حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق۸ اپریل سید محمد باقرالصدر کے یوم شہادت کی مناسبت سے شہید صدرؒ کے فاضل شاگرد حجۃ الاسلام شیخ محمد حسن جعفری،امام جمعہ وجماعت جامع مسجد سکردو کا خصوصی انٹرویو لیا گیا ہے۔
سوال: شہید صدرؒ کی بابرکت زندگی کے حوالے سے مختصر اظہار خیال فرمائیں۔
شیخ محمد حسن جعفری: شہید صدر ؒ کی بابرکت عمر ، صرف سینتالیس سال تھی۔ اس مختصر عرصے میں آپ نے گرانقدر خدمات انسانیت کے لئے انجام دی آپ کے بارے میں وہی قول صادق آتا ہے جو سید رضی کے بارے میں ہے :فیالک من عمر قصیر طاھر. سنتالیس سال انسان کی جوانی ہوتی ہے جس میں آپ ظالم،طاغی،باغی اور سفاک قاتل صدام کے مظالم کانشانہ بنے اور شہید ہوئے۔ آپ کے ساتھ آپ کی بہن کو بھی شہید کیا۔ جس طرح امام حسین کے پیغام کو پہنچانے کے لئے عقیلہ بنی ہاشم حضرت زینب کبری نے قولی وعملی تحریک چلائی اسی طرح شہید کے پیغام کوپھیلانے کے لئے آپ کی بہن آمنہ بنت الہدی نے تحریک اور تبلیغ کی راہ میں قربانی پیش کی اور ان کی گولی کانشانہ ایک جسم نہ بنا ، بلکہ کتنے ہی علوم بھی اس کا نشانہ بنےجن سے نہ صرف مسلمان،نہ صرف شیعہ ،بلکہ پوری انسانیت محروم رہ گئی، کیونکہ آپ ؒ ، مختلف انسانی علوم کے بھی ماہر تھے۔
سوال: شہید صدرؒ کی علمی شخصیت اور فکری نبوغ مشہورہے ۔اس حوالے سے ان کی مہارت کن علوم میں زیادہ تھی؟
شیخ محمد حسن جعفری: ہم عام طورپر یہ سنتے ہیں کہ فلان شخص"تتفجر العلوم من جوانبہ"یعنی علوم کے چشمے اس سے پھوٹ رہے ہیں۔ یہ محسوس کے ذریعے معقول کو سمجھانے کی ایک مثال ہے۔اس حوالے سے میں، بلامبالغہ کہہ سکتاہوں،اوراپنی بات کی خاطر قسم بھی کھا سکتاہوں کہ جوبھی شہیدصدر ؒ کے پاس کچھ لمحات کے لئے بیٹھ جاتا، اسے یہ احساس ضرور ہوتا۔ عظیم شخصیات اور مفکرین ان سے مختلف سوالات پوچھتے تھے، فقہ،اقتصاد، فلسفہ، اصول، اقتصاد،یہاں تک کہ ریاضی کے سوالات پوچھے جاتے تھے اور آپ ان سب کا جواب دیتے۔ہم نے اپنی آنکھوں سے بھی ان کی شکل میں علم کے ایک چشمے کو ابلتے ہوئے مشاہدہ کیا۔ آپ کی دوکتابیں آج بھی مشہور ہیں ایک ’’اقتصادنا‘‘ ور دوسرا ’’فلسفتنا‘‘ یہ دونوں آج بھی دنیا کے لئے چیلنجز کر رہی ہیں ۔ کیاآج عالم اسلام کا کوئی مفکراس طرح کی کتاب لکھ سکتا ہے؟
سوال: شہید صدر کی شاگردی کے حوالے سے آپ کے کیا تاثرات ہیں؟
شیخ محمد حسن جعفری: میں نے ان کتابوں کو درس کے طور پر پڑھا۔ شوق تھا،شہید سے والہانہ عقیدت تھی، ان سے آمدورفت تھی۔وہ نجف کی مسجد طوسی میں درس خارج دیتے تھے۔ آپ اپنے کے استاد اور استاد المجتہدین حضرت آیت اللہ خوئی کی حیات میں ہی درس خارج دیتے تھے۔ انہیں ایام میں ہم نے بھی کچھ وقت ان کے دروس سے استفادہ اور کسب فیض کیا۔ میں سمجھتا ہوں یہ میری طالب علمی کے زمانے عظیم کا اثاثہ ہے۔
سوال: شہید صدر کی علمی شخصیت کے ساتھ آپ کا اخلاقی پہلو بھی انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔اس حوالے آپ کیا فرمانا پسند کریں گے؟
شیخ محمد حسن جعفری: آپ کی نورانی شخصیت،اخلاق کا مجسمہ تھی۔آپ کےبیان میں سحر انگیزی تھی جسے آج کے زمانے میں’’ عبقری شخصیت‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں یعنی وہ انتہائی نادر ہیرا تھے۔ ظالموں نے آپ کو مخفی رکھنے کی کوشش کی اور رات کودفن کیا ،کسی کو قبر کا معلوم ہونے نہیں دیا۔ لیکن اب وادی سلام میں عالیشان مرقد تعمیر کی گئی ہے شان و شوکت بنایا:یریدون لیطفئو نور اللہ... اور ان کے علمی وفکری سرمایے سب اہل علم وتحقیق سیراب ہورہے ہیں۔
سوال: شہید کے اپنے شاگردوں کے ساتھ ان کے روابط کیسے تھے؟
شیخ محمد حسن جعفری: وہ ہمیشہ شاگردوں کے احترام میں کھڑے ہوجاتے۔ان کی شخصیت اور عزت نفس کا بھرپور خیال رکھتے تھے۔ پاکستان سے ان کے خاص شاگرد تھے۔شاگرد کے لیے "مفید ومستفید" کی شرط رکھتے تھے، یعنی: وہ متعلم بھی ہو اور معلم بھی۔ مجھے بھی شہید کی یہ خاص عنایت حاصل رہی ہے۔ شہریہ لفانے میں ڈال کر کمرے میں بھجوا دیتے تھے ،یہ آج سے پینتالیس پچاس سال پہلے کی بات ہے۔ کس قدر عزت نفس کا خیال تھا ان کو کیونکہ اگر عزت نفس انسان میں نہ ہوتو کچھ بھی نہیں ہے۔
سوال: شہید نے سیاست میں اہم کردار ادا کیا ہے ان کا اس لحاظ سے اہم پیغام کیا ہے؟
شیخ محمد حسن جعفری: وہ " حزب الدعوۃ" کے بانی تھے مگر یہ انجمن مخفیانہ تھی جو اب بھی عراق کی سیاست میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ علما ومفکرین اس میں شامل تھے۔ جماعہ العلما، فکری غذا فراہم کرتی، جس کا مرکزی کردار بھی آپ انجام دیتے تھے مگریہ کام مخفیانہ ہوتا تھا، کیونکہ علانیہ کام کرنے کے لَئے حالات سازگار نہیں تھے۔ اس لیے آپ کے بہت سارے شاگرد شہید ہوئے۔ اتحاد امت مسلمہ، آپ کی تعلیمات کا اہم حصہ ہے۔
سوال: شہید کے اہم افکار و نظریات پر مختصر روشنی ڈالیں؟
شیخ محمد حسن جعفری: ایک مجتہد وفقیہ نے پہلی بار اقتصاد،فلسفہ ڈیالیٹیک، بلاسودی بینک جیسے جدید موضوعات پر قلم اٹھایا، جواس زمانے میں بھی بے نظیرتھا اور آج بھی ہے۔جدت فکر کی علامت ہے،اقتصاد اسلامی کو سوشلزم ومارکسزم کے مقابلے میں منظر عام پر لایا۔ یہ اہم کتابیں ہیں۔
ان کے علاوہ چھوٹی کتابیں ماذاتعرف عن اقتصاد الاسلامی لکھی جس میں علم اقتصاد اور مذہب اقتصاد میں فرق بیان کیا گیا ہے کہ جب اسلامی نظام آئے تو پہلے مکتب اقتصاد آئےگا،اس کے بعد علم اقتصاد۔لیکن آج کا نطام، سرمایہ دارانہ ہے۔ کیپٹلزم آج بھی باقی ہے لیکن سوشلزم وکمیونزم کا وجود تقریبا دنیا سے ختم ہوا ہے۔ اس کے مقابلے میں معاشی نظام اسلامی کو واضح وشفاف انداز میں شہید نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔یہ سارے آپ کے فکری ابتکارات میں سے ہیں۔
درسی کتب میں حلقات کو علم اصول نظری وعملی میں کتنا اہم مقام حاصل ہے۔جدیداسلوب اور بہترین عبارت میں پیش کیا ہے۔ جس کی وجہ سابقہ قدیمی کتب جیسے معالم وغیرہ سے ہم بے نیاز ہوگیے ہیں۔ آپ کے فقہی نظریات بھی انتہائی اہم ہیں جن کوآیت اللہ سید محمود شاہرودی نے بحوث فی شرح عروۃ الوثقی کے نام سے تقریرات پیش کی ہے۔یہ تفصیلی کتاب ہے۔
سوال: شہید صدرؒ کے افکار کے سلسلے میں جوانوں کو کیا پیغام دیں گے؟
شیخ محمد حسن جعفری: جوانوں کوچاہیے کہ شہید صدرؒ کے افکار کا گہرائی سے مطالعہ کریں، شہید کے نظریات میں فکری و انقلابی افکار موجود ہیں۔شہید کی کتب عالمانہ و محققانہ ہے۔ان کو اہل فن و ہنر کا رجوع کر کے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شہید نے اسلامی تحریکوں کے لئے بھی نظریات پیش کئے ہیں اگر چہ آپ عراق میں تھے مگر آپ کا دل پوری امت کے لئے دھڑکتا تھا۔
آپ ہمیشہ امام خمینی سے رابطے میں رہتے تھے۔ہمیشہ انقلاب اسلامی کی حمایت کرتے یہاں تک کہ آپ کے ایک مشہور جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کس قدر شہید، امام سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے:ذوبوا فی الخمینی کما ھو ذاب فی الاسلا. یعنی امام خمینی میں اس طرح ضم ہوجاو، جیسے وہ اسلام میں ضم ہوئے ہیں۔