۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
شهید صدر

حوزہ/پوری تاریخ انسانیت میں دیکھا جائے تو ایسے بلند مرتبہ اور حریت پسند انسان ملیں گے جنہوں نے پوری زندگی میں مخلصانہ جہاد اور دن رات ایک کرکے مسلمانوں کے درمیان وحدت قائم کرنے اور دین مبین اسلام کے لیے زحمتیں اٹھائی ہیں  اور اپنی جانوں کو اسی راہ میں قربان کیا ہے۔شہید سید محمد باقر الصدرؒ کی ذات بھی انہی مجاہدین کے درمیان چمکتی دمکتی دکھائی دیتی ہے۔

تالیف رحیم ابوالحسینی

ترجمہ: اکبر علی ترابی

حوزہ نیوز ایجنسی!

مقدمہ:
وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْیاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُونَ (آل عمران: 169)
پوری تاریخ انسانیت میں دیکھا جائے تو ایسے بلند مرتبہ اور حریت پسند انسان ملیں گے جنہوں نے پوری زندگی میں مخلصانہ جہاد اور دن رات ایک کرکے مسلمانوں کے درمیان وحدت قائم کرنے اور دین مبین اسلام کے لیے زحمتیں اٹھائی ہیں اور اپنی جانوں کو اسی راہ میں قربان کیا ہے۔ شہید سید محمد باقر الصدرؒ کی ذات بھی انہی مجاہدین کے درمیان چمکتی دمکتی دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کی سربلندی کےلیے وقف کیا۔ آپ ؒنے اپنی زندگی کے آغاز سے ہی دفاع اسلام کا علم بلند کیا اور اپنے علم اور قلم و زبان کے ذریعے انحرافی اور الحادی افکار کا مقابلہ کیا۔
یہ مختصر تحریر اس عظیم مجاہد اور فرزند پیغمبر کی روشن زندگی کے متعلق ہے کہ جس نے اپنے قلم اور زبان کی طاقت سے اسلامی مبادیات کے مختلف (اعتقادی ،سیاسی اور اجتماعی) میدانوں میں سے کسی ایک پہلو میں اسلام کی خدمت کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اگرچہ کم عمری کی وجہ سے آپ اپنی تمام بلند آرزؤں تک تو نہیں پہنچ سکے؛ مگر اسلام کی خدمت میں آپؒ کی ۴۷سالہ زندگی کا ہر لمحہ قابل تعریف ہے۔
آپؒ نے اس مختصر حیات میں خود کو اجتہاد کے مقام تک پہنچایا اور اس مقدس مقام (مرحعیت) کے ذریعے اسلامی امت کی حفاظت اور اسلامی سرزمین کے تحفظ کی خاطر کوشاں رہے۔ اس مقالے میں جتنے منابع ذکر ہوئے ہیں وہ خود سید بزرگوار کے شاگردوں کی تالیفات ہیں جوکہ ان تمام حوادث میں شہیدؒ کے بہت قریب رہے ہیں۔

خاندان صدر اور اس خاندان کے عظیم لوگ:

شہید صدرؒ کے آباو اجدادمختلف مقامات پر دینی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ لبنان، شام اور عراق میں مشعل ہدایت بن کر لوگوں کی نجات کا ذریعہ فراہم کیا ہے۔ اس پوری مدت میں یہ عظیم خاندان آل ابی سبحہ، آل حسین القطبی، آل عبداللہ، آل ابی الحسن، آل شرف الدین اور آخر میں آل صدر کے لقب کے ساتھ مشہور ہے اور آل صدر اس خاندان کا آخری سلسلہ نسب ہے جوکہ سید صدرالدین صدر [۱۲۶۴ہجری] تک جا پہنچتا ہے۔
سید صدر الدین ۱۱۹۳ ہجری قمری کو جبل عامل میں پیدا ہوئے۔ چار سال کی عمر میں اپنے والد بزرگوار سید صالح کے ساتھ نجف اشرف کی طرف عازم سفر ہوئے اور کاظمین شریفین سے اصفہان پھر اصفہان سے نجف کی طرف آخری سفر کیا۔ اس عظیم خاندان میں حیدر صدر جیسے برجستہ شخصیات بھی ہیں۔ سید اسماعیل صدر اورر شہید باقر صدرؒ آپ کی باقیات الصالحات میں شامل ہیں۔ مرحوم سید حیدر نابغہ روزگار اور مظہر زہد و تقوی کے مالک تھے، آپ نے ۱۳۰۹ ہجری میں سامراء کے مقام پر آنکھیں کھولیں اور ۲۷ جمادی الثانی ۱۳۵۶ ہجری کو کاظمین میں دار البقاء کی طرف رخت سفر باندھا۔
سید حیدر کی اولاد میں دو بیٹے سید اسماعیل، شہید محمد باقرصدرؒ اور ایک بیٹی شہیدہ آمنہ (المعروف بنت الہدیؒ) تھی۔
شہید باقر صدرؒ کی والدہ آیت اللہ شیخ عبدالحسین آل یاسین کی بیٹی تھی اس عظیم اور کردار زینبی ؑ کی حامل ماں نے راہ اسلام میں دو شہیدوں کی جان ہدیہ کرنے کے بعد دعوت حق کو لبیک کہا۔

شہید باقر صدرؒ کی پیدائش اور بچپن:

شہید سید محمد باقر صدرؒ نے ۵ ذی قعدہ ۱۳۵۳ ہجری کو کاظمین کے مقدس مقام پر آنکھ کھولی، آپ کے والد بزرگوار سید حیدر مراجع تقلید میں سے تھے سلسلہ نسب کے لحاظ سے آپ موسوی چشم و چراغ ہیں۔ اس خاندان کا طرہ امتیاز تھا کہ مجتہدین اور علماء اس خاندان سے آتے رہے جو کہ بہت کم خاندانوں کے نصیب میں ہوتا ہے۔
باپ کے سائے سے محروم ہونے کے بعد آپ نے اپنی والدہ محترمہ اور اپنے بڑے بھائی سید اسماعیل صدر کی زیر کفالت پرورش پائی۔ بچپن سے ہی آپ کی ذہانت وفطانت اور زیرکی سب پر عیاں تھی آپ نے ابتدائی تعلیم کاظمین کے ایک سکول"منتدی النشر" سے حاصل کی اور آپ کی ذہانت اور اخلاق کی وجہ سے ہی چھوٹے بڑے سب آپ کو پسند کرتے تھے۔ آپ کے اساتذہ بھی آپ کو خاص نظر سے دیکھتے تھے؛ کیونکہ آپ پورے سکول میں ذہین اور مہذب تھے اس لیے آپ کے اساتذہ آپ کو دوسرے طلاب کےلیے بطور نمونہ پیش کرتے تھے۔
آپ کےمشہور ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آپ سکول کی چار دیواری کے باہر مراسم عزاداری میں سوزخوانی اور خطابت بھی کرتےتھے اور آپ کے بیان اور دلسوز کلمات کے ذریعے سننے والوں کی آنکھیں نم ہوجاتی تھیں۔
شہید صدرؒسکول کے زمانے میں اپنے تمام ہم کلاسیوں سے زیادہ ذہین تھے۔ آپ بعض مطالب کو وقفہ کے دوران اپنے دوستوں کےلیے بیان کرتے اور مدرسہ کے نصاب کے علاوہ فلسفہ اور اس زمانہ کے جدید مباحث مارکسزم، امپریالیزم اور دیالیٹک جیسے جدید مباحث کو اپنے دوستوں کےلیے بیان کرکے ان کو ان موضوعات کے متعلق آگاہی دیتے تھے۔
آپ کے ایک استاد بنام "ابو برا" آپ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ جب بھی کوئی استاد گفتگو کرتاتو آپ ادب کی خاطر سر اور نظروں کو جھکائے رکھتے تھے اور میں اسکی پاکیزگی اور بے گناہی کی وجہ سے اس سے محبت کرتا تھا اور اس کی بزرگی کی وجہ سے اسکا احترام کرتا تھا اور کبھی اس سے کہتاتھا کہ میں اس دن کا منتظر رہوں گا کہ ایک دن آپ کے نظریات اور علمی سرچشمے سے سیراب ہوجاوں۔ یہ بات سن کر آپ ادب کے طورپر سر نیچے کرتے اور کہتے: مجھے بخش دیں میں آپ اور ان لوگوں کا شاگرد رہوں گا جنہوں نے مجھے علم و دانش کا راستہ دکھایا ہے۔
آپ حوزہ علمیہ نجف میں پرائمری پاس کرنے کے بعد بہت سوں کے اصرار کے باوجود اپنی والدہ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے سکول کی تعلیم کا سلسلہ چھوڑ کرحوزہ علمیہ کا رخ کیا۔ اس لیے کاظمین سے نجف کی طرف رخت سفر باندھ لیا۔ آپ کو حوزہ علمیہ نجف میں شروع سے ہی مرحوم شیخ رضا آل یاسین اور مرحوم سید خوئی جیسے بزرگ اساتذہ اور علماء کے سامنے زانوئے تلمّذ تہہ کرنے کا موقع ملا۔
گیارہ سال کی عمر میں منطق مکمل کرنے کے بعد "معالم اصول" اپنے بھائی مرحوم سید اسماعیل کی شاگردی میں پڑھا۔ آپ نے اٹھارہ سال کی قلیل مدت میں مقدمات سے لے کر تمام حوزوی نصاب کو مکمل کرلیا، دیکھنے میں یہ بہت قلیل مدت ہے لیکن شہیدؒ اس مختصر مدت میں روزانہ کی بنیاد پر سولہ گھنٹے شب وروز مطالعہ کیاکرتے تھے۔

آپ کے شاگرد:

شہید صدرؒ نے اپنی حیات میں بہت سارے علمی گوہر تراشے ہیں، جن میں سے بعض تو اجتہاد کے مقام تک آپ کے سامنے کشکول علم پھیلاتے رہے ہیں۔آپؒ کے شاگردوں میں ایسے گرانقدر شخصیات دیکھنے کو ملیں گی جن کی مثال تاریخ میں بہت کم ملتی ہے، جیسے: شہید باقر حکیم، سید نورالدین اشکوری، سید محمود ہاشمی، سید عبد العزیز حکیم، شیخ رضا نعمانی، سیدکاظم حسینی حائری، سید عبدالغنی اردبیلی، شہید سید عزالدین قبانچی، سید حسین صدر، سید غلام رضا عرفانیان، شیخ محمد باقر ایروانی اور علامہ سید ذیشان حیدر جوادی ہندی۔ ان کے علاوہ بہت سارے طلاب کی تربیت کر کے مختلف ملکوں کے مومنین کےلیے تحفہ کے طور پر پیش کیا۔

آپ کے آثار اور تالیفات:

شہید صدر کے علمی آثار تو اپنی جگہ روز روشن کی طرح ظاہر ہیں لیکن مختلف موضوعات جیسے اجتماعی، دینی، سیاسی، اقتصادی اور فلسفی موضوعات پر ان ایسی تحریریں موجود ہیں جوزیادہ مشہور ہوئیں جیسے:
۱۔ اقتصادنا
۲۔ الاسس المنطقیۃ للاستقراء ( اس کتاب کا فارسی ترجمہ کئی بار چھپ چکا ہے )
۳۔ الاسلام یقود الحیاۃ ؛( اس کتاب کے چھے جزوات، انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ۱۳۹۹ قمری میں چھپ چکے ہیں)
الف۔لمحۃفقیھیۃتمھیدیۃ عن مشروع دستوع الجمھوریۃ الاسلامیۃ فی ایران
ب۔ صورۃ عن اقتصاد المجتمع الاسلامی
ج۔ خطوط تفصیلیۃ عن اقتصاد المجتمع الاسلامی
د۔ خلافۃ الانسان و شہادۃ الانبیاء
ھ۔ منابع القدرۃ فی الدولۃ الاسلامیۃ
و۔ الاسس العامۃ للبنک فی المجتمع الاسلامی
۴۔ البنک اللاربوی فی الاسلام ؛ یہ کتاب مقالے کی صورت میں ماہانہ کی بنیاد پر چھپتی رہی ہے۔
۵۔ بحوث فی شرح العروۃ الوثقی
۶۔ بحوث حول المہدی (عج) (آقای علی حجتی کرمانی نے اسکا فارسی ترجمہ کیا ہے جو کئی بار چھپ کر بازار میں آچکاہے )۔
۷۔ بحث حول الولایۃ ؛ اس کتاب کا بھی " تشیع مولود طبعی اسلام" کے نام سے فارسی میں ترجمہ موجود ہے۔
۸۔ بلغۃ الراغبین ؛
۹۔ دروس فی علم الاصول ؛ (یہ کتاب حلقات کے نام سے تین جلدوں پر مشتمل ہے)
۱۰۔ فدک فی التاریخ ؛( یہ کتاب پیغمبر اکرم کی رحلت کے بعد پیش آنے والے تلخ واقعہ فدک پر مشتمل ہے اسکا بھی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو گیا ہے )
۱۱۔ فلسفتنا؛ ( اس کتاب میں فلسفہ اسلامی کو جدید نظریات کے ساتھ تقابلی جایزہ لیکر تطبیقی بحث کی ہے )
۱۲۔ غایۃ الفکر فی علم الاصول؛
۱۳۔ المعالم الجدیدۃ الاصول؛
14۔ المدرسۃ الاسلامیہ ؛
۱۵ ۔ منہاج الصالحین؛
۱۶۔ موجز احکام الحج۔

آپ کا علمی مقام:

شہید اعلی اللہ مقامہ کا علمی مقام صرف فقہ اور اصول تک محدود نہیں ہے؛ بلکہ انہوں نے منطق، فلسفہ، اقتصاد، اخلاق ، تفسیر، تاریخ اور بہت سارے موضوعات پر جدید فکری تقاضوں کے مطابق گفتگو کی ہے۔
استاد شہید صدر کی تالیف کردہ کتاب " المعالم الجدیدۃ للاصول" کے مرحلہ چہارم میں آپ نے اس انداز میں بحث کی ہے جیسے دریائے علم اصول سے گوہر نایاب چنے ہیں۔ مباحث سیرۃ عقلائیہ ، سیرہ متشرعہ اور بحث حجیت قطع میں جو جدید مباحث بیان کئے ہیں وہ یقینا شہید کی اوج علمی کی نشانی ہے۔
کتاب فلسفتنا اور اقتصادنا دونوں میں نئے دلائل کی روشنی میں فلسفہ مادی اور اقتصادی مارکسزم اور کیپٹلزم پر تنقید کی ہے، اسی طرح علم منطق، تاریخ ، تفسیر اور باقی علمی میدانوں میں موثر انداز میں جدید تقاضوں کے مطابق تالیفات اور تقاریر موجود ہیں۔

جماعۃ العلماء کی تاسیس اور آپ کا کردار:

اس ادارے کی تاسیس ایک اسلامی قدم تھا جس کی بنیاد نجف کے بزرگان میں سے کچھ دانشوروں پر مشتمل ایک گروہ کے ذریعے رکھی گئی۔ شہید باقر حکیم اسی "جماعۃ العلماء" کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ " یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ اس گروہ جماعۃ العلماء کو تشکیل دینے میں شہید صدرؒ سمیت نجف کے تمام مراجع عظام (جیسے آیت اللہ محسن حکیم) نے بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔ اگر چہ شہید کمسنی کی وجہ سے رسمی طور پر اس گروہ کا حصہ نہیں بنے لیکن اسکی کامیابی میں آپ کا کردار ناقابل انکار ہے۔
علمائے نجف نے "جماعۃ العلماء" کے پلیٹ فارم سے بڑے بڑے اسلامی کارنامے انجام دئیے ہیں۔ مختلف کانفرنسوں اورعلمی نشستوں کے ذریعے عوام الناس تک اسلامی تعلیمات پہنچائی ہیں۔ اس ادارے کی زیرنگرانی ایک علمی مجلہ"الاضواء الاسلامیۃ " بھی چھپتا رہا ہے ، جس کی نشرو اشاعت کی ذمہ داری حوزہ علمیہ نجف کے جوانوں پر مشتمل گروہ نے اٹھا رکھی تھی، جن میں شہید کا بھی کلیدی کردار رہا ہے۔

حزب الدعوۃ الاسلامیۃ کی تاسیس:

شہید صدرؒ نے جوانی کے آغاز سے ہی ایک گروہ بنام" حزب الدعوۃ الاسلامیۃ " تشکیل دیا جو اس زمانہ کے حالات کے مطابق حوزہ علمیہ نجف میں ایک سیاسی چنگاری بھی تھا اور سیاسی اقدامات کےلیے مشعل راہ بھی۔
اس گروہ (حزب الدعوۃ الاسلامیۃ) کی تاسیس ۱۳۷۷ ہجری میں ہوئی اور چار بنیادی اصولوں کی بنیاد پر قائم ہوئی۔ وہ چار اصول یہ تھے:
الف۔ امت اسلامیہ کی فکری پرورش؛
ب۔ سیاسی اقدامات؛
ج۔ گروہ کو ہر لحاظ سے مستحکم اور مقتدر بنانا؛
د۔ امت اسلامیہ کی اصلاح کے لیے جدوجہد کرنا۔
حزب الدعوۃ الاسلامیہ کی تاسیس کے بعد شہیدؒ نے پانچ سالوں کےلیے اس گروہ کو ترک کیا؛ کیونکہ کچھ عالم نما بے بصیرت علماء کی جانب سے آیت اللہ محسن حکیم کے پاس مسلسل شکایت کی جارہی تھی کہ سید محمد باقر الصدر نے "حزب الدعوۃ الاسلامیہ" کے نام سے ایک گروہ تشکیل دیا ہے ، جو حوزہ علمیہ اور مراجع عظام کی بدنامی کا موجب بنے گا۔
آیت اللہ محسن حکیم نے اپنے بیٹے کے ساتھ شہید صدرؒ کو یہ پیغام بھیجا کہ آپ تمام اسلامی گروہ کے رکن ہیں، لہٰذا ایک ہی گروہ کے ساتھ مختص ہوکر رہنا آپ کے لیے مناسب نہیں ہے، بلکہ تمام اسلامی مسائل کے طول وعرض پر آپ کی نظر ہونی چاہیے۔
آپ نے اس پیغام کا یوں جواب دیا :"میں نے کچھ عرصہ کےلیے اس گروہ سے کنارہ کشی اختیار کی ہے" ۔ آیت اللہ محسن حکیم کی رحلت کے بعد آپ کے کندھوں پر مرجعیت کی عظیم ذمہ داری عائد ہونے لگی، جس کی بابت آپ کا یہ نقطہ نظر یہ تھا کہ "مرجعیت فقط ایک گروہ کی سرپرستی کرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ پوری امت کی رہبری کرنا اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے "۔ اسی نظرئیے کے تحت حوزہ علمیہ میں دو عظیم عہدوں پر فعالیت دکھانے میں کامیاب ہوگئے۔

شائستہ اور کامل نظام مرجعیت:

شہید صدرؒ اپنی عمر کے آخری دس سالوں میں اپنے گھر پر "ہفتہ وار جلسہ" منعقد کرواتے تھے۔ ان جلسوں میں اپنے برجستہ شاگردوں کو بھی مدعو کرکے لاتے تھے اور ان کے ساتھ اجتماعی ،سیاسی موضوعات سمیت مختلف موضو عات پر گفتگو کرتے تھے ۔ شیعہ، سنی تفریق کے بغیر تما م مسلمانوں اور مسلم امہ کو درپیش مسائل و مشکلات اور ان کے حل کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر سامعین تک پہنچاتے تھے۔ ان جلسوں میں امام خمینیؒ کی جدوجہد کے مختلف پہلو، اسلامی انقلاب کے بنیادی نظریات اور " شائستہ مرجعیت اور نظام یافتہ مرجعیت"جیسے موضوعات کو خاص اہمیت دی گئی تھی اور شرکائے جلسہ کو انکی اہمیت اور ضرورت سے آگاہ کیا جاتا تھا۔ نظام مرجعیت کو مندرجہ ذیل چار نکات میں مختصرا بیان کیا جاسکتا ہے :
۱۔ اسلامی تعلیمات کو تمام مسلمانوں تک پہنچانے میں حوزہ علمیہ کا پیش پیش رہنا؛
۲ ۔ اسلام کے اصلی مفاہیم کو زندہ کرنا اور انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں میں فکری تحریک کو بیدار کرنا؛
۳۔ اسلامی اور سیاسی تحریکوں کی نظارت کرنا؛
۴۔ امت اسلامی کے درمیان وحدت اور ارتباط پیدا کرنے کےلیے مراکز قائم کرنا۔
شہید صدرؒ معتقد تھے کہ شائستہ مرجعیت کا ہر زمان میں ہونا ضروری ہے تاکہ آنے والے مجتہدین اپنی مسئولیت کو اسی تسلسل میں انجام تک پہنچانے کےلیے سعی و کوشش کریں، نہ کہ ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کو صفر سے شروع کرے۔ تب کہیں جاکر مرجعیت اپنی دیرینہ آرزو تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کےلیے طویل مدت پر مشتمل تنظیم سازی اور مسلسل جدوجہد کی ضرورت درکار ہوتی ہے۔

آپ کی گرفتاری:

شہید صدرؒکو عراق پر مسلط ظالم و جابر گروہ " بعث پارٹی" کی طرف سے چار دفعہ گرفتار کیا گیا۔ پہلی گرفتاری ۱۳۹۲ ق کو ہوئی جب سید صدرؒ زہر کے اثر کی وجہ سے اپنے دو قریبی شاگرد(سید کاظم حسینی حائری اور سید عبدالغنی اردبیلی )کے ساتھ نجف ہسپتال میں زیر علاج تھے بعث پارٹی کے گماشتے اطلاع کے بغیر شہید کے گھر پر آپ کو گرفتار کرنے کےلیے آئے جب ان کو معلوم ہوا کہ شہید نجف ہسپتال میں زیر علاج ہیں تو یہ لوگ ہسپتال پہنچے اور شہید کو گرفتار کرنا چاہا تو ہسپتال کا عملہ مانع ہوا اور کہا کہ شہید کی حالت زیادہ خراب ہے اس وقت ان کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔ بہر حال ان کی ضد پر شہید کو کوفہ ہسپتال کے اس وارڈ میں ،جہاں بیمار قیدیوں کو رکھا جاتا تھا، داخل کروانے پر اتفاق ہوا اس طرح شہید کو کوفہ منتقل کیا گیا ۔
یہ خبر امام خمینیؒ اور حوزہ علمیہ تک پہنچی تو مرحوم آیت اللہ شیخ مرتضی اور مرحوم سید صادق صدر سمیت طلاب دینی کی بڑی تعداد ہسپتال کے باہر جمع ہوگئی۔لوگوں کی جمعیت اور شہید صدر کی نازک حالت کے بعثی مجبور ہوگئے اور کم مدت میں آپ کو رہا کر دیا گیا۔
شہید ؒکی دوسری گرفتاری ۱۳۹۷ق ماہ صفر المظفر میں ایام اربعین کے دوران ہوئی ۔شہید صدر مختلف ممالک اور گردونواح سے تشریف لانے والے زائرین کی خدمت کرنے میں مشغول تھے اس سال بہت سے زائر بعثیوں کے ہاتھوں درجہ شہادت پر فائز ہوئے تھے اور انہوں نے مرجعیت سے انتقام کا بھی بازار گرم کر رکھا تھا۔ اسی طرح کے ناپاک عزائم کے تحت شہید صدر کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی۔ اس گرفتاری کے وقت اس قدر ضرب و شتم کیاجس کے آثار شہیدکی رہائی کے بعد بھی نمایاں تھے۔
شہیدکی تیسری گرفتاری ماہ رجب۱۳۹۹ ق میں ہوئی جب ایران میں اسلامی انقلاب تمام تر ایثار و قربانیوں کے ساتھ کامیاب ہوا۔ اس وقت بعثی گماشتوں کو خوف اور خطر لاحق ہوا کہ کہیں انقلاب کی چنگاری عراق کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے اور کہیں عراق میں بھی ایران کی طرح انقلاب برپا نہ ہو۔ اس سلسلے میں بہت سارے مومنین کو گرفتار کیا گیا ان میں سے ایک شہید عالی قدر کی ذات تھی۔ اس وقت شہید کو گرفتار کرنے کےلیے دو سونفر پر مشتمل پولیس کا دستہ، جنگی اسباب و اسلحہ سے لیس ہو کر شہید کی منزل پر پہنچا۔ جب شہید کو گرفتار کرکے لے جایا گیا توآپ ؒ کی ہمشیرہ سیدہ بنت الہدی نے ایسی تقریر کی جس میں حکومت عراق کےناپاک عزائم خاک میں ملانے اور عوام الناس کی بیداری کے ایسے کلمات موجود تھے کہ یہ تقریر انقلاب عراق کی اہم ترین سند قرار پائی۔
چوتھی اور آخری بار شہید کی گرفتاری ۱۴۰۰ق کو ہوئی اور اسی گرفتاری کے دوران آپ نے جام شہادت نوش کیا اور چار دن کے بعد آپ کے جنازے کو آ پ کے چچا زاد بھائی حجۃ الاسلام سید محمد صادق صدر تک پہنچایا اور ان کی نگرانی میں آپ کی جسد خاکی کو سپرد خاک کیاگیا۔

آپ کی شہادت کی خبر:

شہید صدرؒ کی شہادت کی خبر بہت ہی درد ناک اور دلخراش تھی ۔ابو سعد (نجف سٹی پولیس کا سربراہ) اچانک شہید کے گھر پر کسی اطلاع کے بغیر پہنچ جاتا ہے اور شہید کو بغداد منتقل کردیتا ہے اور اسی گرفتاری کے ساتھ آپ جام شہادت نوش فرماتے ہیں۔ شہید نےاپنی شہادت سے پہلے جو خواب دیکھا تھا اسے صدام کے دربار میں موجود عالم نما درباریوں کو یوں بیان کرتے ہیں کہ آپ کے بھائی سید اسماعیل صدر اور شیخ مرتضی آل یسین کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ان دونوں کے درمیان شہید خود تشریف فرماہیں اور بہت سارے لوگ شہید کے پائے مبارک کو کھینچنے کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ شہید ؒ اس خواب کو دیکھنے کے ایک ہفتہ بعد مقام شہادت پر فائز ہوجاتے ہیں اور دشمن آپ کی بہن شہیدہ سیدہ بنت الہدی کو آپ سے ملاقات کا بہانہ بناکر بغداد بلالیتا ہے اور ان کو بھی شہید کردیتا ہے۔
ان دونوں مجاہدین اسلام کی شہادت کی خبر ہر جگہ پھیل جاتی ہے اور ان کی یاد میں مومنین مجالس ، پیغام تسلیت ،مظاہرے اور حکومت مخالف جلسے جلوس ہر جگہ منعقد کروائے جاتے ہیں ۔
شعراء حضرات نے بھی اس عظیم شہادت پر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے: جیسے ایک شاعر ڈاکٹر داود عطاراپنی محبت کا اظہار یوں کرتا ہے:
باقرالصدرمــنا سـلاما،
ایّ باغ سقاک الـحاما
انت ایقظتنا کیف تغفوانت اقسمت ان لن تناما
اے باقر صدر آپ پر میرا سلام ہو، وہ کونسا ناپاک ہاتھ تھا جس نے آپ کے پاک جسم کو موت کی نیند سلا دیا۔ تُو نے ہمیں بیدار کیا ،پس اب آپ نے خود اپنی آنکھیں کیوں بند کرلیں۔؟ کیا تمہیں وہ وعدہ یاد دلاوں کہ کہا تھا تُو کبھی بھی نہیں سوئے گا۔

منابع و مآخذ:

1ـپژوہشکده باقر العلوم ،گلشن ابرار، نشر معروف،قم، 1378.
2ـجامعہ اسلامی دانشجویان دانشگاه آزاد اسلامی کرمان، زندگی‏نامہ شهید صدر، زعیم، تہران، 1379.
3ـ جمشیدی، حسین، اندیشہ‏ های سیاسی شہید رابع امام سید محمدباقر صدر، وزارت امور خارجه، تہران، 1377.
4ـجمشیدی،حسین،نظریه عدالت: ازدیدگاه ابونصر فارابی، امام خمینی و شهید صدر، پژوهشکده امام خمینی رحمه ‏الله وانقلاب اسلامی، تهران، 1380.
5ـحسینی حائری، کاظم، زندگی و افکار شهید بزرگوار آیت الله العظمی سید محمد باقر صدر، ترجمه و پاورقی حسن طارمی، وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی، تهران، 1375.
6ـقبانچی، صدر الدین، اندیشه ‏های سیاسی آیت الله شهید سید محمد باقر صدر، ترجمه ب.شریعت مدار، خدمات فرهنگی رسا، تهران، 1362.
7ـقلی‏ زاده، مصطفی، شهید صدر بر بلندای اندیشه و جهاد، سازمان تبلیغات اسلامی، تهران، 1372.
8ـنعمانی،رضا،شهید الامة و شاهدها: دراسة و ثائقیةلحیاة و جهاد الامام الشهید السید محمد باقر الصدر، کنگره جهانی امام شهید صدر، قم، 1424ق.
9۔اندیشہ تقریب 1385 شماره6

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔آيت اللہ العظمی خامنہ ای

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .