صلاحيتوں کے ذریعے اپنا لوہا منوایا اور اپنی عفت طہارت عصمت اور حجاب کو برقرار رکھتے ہوٸے معاشرے میں کام کیا اور آج الحمداللہ نہ صرف ایک کامیاب لکھاری کے طور پر سامنے آٸے بلکہ بہترین سوشل ایکٹوسٹ ہونے کا اعزاز بھی ملا۔

حوزہ نیوز: آج مغرب کی یلغار کو دیکھتے ہوئے آئے دن عورت کو "عورت ڈے، ویلنٹائن ڈے وغیرہ" کے نام پر Miss Use کیا جاتا ہے، اس پر آپ ایک مسلمان خاتون کو کیا پیغام دیں گی؟

سویرا بتول: نہ صرف ہم نے بلکہ پوری دنیا نے دیکھا کہ وہ مغرب جو حقوق نسواں کا نعرہ بلند کرتا ہے اور نام نہاد عورت کی آزادی کا خواہاں ہے کیسے وہاں می ٹو کے نعرے بلند ہوتے ہیں اور وہاں کی ہر دس میں سے آٹھ خواتین جنسی استحصال کا شکار نظر آتی ہیں ۔یہ مغربی ثقافتی یلغار کی نماٸندگی کرتا ہے۔عورت اور ویلنٹٸاٸن ڈے کی بجاٸے ہمیں حجاب ڈے اور حیإ ڈے منانا چاہیے۔خاتون کی تعلیم و تربیت پر غوروفکر کرنا چاہیے ناکہ آزادی کے نام پر عورت کو عریاں کردیا جاٸے یہ عورت سے اُسکی عظمت و وقار چھیننے کے مترادف ہے بقول اقبال
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اہل ہنر موت

حوزہ نیوز: مسلمان خاتون کا کسی ادارے میں کام کرنا یا سیاست میں آنا ملکی ترقی میں کیا تاثیر رکھتا ہے، بیان کریں۔

سویرا بتول : مسلمان خاتون کا سیاست یا کسی ادارے میں کام کرنا ایک خوش آٸند اقدام ہے اور ہم اس کی بھرپور حمایت کرتے ہیں بشرطیکہ خاتون اپنے وقار عظمت اورعفت کو برقرار رکھتے ہوٸے معاشرے میں کردار اداکرے۔خاتون کی پہلی ترجیحات میں اُس کی گھریلو ذمہ داریاں ہیں اگر وہ اُس سے بہترین طریقے سے عہدہ براہوجاتی ہیں تو ضرور ایک خاتون کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

حوزہ نیوز : پاکستان کے تعلیمی نظام میں تعلیم و تربیت کا عنصر اور اس میں اسلام نے جو عورت کو مقام دیا ہے، اسے آپ کس تناظر میں دیکھتی ہیں؟

سویرا بتول : اسلام میں خاتون کے مقام کی نفی نہیں کی جاسکتی۔یہاں تک کہ خالق کاٸنات نے پوری سورة نسإ خواتین کے حقوق کے لیے نازل کی۔عرب معاشرے میں خواتین کا استحصال عام تھا اسلام نےعورت کو عزت و تکریم عطا کی،خاتون کو اُسکے مقام سے آشنا کیا اور اسلامی معاشرے میں مردوں سے زیادہ خواتین کو حقوق خاص ہیں جن سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔اسی طرح پاکستانی تعلیمی نظام میں خواتین کی ایک بڑی تعداد تعلیمی نظام کا حصہ ہیں اور بہترین اساتذہ کا کردار اداکرتے ہوٸے اپنی معاشرتی ذمہ داریاں نبھارہی ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .