۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
شہید باقر الصدر ؒ اور انکی شہید ہمشیرہ

حوزہ / آیت اللہ سیدمحمد باقرالصدر اور ان کی ہمشیرہ شہیدہ بنت الہدیٰ کی شہادت کی 42ویں برسی کے موقع پر ان کی سوانح حیات کے چند مراحل کو پیش کیا جا رہا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی۸ اپریل سید محمد باقرالصدر اور ان کی ہمشیرہ شہیدہ بنت الہدیٰ کے یوم شہادت کی مناسبت سے ان کی سوانح حیات کو ڈاکٹر سید راشد نقوی کے قلم سے چند مراحل میں پیش کیا جا رہا ہے:

مقدمہ

آیت اللہ حکیم کی وفات کے بعد 1390 ہجری میں آیت اللہ سیدمحمد باقرالصدر کی مرجعیت کا دور شروع ہوا اور بہت سے عراقیوں نے آپ کی تقلید کی۔ آپ جمعہ کے دن صبح سے رات تک اور دوسرے دنوں میں ظہر کی اذان سے ایک گھنٹہ پہلے لوگوں کے لیے اپنے گھر کا دروازہ کھول دیتے تھے اور لوگ اپنے علمی و عملی مسائل کے حل کے لیے آپ کے گھر جاتے۔

ہر بدھ کو مغرب اور عشاء کی نماز کے بعد آپ کے گھر میں امام حسین علیہ السلام کی یاد میں مجلس اور عزاداری کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ اس مجلس میں کثیر تعداد میں علماء کرام اور نوجوان طلباء شرکت کرتے تھے۔ آیت اللہ صدر نے اس طرح سے عاشورا ، فلسفہ شہادت اور قربانی کی ثقافت کو زندہ رکھا۔

آیت اللہ سید محمد باقر صدر کی گرفتاری

1392 ہجری قمری میں عراق کی بعثی حکومت نے مسلمان مبارزین کی گرفتاری اور تشدد میں اضافہ کیا۔ شہید آیت اللہ صدر جو اس تحریک کے قائدین میں سے تھے اور اسلام اور مسلمانوں کے حق میں اعلان حق کیا کرتے تھے بعثی حکومت کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے تھے۔ جب گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا تو آپ اس وقت بیماری کے باعث ہسپتال میں داخل تھے لیکن عراقی حکومت نے انہیں ہسپتال میں بھی نہیں چھوڑا اور انہیں گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے انہوں نے ہسپتال کا محاصرہ کیا اور پھر آیت اللہ صدر کو اسی بیماری اور کمزوری کے ساتھ ہتھکڑیاں لگا کر کوفہ اسپتال کے جیل وارڈ میں منتقل کردیا البتہ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ مسلم عوام نے ایک شاندار اجتماع کرکے ان کی گرفتاری پر سخت احتجاج کیا جوبالآخر آیت اللہ صدر کی رہائی اور اسلام دشمن طاقتوں کی شکست کا باعث بنا۔

آیت اللہ شہید صدر کا فتویٰ

انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی سے قبل شہید آیت اللہ سید محمد باقر صدر نے ایران کے اسلامی انقلاب کی بھرپور حمایت کی اور امام خمینی رح کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کیا۔ آپ نے پیرس میں امام خمینی رح کو ایک خط لکھا جس میں ایرانی انقلاب کی شاندارالفاظ میں تعریف کی اور پوری ہمت کے ساتھ اپنی حمایت کا اعلان کیا۔ اس طرح انہوں نے اسلامی انقلاب کے بارے میں اپنا تاریخی فتویٰ جاری کیا:

" جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کے لیے ایران میں اٹھے اور مارے گئے وہ شہید ہیں اور خدا انہیں جنت میں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ محشور کرے گا۔ ان شاء اللہ." سید محمد باقر صدر۔

مرحوم آیت اللہ محمد علی تسخیری اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں: امام خمینی مرحوم کے لیے شہید صدر مرحوم کی محبت کا معاملہ بالکل واضح اور نمایاں تھا۔ شہید صدر اپنے شاگردوں کو امام خمینی کے درس میں شرکت کی ترغیب دیتے تھے، وہ خود امام سے ملاقات کے متمنی رہتے تھے لیکن یہ محبت اس وقت مزید نمایاں ہوئی جب انقلاب اسلامی ایران کامیاب ہوا، شہید صدر انقلاب کی کامیابی کے بعد انقلاب کے ایک بہت بڑے حامی بن کر سامنے آئے ۔ایران میں جب اسلامی آئین کا مسئلہ سامنے آیا تو شہید صدر نے آئین کے مصنفین کی رہنمائی کے لیے کئی پمفلٹ لکھے اور ایران بھیجے جو اب بھی موجود ہیں۔ انقلاب اور امام خمینی سے محبت کا ان کا یہ عالم تھا کہ آپ نے اپنے شاگرودوں سے یہ تاریخی جملہ کہا کہ تم امام خمینی کی ذات میں اس طرح ضم ہوجاؤ جس طرح وہ اسلام میں ضم ہوچکے ہیں ۔آپ نے یہ جملے اس وقت کہے حب آدھا عراق آپ کا مقلد تھا۔آپ نے امام خمینی کے نام خط میں لکھا میں آپ کی قیادت میں ہرطرح کی خدمت کے لئے حاضر ہوں ، آپ جو کہیں گے میں وہی کروں گا۔ اس سے امام کی انقلابی تحریک سے شہید صدر کی محبت کی نشاندہی ہوتی ہے۔

شہید صدر کے شاگرد مرحوم آیت اللہ محمد علی تسخیری مزید کہتے ہیں "میں جانتا ہوں کہ شہید بہشتی اور مرحوم شہید مطہری اور انقلاب کے بہت سے رہنما اور امام کے شاگرد شہید صدر سے محبت کرتے تھےحالانکہ ان میں سے بعض نے ممکن ہے ایک دوسرے کو دیکھا بھی نہ ہو"۔

آیت اللہ خامنہ ای نے بھی شہید صدر سے ملاقات کی اور ان کی تعریف کی اور مرحوم کے بارے میں بعض پیغامات لکھے ہیں۔ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو لوگ امام خمینی مرحوم کی قیادت میں تھے ان کا جناب صدر مرحوم کے ساتھ گہرا میل جول اور تعلق تھا۔

جہاد کا فتویٰ

جب عراقی حکومت نے اپنے ظلم و ستم میں اضافہ کیا اور مسلمانوں اور علماء کو قتل کرنا جاری رکھا تو آیت اللہ سید محمد باقر صدر نے ایک فتوی میں جہاد کا اعلان کرتے ہوئے کہا:

"عراق کی تمام حریت پسند اور مسلمان قوم پر یہ فرض ہے کہ وہ بعث پارٹی اور اس کے قائدین کے خلاف مسلح قیام کریں تاکہ اپنے آپ کو ان خونخوار درندوں کے چنگل سے بچایا جا سکے"۔ سید محمد باقر صدر۔

فتویٰ جاری ہونے کے بعد عراقی حکومت خوفزدہ ہوگئی اور انہوں نے فوری طور پر شہید صدر کے گھر کو گھیرے میں لے لیا۔

جب شہید آیت اللہ صدر کو عراقی حکومت نے گرفتار کیا تو نجف کی سیکیورٹی کے سربراہ نے آپ سے پوچھا کہ آپ عرب ہیں لیکن ایک غیرعرب یعنی ایران اور وہاں کے انقلاب کی حمایت کیوں کررہے ہیں اورآپ نے اپنی تمام سرگرمیاں ایران اور خمینی کی مدد کے لئے کیوں مخصوص کر دی ہیں؟ آپ نے نجف میں مرتضی مطہری کی شہادت پر تعزیتی مجلس کیوں برپا کی وہ تو ایک فارسی بولنے والا ایرانی عالم ہے؟۔سیکوریٹی انچارج نے مزید کہا خمینی سے خط و کتابت کیوں کرتے ہو؟ ۔ تو آیت اللہ صدر نے غصے سے کہا: "میں ایک مسلمان ہوں اور میں دنیا کے تمام مسلمانوں کے حوالے سے ذمہ دار ہوں اور مجھے اپنی عالمی ذمہ داری پوری کرنی ہے۔ اور یہ مسئلہ عربوں اور غیر عرب، ایرانیوں اور غیر ایرانیوں کے بارے میں نہیں ہے یہ اسلام کا مسئلہ ہے اور میں اس سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹوں گا"۔

بنت الہدی کا پیغام

آیت اللہ شہید صدر کی بہن بنت الہدی، جو اسلام کو زندہ رکھنے کے لیے ہمیشہ شہید صدر کے شانہ بشانہ میدان عمل میں تھیں، نے ایک ولولہ انگیر پیغام جاری کیا:

خدا کی قسم! راہِ خدا میں شہادت کی تمنا میں جی رہی ہوں۔ جب تک مجھے یقین ہے کہ میرا کام خدا کے لیے ہے میں اپنے راستے پر چلتی رہوں گی۔ میں اس طرح مروں یا اسی طرح جیوں لیکن شہادت ایک تمنا ہے جو مجھے مسلسل اپنی طرف کھینچتی ہے۔باقی جو خدا چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔

جب آیت اللہ سید محمد باقر الصدر کو عراق میں بعثی حکومت نے گرفتار کیا تو آیت اللہ صدر کے ایک دوست نے صدر کی بہن بنت الہدی کو کچھ عرصہ خاموش رہنے اور عراقی حکومت کے ظلم و جبر کے خلاف احتجاج نہ کرنے کی تجویز دی لیکن بنت الہدی نے انقلابی جواب دیا:

مذہبی ذمہ داری اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم جبر و استبداد کے خلاف ایسا موقف اختیار کریں۔ خاموشی کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ ہمیں جہاد اور جدوجہد کا ایک اور صفحہ کھولنا چاہیے۔ ہم کئی سالوں سے خاموش ہیں اور ہم جتنا خاموش رہیں گے ہمارے دشمن مزید گستاخ ہوتے جا ئیں گے۔ ہم کیوں خاموش رہیں؟

اس کے بعد بنت الھدیٰ مولا علی ع کے حرم کی زیارت کے بعد اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے شہر کے بازار میں جاتی ہیں اور عراق میں بعثی حکومت کے خلاف لوگوں کو تبلیغ کرتی ہیں۔

شہادت

7 اپریل 1980ء (16 فروردین 1359) کو عراق کی بعثی حکومت آیت اللہ سید محمد باقر صدر اور ان کی بہن بنت الہدی کو گرفتار کر کے بغداد لے گئی۔ عراق کی قومی سلامتی کے ادارے کے سربراہ نے آیت اللہ صدر کو موت کی دھمکی دی اور کہا کہ اگر موت سے بچنا چاہتے ہو تو انقلاب اسلامی ایران کے خلاف چند الفاظ لکھو۔ آیت اللہ صدر نے انکار کیا اور کہا میں شہادت کے لئے تیار ہوں ۔ اس جواب کے بعد اس عظیم عالم مجاہد اور ان کی مجاہدہ اور عالمہ بہن کو تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کردیا جاتا ہے۔ آخر کار 9 اپریل 1980 کی نصف شب کو دونوں شہداء کی میتیں ان کے اہل خانہ کے حوالے کر دی گئیں۔

ایک عینی شاہد نے آپ کی شہادت کے واقعہ کو یوں نقل کیا ہے: "شہادت سے پہلے، شہید صدر دس ماہ تک گھر میں محصور رہے، یہاں تک کہ وہ 19 جمادی الاولی 1400ء کو اپنی بہن بنت الہدیٰ کے ساتھ گرفتار ہوئے اور تین دن بعد انتہائی بہیمانہ اور المناک طور پر شہید کر دئیے گئے"۔

کہا جاتا ہے کہ صدام نے خود اپنے ہاتھوں سے اس عظیم بھائی اور بہن کو شہید کیا اور بذات خود ان کے تشدد میں شریک ہونے کے بعد انہیں گولی مار دی۔

تین ذرائع نے اس جرم کو بیان کیا۔ ان مآخذوں میں سے ایک، شیخ محمد رضا النعمانی کی کتاب "سنوات المحنة و ایام الحصار" ہے۔ اس میں ایک صدامی فوجی کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پھانسی کے کمرے میں موجود تھا۔ وہ لکھتا ہے سید محمد باقرالصدر کو تشدد والے کمرے میں لایا گیا اورانہیں باندھ دیا گیا پھر صدام خود آیا اور اس نے عراقی لہجے میں کہا، "اے محمد باقر، کیا تم حکومت بنانا چاہتے ہو؟" پھر اس نے پلاسٹک کے ڈنڈے سے مارنا شروع کر دیا اور پوری طاقت سے سید کے سر اور چہرے پر مارا۔

اس فوجی نے مزید کہا: "سید اور صدام کے درمیان شدید زبانی جھگڑا ہوا، جس سے صدام بہت ناراض ہوا اور اپنے آدمیوں کو سید پر سخت ترین تشدد کرنے کا حکم دیا۔اس دوران بنت الہدی کو لایا گیا ۔ وہ نیم مردہ تھی ان پر دوسرے کمرے میں تشدد کیا گیا تھا۔ انہیں زمین پر گھسیٹتے ہوئے لایا گیا۔ سید نے اپنی بہن کو دیکھا تو صدام سے کہا: اگر تم مرد ہو تو میرا ہاتھ کھول دو۔اور میرا مقابلہ کرو ۔صدام نے ایک کوڑا لے کر بنت الہدی کے بے جان جسم پر مارا اور اس فوجی کے مطابق پھر حکم دیا کہ اس بزرگ خاتون کی چھاتیوں کو اس کے بھائی کے سامنے کاٹ دیا جائے۔

سید باقر صدر ،صدام کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا تم بزدل ہو اور صرف اپنے محافظوں میں تم بہادربنتے ہو۔یہ سن کر وہ غصے میں پاگل ہوگیا اس نے اپنا پستول نکالا اور تمام گولیاں سید اور آپ کی بہن پر خالی کردیں ۔دونوں بہن بھائیوں کو قتل کرکے پاگلوں کی طرح گالی گلوچ اور توہین کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔

9 اپریل 1980ء کو رات 9 بجے کے قریب نجف شہر کی بجلی کی سپلائی اچانک منقطع ہو گئی اور اندھیرے میں صدام کی سیکورٹی فورسز کے ایک گروپ نے مرحوم سید محمد صادق صدر جو شہید باقرالصدرکے رشتہ دار تھے، کے گھر پر دھاوا بول دیا۔ سپاہیوں نے سید محمد صادق صدر سے کہا کہ وہ ان کے ساتھ گورنر کے دفتر آئیں۔

نجف کا سیکورٹی کا ڈائریکٹر جو گورنر ہاؤس میں سید محمد صادق کا انتظار کر رہا تھا اس نے کہا: "یہ صدر اور اس کی بہن کی لاش ہے۔" ہم نے انہیں پھانسی دے دی ہے اور پھر اس نے سید محمد صادق سے کہا کہ وہ لاشیں اپنے ساتھ لے جاکر دفن کردیں۔ نجف میں سیکورٹی کے ڈائریکٹر نے اپنے سپاہیوں سے تابوت کھولنے کو کہا تو سید محمد صادق نے شہید صدر کے خون میں ڈوبی ہوئی لاش کو دیکھا۔ ان کے چہرے پر تشدد کے نشانات نمایاں تھے۔

شہیدہ بنت الہدی کی لاش کی صورت حال بھی اپنے بھائی سے بہتر نہیں تھی۔ آخر کار ان دونوں عظیم شہداء کے جسد خاکی کو نجف کے وادی السلام میں خفیہ طور پر سپرد خاک کر دیا گیا۔

ان کا راستہ زندہ اور پائیدار ہے!

آیت اللہ صدر کی شہادت پرامام خمینی رح کا پیغام

آیت اللہ سید محمد باقر صدرؒ اور ان کی عزیز بہن بنت الہدی صدرؒ کی شہادت کے بعد امام خمینی ؒ نے اپنے ایک پیغام میں فرمایا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انا للہ وانا الیہ راجعون

نہایت افسوس اور دلی رنج کے ساتھ

مرحوم آیت الله شهید سیدمحمد باقر صدر اور آپکی ہمشیره مکرّمہ و مظلومہ بنت الہدی جو علم و اخلاق کے معلم اور علم وادب کی قابل فخر شخصیات تھیں، انتہائی بہیمانہ انداز سے شہادت کے عظیم و ارفع درجہ پر فائز ہوگئے۔ ہم اپنی طرف سے اس عالم اور مجاہد شخصیت کی جو حوزه های علمیہ کے دینی مراجع اور اسلامی دانشوروں کا افتحار تھے ،شہادت کی مناسبت سے تین دن کے سوگ کا اعلان کرتے ہیں اور پروردگار عالم سے اس عظیم نقصان کے ازالہ کی دعا کرتے ہیں۔

دوم اردیبهشت 1359. روح الله الموسوی الخمینی.

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .