۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
شهیده بنت الهدی

حوزہ/ تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور کے فرعون و يزيد کے مقابلے میں شروع سے ہی ایک حسین رہا ہے، البتہ اگر ہم غور و فکر کریں تو ہر دور کے حسین کے ساتھ، حسینی مشن و اہداف کو بچانے اور رہتی دنیا تک پہنچانے کے لیے ایک با کردار خاتون کا ہاتھ ضرور ہے۔

تحریر و ترتیب: گل چہرہ جوادی

حوزہ نیوز ایجنسیتاریخ گواہ ہے کہ ہر دور کے فرعون و يزيد کے مقابلے میں شروع سے ہی ایک حسین رہا ہے، البتہ اگر ہم غور و فکر کریں تو ہر دور کے حسین کے ساتھ، حسینی مشن و اہداف کو بچانے اور رہتی دنیا تک پہنچانے کے لیے ایک با کردار خاتون کا ہاتھ ضرور ہے۔ انہی زینبی کردار کی حامل مجاہدہ خواتین میں سے ایک شجاع، بہادر، علم و معرفت سے آشنا ایک خاتون زینبی عزم و سیرت کا پرتو شہیدہ بنت الہدیٰؒ ہے۔ آپ کی شجاعت اور بہادری کے لیے اتنا ہی کافی ہیں کہ آپ کا دشمن اس حد تک خوف زدہ تھا کہ جب آپ کو شہید کرنے کے بعد ان سے پوچھا گیا تو صدام نے کہا کہ میں یزید کی غلطی کو دہرا نا نہیں چاہتا تھا اس لئے ان کو بھی شہید کیا۔ اس بات سے یہ انداز ہوتا ہے کہ دشمن آپ سے کس حد تک خوف زدہ تھا۔اسی طرح جب سید باقر صدرؒ کو دشمن نے گرفتار کر لیا تو آپ حرم امام علی علیہ تشریف لے گئی اور لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں واپس نہیں جاؤں گی، میں تمہارے ساتھ زینب کی طرح رہنا چاہتی ہوں جو اپنے بھائی حسین ؑ کے ساتھ تھی۔‘‘ جب تک سید محمد باقرصدرؒ کو لے جانے والی گاڑی کھڑی تھی وہ اپنے بھائی کو ساتھ لے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی لیکن جب گاڑی چلی تو اس نے گرجدار تکبیروں سے دشمنوں کے دلوں کو ہلا کر رکھ دیا اور آپ نے اپنےان آیات کی تلاوت کی:
إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَکَرُوا اللَّهَ کَثِیرًا وَانتَصَرُوا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا وَسَیَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنقَلَبٍ یَنقَلِبُونَ » (شعراء: 227) و « قالَ مُوسى‏ لِقَوْمِهِ اسْتَعینُوا بِاللَّهِ وَ اصْبِرُوا إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ یُورِثُها مَنْ یَشاءُ مِنْ عِبادِهِ وَ الْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقینَ » (اعراف: 128) اور اپنی گفتگو ختم کی۔

سوانح حیات:

سیدہ آمنہ صدر المعروف بنت الہدی صدرؒ، شہید اسلام سید محمد باقر الصدرؒ کی بہن تھیں، جو 1357ھ،1937ءکو عراق کے شہر کاظمین میں پیدا ہوئیں، انہوں نے ابتدائی تعلیم کے ساتھ ساتھ نحو، منطق، فقہ اور اصول وغیرہ تعلیم اپنے گھر پر ہی حاصل کی۔ سید محمد باقر الصدرؒ، شیخ زہیر الحسن اور ام علی الحسن ان کے استاد شمار ہوتے ہیں۔
بنت الہدیٰ، عراق کی ایک خاتون مصنفہ اور انتہائی فعال ثقافتی سیاسی کارکن تھیں۔ ان کی ثقافتی اور مذہبی سرگرمیوں میں نجف اور کاظمین میں الزہرا اسکولز کی نگرانی، گھروں میں اجلاسوں کا انعقاد، الاضوا میگزین میں مضامین، افسانے اور مذہبی نظمیں لکھنا شامل ہیں۔
بنت الہدی نے شاعری اور افسانے جیسے ادبی اوزار کی مدد سے خواتین کو ان کی مذہبی شناخت اور حیثیت سے آگاہ کرنے اور "خاندانی نظام " کو "مذہبی آئیڈیل" کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔
ان کے مضامین میں ان مظالم کی طرف اشارے پائے جاتے ہیں جو مردوں کی طرف سے شادی کے بعدعورتوں پر ڈھائے جاتے ہیں اور اس طرح کی زیادتیوں اور جبر وتشدد کو اسلام سے منسوب کیا جاتا ہے۔
ان کا خیال ہے کہ اس طرح کے رویے، خواتین کے حقوق کی پامالی ہے جو اسلام کی روح اور اس کی ’’ اعلیٰ تعلیمات‘‘ کے منافی ہیں۔
بنت الہدیٰ بعض مردوں کے آمرانہ رویے پر کڑی تنقید کرتی ہیں جو اپنی بیٹیوں اور بیویوں کی قسمت کا فیصلہ ان سے مشورہ کیے بغیر،اپنی خواہشات کے مطابق کرنا چاہتے ہیں۔ وہ خواتین کو اس بات کی یاد دہانی کراتی ہیں کہ اسلام ،ظلم کو مٹانے اور ظالموں کو سزا دینے کے لیے آیاہے، مظلوم نسل پیدا کرنے کے لیے نہیں۔ بنت الہدیٰ ا کا خیال ہے کہ اسلام نے مشرق اور مغرب کے دیگر نسلی گروہوں اور اقوام کے برعکس، جو خواتین کو ذلیل سمجھتے تھے، مردوں کو عورتوں کے برابر رقرار دیا اور ان کے سماجی حقوق کو مدنظر رکھا۔
بنت الہدی الصدر نے اپنے مضامین میں "اسلامی ممالک پر مغرب کی ثقافتی یلغار" کا ذکر کرتے ہوئے مغربی تہذیب کے مادی فوائد کے بارے میں بات کی اور ساتھ ہی اس حملے کے خلاف مذہبی شناخت کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے جو کہانیاں لکھی ہیں ان میں انہوں نے خواتین میں پائی جانے والی بعض غلط عادات کی نشاندہی کی اور انہیں ہنرکی زبان سے اصلاح کرنے کی کوشش کی ہے۔
فکری اور ثقافتی سرگرمیاں بنت الہدیٰؒ نے بلاشبہ ایک فعال اور متحرک زندگی گزاری ہے۔ ان کی زندگی کا محور اسلام اور اس کی اعلیٰ تعلیمات کا پرچار تھا۔ان کے سینے میں بھی اپنے بھائی کی طرح ایک ہمدرد دل دھڑکتا تھا اور ان کے ذہن و روح میں احساس ذمہ داری کا ایک طوفان برپا تھا۔ اسی لیے صنف نازک سے تعلق رکھنے کے باوجود انتہائی کٹھن مراحل میں بھی مردوں سے بڑھ کر ثابت قدمی دکھائی اور مختلف میدانوں میں اپنی خدمت اور صلاحیت کے انمٹ نقوش چھوڑے۔ان کی فکری اور ثقافتی سرگرمیوں میں بچیوں کی کلاسوں سے لے کر سکولوں کے انتظامات تک شامل ہیں۔
مختلف کلاسز اور کانفرنسوں کے ذریعے وہ ہمیشہ لڑکیوں کی تربیت پر توجہ دیتی تھیں ۔ خصوصی طور پر نوجوان لڑکیوں کوعبادت کی ترغیب دیتی تھیں جوبلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہوں اوران میں حجاب کاشعور اجاگر اور دینی جذبہ بیدار کرتی تھیں۔
انہوں نے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز 1336 میں کیا، لیکن ان کے تعلیمی اور تبلیغی جہادکا سلسلہ مختلف شکلوں میں جاری رہا۔ 1344 میں انہوں نے’’بنت الہدٰیٰ ‘‘ کے قلمی نام سے مذہبی مضامین لکھنا شروع کیا۔ اس طرح عراقی خواتین کی رہنمائی اور انہیں اسلام سے روشناس کرانے کے لیے تعلیم اور قلم کے ہتھیار سے ان کی ایک نئی کوشش کا آغاز ہوا اور وہ عراق میں خواتین کے لیے اسلامی تعلیم کی علامت بن گئی۔

گھریلو نشستیں اور الاضواء رسالہ:

بنت الہدی اپنے ہاں بھی اور دیگر اعز و احباب کے گھروں میں بھی دینی تبلیغ کے لیے مختلف مناسبتوں پر مجالس کا اہتمام کیا کرتی تھیں اور الاضوا میگزین میں عراقی اور عرب لڑکیوں کے لیے لکھتی بھی تھیں۔ اس میگزین میں ان کی تحریریں دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے اور مغربی ماڈلز کو رد کرنے والی خواتین کے بارے میں ہوتی تھیں۔

الزہرا سکولز کی نگرانی:

وہ بغداد، نجف، کاظمین، بصرہ، دیوانیہ اور حلہ میں الزہرہ گرلز اسکولوں کے بانیوں میں سے ایک تھیں۔ نجف اور کاظمین کے اسکولوں کی نگرانی وہ خود کرتی تھیں اور ہفتے کے مختلف دنوں میں دونوں شہروں کے دورے کرتی تھیں۔ ان اسکولوں میں رائج نصاب کے علاوہ لڑکیوں کو اسلامی تعلیم سے روشناس کرانے کے لیے عقائد بھی پڑھائے جاتے تھے۔

کہانی اور شاعری:

بنت الہدی نے اپنے افکار کو وسیع سطح پر پھیلانے کی غرض سے کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ بہت سے عرب اور اسلامی ممالک کی خواتین، آپ کی کتابوں کے مطالعے کے ذریعے اسلام کے حقیقی نظریات سے روشناس ہوئیں۔
ان کی کہانیوں کے موضوعات میں خاندانی مسائل، اسلامی عمل ، کام کرنے والی خواتین کی مشکلات، تضحیک، عورتوں کی شکل کو داغدار کرنا، خوبصورتی، میک اپ، حجاب وغیرہ شامل تھے۔ انہوں نے اسی مقصد کے لیے شاعری بھی کی۔ ان کی بیشتر نظموں میں مذہبی رنگ نمایاں ہے۔
انمول کتابیں بنت الہدی کے رسا قلم سے بہت سی شاہکار کتابیں منصہ شہود پر آئی ہیں، جن میں سے ایک کتاب کا اردو ترجمہ بھی "ہار جیت" کے عنوان سے چھپ چکا ہے۔ ان کتب میں سے بعض کے نام یہ ہیں:
"سچ کی تلاش میں"، "کھویا ہوا گھر"، "ہسپتال کا دورہ"،"دو عورتیں اور ایک مرد"، "مسلم خاتون کا کردار"، "ہارجیت"، "مشکل اور کال کرنا"، "مکہ کی بلندیوں پر: یادداشتیں اور مضامین"، نبی اکرم کے ہمراہ رہنے والی عورت "، "میری خواہش ہے۔

سیاسی سرگرمیاں اور شہادت:

بنت الہدیؒ،عراق کی سرزمین پر خواتین کی اسلامی تحریک کی علمبردار تھیں۔ وہ اپنے بھائی سید محمد باقر صدرؒ کے نقش قدم پر چل رہی تھی۔ انہوں نے اپنے دورکے اہم سیاسی واقعات میں اپنا بے مثال کردار پیش کیا اور ایک متحرک انسان کے روپ میں شہادت کو گلے لگایا۔
امام خمینیؒ کی قیادت میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، سید باقر صدرؒ اور ان کی بہن بنت الہدی ؒکو اسلامی انقلاب کے سخت حامی ہونے کی وجہ سے عراق کی ظالم اور خونخوار حکومت نے تنگ کرنا شروع کیا۔ 8 جون 1979 کو سید محمد باقر صدر ؒ، عراق کے مستبد اور آمر حکمران صدام حسین کے حکم سے گرفتار کر لیے گئے۔ بھائی کی گرفتاری کے موقع پر سیدہ بنت الہدی بھی گھر کے قریب مرکزی سڑک پر آگئیں، کیونکہ انہوں نے بھی اپنے بھائی کے ساتھ جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ لیکن بعثی حکام نے اس کی اجازت نہیں دی ، تو وہ حضرت امیر المؤمنین ؑ کے حرم میں چلی گئیں۔ رات کا وقت تھا، انہوں نے وہاں زائرین کے ہجوم میں ایک خطبہ دیا۔ اگلے دن سے وہ ہر روز حرم جا کر تقریر کرتی تھیں۔ بالآخر بنت الہدی کی کوشش سے ان کے بھائی کو جیل سے رہا کر دیا گیا۔
8 اپریل 1980 کو عراق کی بعثی حکومت نے شہید باقر الصدرؒ اور بنت الہدی ؒ دونوں کو گرفتار کر لیا اور صدام کے حکم سے دونوں بہن بھائیوں کو گرفتاری کے تین دن بعد (یعنی: 10 اپریل 1980) تشدد کے بعدشہید کیا گیا۔

نتیجہ:

اس عظیم المرتبت خاتوں ،آمنہ بنت الہدیٰ صدر ؒ کی زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان خواتین میں سے نہیں تھیں جو مشکل حالات سے خوفزدہ ہوجاتی ہیں،بلکہ تمام سختیوں کے باوجود ہمیشہ ثابت قدم رہتی ہیں، خواہ وہ علمی میدان ہو یا عملی ان کی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ خواتین کو سختی اور مشکلات سے نہیں گھبرانا چاہیے بلکہ مشکلات میں زیادہ سے زیادہ ثابت قدم رہنے اور اپنے اہداف کے لیے کوشش کرنا چاہیے۔
انہوں نے اپنے گھر میں خواتین کے لیے کلاسز اور نشستیں منعقد کرکے انہیں دینی تعلیمات سے متعارف کرایا۔ عراقی خواتین کے لیے اسلامی تصورات اور اسلامی طرز زندگی کے ساتھ کہانیاں لکھیں اور الاضواء میگزین کے ذریعے اپنے افکار کو پھیلایا۔ ان کی ساری فکر لڑکیوں اور خواتین کو مذہبی معاملات سے آشنا کرنا اور انہیں مغربی طرز عمل سے روشناس کرانا تھا۔اسی طرح آپ اخلاقی میدان میں بھی اسلام کا کامل چہرہ نظر آتا ہے جیسے کہ آپ کی ایک شاگرد کہتی ہے:
میں نے بنت الہدی میں محبت، پیار اور پرکشش انداز دیکھا اور عمومی طور پر اسلام کا مکمل چہرہ دیکھا۔ اُن کے اندر خودی کا ظہور ہوا تھا۔ انہوں نے دوسروں میں شعور و آگاہی کی دولت بانٹنا اپنا دینی فریضہ قرار دیا۔ وہ دوسروں کے ساتھ ایسا سلوک کرتی تھی جیسے وہ کئی سالوں سے ان کے ساتھ رہی ہوں۔ "ان کے کردار کا ان کے دل پر گہرا اثر تھا۔" ذرا سوچئے کہ خدیجہ کبری، فاطمہ زہرا اور زینب سلام اللہ علیہا کیسی تھیں؟
مجاہدہ عالم بنت الہدیٰ نے اپنی زندگی کے دوران، خاص طور پر اپنے بابرکت سالوں میں، مسلمان خواتین اور لڑکیوں کو بیدار کرنے کے لیے دن رات کام کیا، جو غیروں کی بے ہودہ اور دشمن کی تہذیب سے متاثر تھیں۔ اسلامی کلچر کو انسانیت کے لئے پیش کرنااور مذہب اور عقیدہ کو اپنی زندگی کا مرکز بنانا ان کامشن تھا۔یہاں تک کہ آپ نے اسلام کے روشن اصولوں وتعلیمات کے نشروفروغ اور نفاذ کی راہ میں اپنی جان بھی قربان کردی۔

حوالہ جات:

حسینی حائری، سید کاظم؛ زندگی و افکار شہید صدر، ترجمہ حسن طارمی، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۳۷۵، چاپ اول، ص ۳۲.
حسینی حائری، سید کاظم؛ زندگی و افکار شہید صدر، ترجمہ حسن طارمی، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۳۷۵، چاپ اول، ص ۳۱و۳۲.
الحسون، اعلام النساء المؤمنات، ۱۴۱۱ق، ص۷۴.
بنت‌الہدی در آئینہ خاطرات منتشر نشده خانواده شہید صدر، ترجمہ: عبدالکریم زنجانی، ماہنامہ شاہد یاران، ش ۱۸، اردیبهشت ۱۳۸۶
الحسون، اعلام النساء المؤمنات، ۱۴۱۱ق، ص۷۶-۷.
«آمنہ صدر»، زن محجبہ‌ای کہ یک جنبش شد،حاجی پور، زهرا، پایگاه حوزه، ش ۲۸، بهار۱۳۸۷
بنت الہدی سایت رحماء
محمد الحسون، ام علی مشکور، اعلام النساء المؤمنات، ص ۸۸-۸۹.
۱ن.ویلی، جویس، نہضت اسلامی شیعیان عراق، ص ۱۱۲

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .