۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
انٹرویو

حوزہ/ آمنہ بنت الہدی نے اپنی ہنرمندی سےعرب دنیا میں جس تیزی سے کام کیا شاید حوزہ علمیہ یہ کام کئی سالوں میں بھی نہ کرسکتا کیونکہ حوزہ علمیہ ایک محدودیت رکھتا ہے صرف مذہبی گھرانوں ہی سے وابستہ ہے اور یہ انہی مذہبی گھرانوں پر کام کرسکتا ہے مگر کہانیوں کے ذریعے ایک ادبی اور ثقافتی انداز میں جو کام آمنہ بنت الہدی نے کیا  وہ ایک بہترین اور جامع کام تھا کہ آپ ان کہانیوں کے ذریعے لوگوں  کے گھروں میں داخل ہوگئیں۔ چاہے وہ مذہبی فکر نہ بھی رکھتے ہو مگر ان کے کہانی پڑھنے کے ذوق سے خودبخود ان میں ایک تحول در آیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،محترمہ طاہرہ فاضلی پاکستان کے شہر کراچی میں مقیم معروف عالمہ، خطیبہ اور معلمہ ہیں۔ آپ نے اپنی حوزوی تعلیم مشہد مقدس کے حوزہ علمیہ مکتب نرجس سے حاصل کی۔آپ پچھلی دو دہائیوں سے کراچی میں قائم حوزہ علمیہ جامعۃ الزہراءؑ میں طالبات کو دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ان کی اخلاقی اور فکری تربیت کی اہم ذمےداری بھی بخوبی انجام دے رہی ہیں۔ہم نے شہیدہ بنت الہدی کی شخصیت،کردار اور خدمات کے سلسلے میں ان کو اظہار خیال کرنے کی زحمت دی اور انہوں نے اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر ہمیں شہیدہ کے بارے میں اپنے مافی الضمیر سے آگاہ کیا، جس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں۔

سوال: شہیدہ آمنہ بنت الہدی کا مختصر تعارف پیش کیجئے؟

خانم طاہرہ فاضلی: شہیدہ آمنہ بنت الہدی کا تعارف اگر ہم کرناچاہیں تو شاید کم ہی ایسے خاندان ہوں گے جو ان کے گھرانے جیسے باعظمت علمی گھرانے سے منسلک ہوں۔ کہ ان کا خاندانی پس منظر اگر دیکھیں تو یہ امام موسی کاظم علیہ السلام کی ذریت ہیں۔ امام موسی ابن جعفر کے بعد سے لے کر سید باقر الصدرؒ تک ان کے گھرانے میں تمام ہی مجتہدین ہیں۔ اس خاندان کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ اپنے ننھیال اور ددھیال دونوں ہی طرف سے علماء و مجتہدین کا خاندان ہے۔ آمنہ بنت الہدی کا ننھیال خاندان آل یاسین ہے ،جو کاظمین کے بہت بڑے علمی گھرانوں میں شمار ہوتا ہے اور ددھیال کی طرف سے آل صدر ، جو کہ عراق کے عظیم علمی گھرانے میں سے ہے۔

آپ کی والدہ مکرمہ جناب عبدالحسین آل یاسین کی دختر گرامی اور آیت اللہ محمد رضا آل یاسین کی بہن ہیں۔ اور آپ کے والد گرامی سید حیدر صدر ہیں خود مجتہدین عراق میں سے ہیں ۔ آپ کے دادا بھی مجتہد زمان تھے۔ اور آپ کے دونوں بھائی باقر الصدر اور اسماعیل صدر بھی مشہور مجتہدین میں سے ہیں۔

جناب آمنہ بنت الہدی خود بھی ایک مجتہدہ اور فقہ میں درجہ اجتہاد پر فائز تھیں۔ آپ نے علوم اسلامی کو جن اساتذہ سے حاصل کیاان میں یہ تین علماء کے نام مشہور ہیں ایک شیخ ظہیر الحسون، سید اسماعیل صدر اور سید باقر الصدرؒ۔

سوال:آمنہ بنت الہدی کی شخصیت کو متعارف کرنے کی ضرورت اور اب تک ہمارے معاشرے کی اس عظیم خاتون کے بارے میں ناآشنائی کی بنیادی وجہ کیا ہے؟

خانم طاہرہ فاضلی: ہمارے معاشرے کی خواتین کا ایک سنجیدہ مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس قدر جزئیاتِ زندگی میں اسیر ہیں کہ بالاتر افق پر معاشرتی موضوعات پر سوچنے والوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں مطالعے کا رجحان، شخصیت شناسی، معلومات عامہ کلی طور پر عنقا ہے۔ نہ صرف آمنہ بنت الہدیؒ کے حوالے سے ؛بلکہ مجموعی طور پر بھی۔۔۔ اور اس کی ایک بڑی واضح وجہ یہی ہے کہ مطالعے کے رجحان کا نہ ہونا، دینی مسائل میں زیادہ دلچسپی نہ لینا، اور اگر کچھ دلچسپی ہے بھی تو وہ صرف عزاداری کی حد تک۔ خود سے مطالعہ کرنا ، تحقیق کرنا۔۔ یعنی کتب بینی نظر نہیں آتی معاشرے میں۔۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری بہت سی اہم شخصیات جو ہمارے معاشرے کے مسائل کا نسخہ علاج ہیں، ہم ان سے محروم ہیں اور نتیجتاً نہ صرف آمنہ بنت الہدی؛ بلکہ اور بھی ایسی کئی عظیم شخصیات ہیں جنہیں جاننے یا نہ جاننے سے ہمارے معاشرے کے مردو زن کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے۔۔ یہاں ایک اہم وجہ شعور کا فقدان بھی ہے۔

الحمدللہ انقلاب ایران کے بعد سے کافی حد تک فضا میں تبدیلی آئی ہے لیکن اب بھی یہ تبدیلی ناکافی ہے۔ کیونکہ ان شخصیات کو صرف تعارف کی حد تک جان لینے سے ہمارے مسائل حل نہیں ہونگے۔ بلکہ ہمیں یہ بھی جاننا ہوگا کہ انہوں نے اپنے معاشرے کو کیسے پہچانا ان کے درد کی کیسے دوا کی ؟کیسے علاج دریافت کیا اور کیا نسخہ آزمایا ا؟گر اس فارمولے پر ہم آجائیں تب ہی ہم اپنے معاشرے کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

سوال:اس وقت کے ماحول میں آمنہ بنت الہدیؒ کے کردار اور خدمات کی اہمیت کیا تھی اور عراقی معاشرے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟

خانم طاہرہ فاضلی: آمنہ بنت الہدی ایک معاشرہ شناس خاتون تھیں۔ معاشرہ شناسی سے مراد یہ ہے کہ ایک تو اپنے معاشرے کی ضرورتوں کا ادراک اور انہیں پہچاننا؛ دوسرا ان ضرورتوں کے مطابق کام کا انتخاب کرنا اور وہ کام اپنی توانائی کے مطابق بھی ہو۔آمنہ بنت الہدی نے اپنے معاشرے کا مشاہدہ کرکے وہ بہترین اقدامات انجام دیے جس کے نتیجے میں عراقی معاشرے میں بہترین اثرات نمایاں ہوئے۔ جیسے آپ نے اس دور کی ایک اہم ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے دینی تعلیم کے ساتھ دنیوی تعلیم کے حصول کے لیے جو کوششیں کی، الزہراء نام سے عراق کے مختلف شہروں میں ایسے اسکولز قائم کیے جہاں دنیوی تعلیم دینی نگاہ کے ساتھ دی جاتی اور حوزوی تعلیم بھی نصاب کا حصہ تھی۔ اس کے علاوہ آپ کی ادبی خدمات جو درحقیقت دینی خدمات ہی ہیں جن میں آپکی تحریر کردہ کہانیاں اور نظمیں شامل ہیں جن کے ذریعے آپ نے صدام کی پابندیوں میں رہتے ہوئے معاشرے کی اخلاقی اور فکری تربیت سرانجام دی۔ اس کے علاوہ آپ حج کے کاروان میں بھی شامل ہوکر فقہی مسائل کے ساتھ سیاسی مسائل پر بھی روشنی ڈالتیں۔ آپ کی ان تمام خدمات کے اثرات عراقی معاشرے میں نہایت عمیق اور دیرپا ثابت ہوئے۔ صدام کا انہیں شہید کرنے کا اقدام ہی بتا رہا ہے کہ بنت الہدی کی تاثیرات تھیں عراقی معاشرے میں۔ بنت الہدی کے قائم کیے گئے تعلیمی اداروں سے اور پھر آپ کی کہانیوں سے ایک عمیق ثقافتی تحول عراقی معاشرے میں اثر پذیر ہوا۔ ان تحولات کو دیکھتے ہوئے جب صدام نے انہیں روکنا چاہا تو ناکام رہا وہ انہیں ایک جگہ سے روکتا وہ دوسرے میدان میں محاذ تیار کرلیتیں۔ صدام نے انہیں روکنے کے لیے اسکولز حکومتی قبضے میں لے لیے تو بنت الہدی نے ثقافتی و ادبی میدان کو اپنا محاذ بنالیا اور کہانیاں لکھیں۔ یہ بنت الہدی کی کامیابی اور صدام کی ناتوانی اور شکست کی علامت ہے کہ وہ انہیں شہید کرنے پر مجبور ہوگیا۔

سوال: بنت الہدی اور دیگر اسلامی خواتین کو آئیڈیل کے طور پر پیش کرنے کے لیے کن اقدامات کو انجام دینا ہوگا؟

خانم طاہرہ فاضلی: شہیدہ بنت الہدی اور ان جیسی دیگر عظیم شخصیات کو بطور آئیڈیل پیش کرنے سے قبل ان کی روش کی ترویج کرنی ہوگی۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ آمنہ بنت الہدی کو پہلے معاشرے کے فہیم افراد سمجھ لیں پھر اپنے معاشرے کی کمی بیشی کو دیکھیں معاشرے کے مسائل کا ادراک کریں معاشرے کی ظرفیت کو دیکھیں کہ ہمارے پاس کتنی توانائیاں ہیں جنہیں بروئےکار لایا جاسکتا ہے۔یہاں ایک بہترین کام ان تمام توانائیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے جس کے بعد اگلا مرحلہ ہے ان شخصیات کو معاشرے کے سامنے لانا۔۔۔ کیونکہ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ اول اول صرف شخصیات کا تعارف دے دینے سے عوام یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ایک محترمہ ایک علمی گھرانے کی مومنہ خاتون تھیں جنہیں کچھ لوگ جو مذہبی ہونگے وہ پسند کرینگے باقی توجہ بھی نہیں دینگے۔۔ لیکن اگر یہ کرنے کی بجائے ان کی عملی روش کو اپنا لیا جائے اور معاشرے کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیں۔۔ معاشرے کی نبض اپنے ہاتھ میں لے لیں اور ان کی شخصیت سے عملی فارمولا اخذ کریں تب ہی ہم انہیں اپنے معاشرے میں مکمل اور بجا طور پر روشناس کرواسکتے ہیں۔ چونکہ مسلمان معاشرے میں حالات ہر خطے میں تقریبا ایک جیسے ہی ہیں ایک جیسے ہی مسائل ہیں مشکلات بھی مشابہ ہیں تو وہی مشابہ روش یہاں بھی کارآمد ہوگی ان شاء اللہ۔

سوال:آمنہ بنت الہدی کے کچھ نمایاں اوصاف اور خصوصیات جو ہمارے لیے نمونہ عمل ہو بیان کریں؟۔

خانم طاہرہ فاضلی: آمنہ بنت الہدی کی اگر عملی روش کو دیکھیں تو ان میں سے ایک زمانہ شناسی ہے یہاں ہم ان کی عملی زندگی کو نمونہ عمل بناتے ہوئے جو ایک کام کرسکتے ہیں وہ ہے اپنے روایتی کلاسیکی اندازسے ہٹ کر نئے تجربات کرنا جو زمانے کی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق ہو۔ چار دیواری سے نکل کر کچھ ایسا کریں کہ عمل کو وسعت حاصل ہو۔ جیسے بنت الہدی نے کیا۔ آپ نے دینی مجلوں میں جہاں علمی مضامین شائع ہوتے تھے، کہانیاں لکھیں۔۔ یہ ایک نئی روش تھی ایک بہترین ہنر مندی تھی جس کے ذریعے آپ نے دینی مفاہیم کو لوگوں کے اذہان مین منتقل کیا۔ کہانی نویسی کی صنف کا مثبت استعمال کرتے ہوئے آپ نےدین پر ہونے والے اعتراضات، عقیدتی اشکالات اور رسم و رواج جیسے موضوعات کو اپنی کہانیوں کے اندر سمو دیا اور ادب کے ذریعے تربیتی روش اختیار کی۔ جبکہ آپ کا تعلق ایک دینی مجتہدین عظام کے گھرانے سے ہے ایسی خاتون سے لوگ صرف یہی توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ صرف دینی مسائل پر ہی مضامین لکھ سکتی ہیں۔۔ دائرہ بہت محدود کردیتے ہیں۔

لیکن یہاں آمنہ بنت الہدی نے اپنے دائرے کو وسعت دی اور ادبی و ثقافتی میدان میں آکر محاذ تیار کیا۔ اپنی علمی توانائی کو انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیت کے سپرد کردیااور کہانی نویسی و نظم گوئی کے انداز میں ایسا بہترین ثقافتی عمل انجام دیا کہ صرف عراق ہی نہیں کل عرب دنیا میں عربی زبان و ادب میں آمنہ صدرؒ کی کہانیوں نے شہرت پائی ۔اپنا ایک اعلی ادبی مقام بنایا جو اس سے پہلے کسی کا نہیں تھا۔۔ کسی نے اس انداز میں کہانیاں نہیں لکھی تھیں جو روش آمنہ صدر نے اپنائی۔ یہ روایتی اور کلاسیکی انداز سے ہٹ کر ایک بہترین کام تھا جو آمنہ بنت الہدی نے انجام دیا۔ اس زمانے میں چونکہ کہانیاں ہی انٹرٹیٹمنٹ کا بہترین ذریعہ تھیں تو وہ بھی اسی میڈیم کو اپناتے ہوئے اپنے ہدف کولے کر آگےبڑھیں اور ادبی دنیا میں ایک انقلاب لے آئیں۔

اب اگر ہم اسی روش کو دیکھیں تو آج ہمارے زمانے میں لوگوں کا پسندیدہ میڈیم ڈرامہ یا فلم اور سوشل میڈیا ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں جب ہم اس میڈیم کی بات کرتے ہیں تو ایک منفی تصویر سامنے آتی ہے کیونکہ یہ سانچہ اب تک بری چیزوں کے لیے ہی استعمال ہوا ہے جبکہ ازخود سانچہ خراب نہیں ہے اس میں ڈھالا جانے والا مواد خراب ہے۔ اب یہاں ہم آمنہ بنت الہدی کی روش کو اپناتے ہوئے یہ کرسکتے ہیں کہ سانچہ اپنے ہاتھ میں لے لیں اور اسکا مواد تبدیل کردیں جیسے انہوں ادبی میدان میں کہانیوں اور شاعری کے ساتھ کیا۔۔ اب چاہے اسٹیج ڈرامہ ہو یا بچوں کی انیمیشن کارٹون فلمیں ہو یا ٹی وی سیریز یہ تمام سانچے استعمال کریں اس میں اپنا مواد پیش کریں اور پھر نتیجہ دیکھیں تو بالا ترین تحول کم ترین مدت میں۔ یہ ایک بہترین نسخہ ہے فوری نتیجہ اخذ کرنے کے لیے۔

آمنہ بنت الہدی نے اپنی ہنرمندی سےعرب دنیا میں جس تیزی سے کام کیا شاید حوزہ علمیہ یہ کام کئی سالوں میں بھی نہ کرسکتا کیونکہ حوزہ علمیہ ایک محدودیت رکھتا ہے صرف مذہبی گھرانوں ہی سے وابستہ ہے اور یہ انہی مذہبی گھرانوں پر کام کرسکتا ہے مگر کہانیوں کے ذریعے ایک ادبی اور ثقافتی انداز میں جو کام آمنہ بنت الہدی نے کیا وہ ایک بہترین اور جامع کام تھا کہ آپ ان کہانیوں کے ذریعے لوگوں کے گھروں میں داخل ہوگئیں۔ چاہے وہ مذہبی فکر نہ بھی رکھتے ہو مگر ان کے کہانی پڑھنے کے ذوق سے خودبخود ان میں ایک تحول در آیا۔

سوال:بنت الہدی کی سیرت سے ہم درس لیتے ہوئے دور حاضر میں کیا عملی روش اختیار کرسکتے ہیں؟

خانم طاہرہ فاضلی: سب سے پہلے ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں کہ ہمارے معاشرے کے کیا تقاضے ہیں ؟کیا ضروریات ہیں؟ اور ہم اس کے لیے کتنی توانائی صرف کرسکتے ہیں؟ کونسی روش اپنا سکتے ہیں؟

جو ہمارے کلاسیکی یا روایتی انداز ہیں انہیں گرچہ بالکل ترک نہ کریں مگر نئی روش کی طرف ضرور توجہ دیں۔ نوجوان نسل کے رجحانات کو سمجھیں اور ان پر کام کریں۔ جیسے آج کل سوشل میڈیا کا رجحان عروج پر ہے ہم اپنے بچوں کو اس سے دور نہیں کرسکتے لیکن اگر ہم چاہیں تو اس سوشل میڈیا کی آزادی کو استعمال کرتے ہوئے اس پر اپنا کام کرسکتے ہیں اس سوشل میڈیا پر رہتے ہوئے ایسا مواد تیار کیا جائے جس میں کشش بھی ہو اور نوجوان نسل کی اصلاح و رہنمائی اور تربیت بھی ہوجائے۔ اگر آج آمنہ بنت الہدیؒ زندہ ہوتیں تو وہ یقینا سوشل میڈیا ہی پر بھرپور انداز میں کام کرتیں اور اپنی دور اندیشی و ہنر مندی کے جوہر اسی میڈیم میں دکھا کر ایک بہترین کام پیش کرتیں۔ ہمیں ان کی شخصیت سے اس سِرے کو پکڑنا چاہیے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .