جمعہ 11 اپریل 2025 - 17:14
قرآن و حدیث کی روشنی میں خلافت اور امامت

حوزہ/حضرت آدم علیہ السلام کے خلیفہ بنائے جانے کے بارے میں ہے، جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ وہ زمین پر اپنا خلیفہ بنائے گا، تو فرشتوں نے اعتراض کیا کہ وہ خونریزی اور فساد کرے گا۔

تحریر: شوکت بھارتی

حوزہ نیوز ایجنسی|

بنیادی سوالات

خلافت اور امامت کا اختیار کس کے پاس ہے؟

کیا مسلمانوں کو خود خلیفہ یا امام منتخب کرنے کا حق دیا گیا ہے؟

کیا جو زبردستی خلافت پر قابض ہو جائے، وہ حقیقی خلیفہ کہلا سکتا ہے؟

قرآن و حدیث خلافت اور امامت کے لیے کیا شرائط بیان کرتے ہیں؟

یہ سوالات اسلام کی بنیادی دینی بحث کا حصہ ہیں، اور ان کے جوابات صرف قرآن اور مستند احادیث میں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔

اہلِ بیت اور ازواجِ نبی میں فرق

1. اہلِ بیت کی تطہیر

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:"إِنَّمَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ ٱلرِّجْسَ أَهْلَ ٱلْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًۭا" (سورہ الاحزاب: 33)"بے شک اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کی نجاست دور کرے اور تمہیں خوب پاک و صاف رکھے۔"

2. ازواجِ نبی اہلِ بیت میں شامل نہیں

سورہ تحریم میں اللہ تعالیٰ نبی ﷺ کی بعض ازواج کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے:"إِن تَتُوبَآ إِلَى ٱللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ۖ وَإِن تَظَٰهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ ٱللَّهَ هُوَ مَوْلَىٰهُ وَجِبْرِيلُ وَصَـٰلِحُ ٱلْمُؤْمِنِينَ ۖ وَٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ" (سورہ تحریم: 4)"اگر تم دونوں (ازواج) اللہ کی طرف توبہ کرو (تو بہتر ہے)، بے شک تمہارے دلوں نے کجی اختیار کی ہے، اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی تو یاد رکھو کہ اللہ، جبریل، نیک مومنین اور فرشتے سب اس کے مددگار ہیں۔"

"يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَئِنِ ٱتَّبَتَّنَۚ فَإِنَّ ٱللَّهَ يُبْدِلُهُۥٓ أَزْوَاجًۭا خَيْرًۭا مِّنكُنَّ مُسْلِمَٰتٍۢ مُؤْمِنَٰتٍۢ قَٰنِتَٰتٍۢ تَٰئِبَٰتٍۢ عَٰبِدَٰتٍۢ سَٰئِحَٰتٍۢ ثَيِّبَٰتٍۢ وَأَبْكَارًۭا"(سورہ التحریم: 5)ترجمہ:"اے نبی کی بیویوں! اگر تم (اللہ کے راستے سے) برگشتہ ہو جاؤ، تو اللہ اپنے رسول کو ایسی بیویاں دے گا جو تم سے بہتر ہوں گی: جو مسلم ہوں گی، مومن ہوں گی، فرمانبردار ہوں گی، توبہ کرنے والی ہوں گی، عبادت گزار ہوں گی، روزہ رکھنے والی ہوں گی، بیوہ ہوں گی یا کنواری ہوں گی۔"

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ اگر رسول کی بیبیاں اللہ اور رسول کی اطاعت نہ کریں گی تو اللہ تعالیٰ ان کے بدلے میں اپنے رسول کو ایسی بہتر بیویاں دے گا جو اللّٰہ کی رضا کی پیروی کریں گی اور اللّٰہ اور رسول کی اطاعت گزار ہوں گی۔

یہ آیات ثابت کرتی ہیں کہ اہلِ بیت اور ازواجِ نبی ایک نہیں ہیں۔

اہلبیت وہ ہیں جو غلطی کرتے ہی نہیں ہیں اور ہر حال میں اللّٰہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں اس لیے انکی تنبیہہ کی کوئی آیت قرآن میں نہیں ہے مگر ازواجِ رسول ایسا نہیں کرتی ہیں ثبوت کے لیے صورتِ تحریم ہے۔

خلافت و امامت کا اختیار

1. خلافت اور امامت اللہ کے اختیار میں ہے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:"إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً" (سورہ البقرہ: 30)"بے شک میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں۔"

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ خلافت و امامت کا تعین اللہ تعالیٰ خود کرتا ہے، یہ اختیار نہ کسی نبی کو دیا گیا اور نہ امت کو۔ فرشتوں کے مشورے کو بھی خدا قبول نہیں کرتا۔

حضرت آدم علیہ السلام کے خلیفہ بنائے جانے کے بارے میں ہے، جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ وہ زمین پر اپنا خلیفہ بنائے گا، تو فرشتوں نے اعتراض کیا کہ وہ خونریزی اور فساد کرے گا۔

"وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌۭ فِى ٱلْأَرْضِ خَلِيفَةًۭ ۚ قَالُوا۟ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ ٱلدِّمَآءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۚ قَالَ إِنِّىٓٓ أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ"(سورہ البقرہ: 30)"اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: "میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔" تو انہوں نے کہا: "کیا تو اس میں ایسا شخص بنائے گا جو زمین میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا، جبکہ ہم تیری تسبیح اور تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں؟" اللہ نے فرمایا: "بیشک میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔"

فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کے انتخاب کے وقت سوال کیا کہ زمین پر فساد اور خونریزی کرے گا، اللّٰہ نے فرشتوں کے اعتراض اور مشورے کو سن ضرور لیا مگر یہ بھی بتا دیا کی ہم مشورہ نہیں لیتے اور مشورے سے خلیفہ نہیں بناتے اور ہمارا بنایا ہوا خلیفہ قتل غارت گری فساد یا برائی کر ہی نہیں سکتا کیونکہ اللّٰہ اُسے علم دے کر بھیجتا ہے اور اللّٰہ کا خلیفہ علم میں افضل ہونے کی بنیاد پر بنتا ہے۔

سورہ بقرہ کی 31 آیت:"وَعَلَّمَ ءَادَمَ ٱلْأَسْمَاءَ كُلَّهَاۖ ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى ٱلْمَلَـٰٓئِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِى بِأَسْمَاءِ هَٰٓؤُلَآءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ١"(سورہ البقرہ: 31)ترجمہ: "اور اللہ نے آدم کو تمام اسماء سکھائے، پھر ان اسماء کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: "اگر تم سچے ہو تو مجھے ان چیزوں کے نام بتاؤ۔"

فرشتے نام نہیں بتا سکے تو اللّٰہ نے آدم سے نام بتانے کو کہا۔

حضرت آدم علیہ السلام نے وہ نام بتا دیے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں، اور فرشتوں نے اللہ کے حکم کو قبول کیا۔

"قَالُوا۟ سُبْحَٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَآ ۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْحَكِيمُ"(سورہ البقرہ: 32)ترجمہ:"انہوں نے کہا: "پاک ہے تو، ہمیں کوئی علم نہیں مگر جو تُو نے ہمیں سکھایا۔ بے شک تُو ہی دانا حکمت والا ہے۔"

اس کے بعد اللہ نے حضرت آدم سے فرشتوں کو نام بتانے کو کہا۔

"قَالَ يَا ءَادَمُ أَنبِئْهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ ۚ فَلَمَّاۤ أَنبَأَهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ إِنِّيٓ۟ أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ"(سورہ البقرہ: 33)ترجمہ: "اللہ نے فرمایا: "اے آدم! تم ان کو ان کے نام بتاؤ۔" جب حضرت آدم نے ان کے نام بتا دیے، تو اللہ نے فرمایا: "کیا میں نے تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ مجھے آسمانوں اور زمین کا غیب معلوم ہے اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو، وہ بھی مجھے معلوم ہے؟"

اس مقام پر اللہ نے حضرت آدم کی تعلیم اور علم کو واضح کیا اور اس کے بعد فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کیا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے فرشتوں کے بیچ آدم کے علم کو ثابت کر کی بتا دیا کی اللّٰہ کا بنایا ہوا خلیفہ فرشتوں سے زیادہ علم رکھتا ہے اور اللّٰہ علم میں سب سے افضل کو ہی اپنا خلیفہ بناتا ہے ۔

2. حضرت ابراہیمؑ کی دعا اور اس کی قبولیت

حضرت ابراہیمؑ نے دعا کی:"وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا" (سورہ الفرقان: 74)"اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے۔

"وَإِذِ ابْتَلَىٰٓ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُۥ بِكَلِمَٰتٍۢ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًۭا ۚ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِى ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِى ٱلْظَّٰلِمِينَ"(سورہ بقرہ: 124)ترجمہ:"اور یاد کرو جب اللہ نے حضرت ابراہیم کو چند باتوں سے آزمایا، پھر وہ ان میں کامیاب ہو گئے، تو اللہ نے فرمایا: "میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔" حضرت ابراہیم نے عرض کیا: "تو کیا میری نسل میں بھی امام بنائے گا؟" اللہ نے فرمایا: "میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔"

یہ آیت بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امامت کا منصب عطا کیا۔ پھر حضرت ابراہیم نے اپنی نسل میں امامت کے بارے میں سوال کیا، تو اللہ نے جواب دیا کہ انسانوں کی امامت یا خلافت کا منصب ظالموں کو نہیں دیا جائیگا ۔

"رَبَّنَا وَجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةًۭ مُسْلِمَةًۭ لَّكَ ۖ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلتَّوَابُ ٱلرَّحِيمُ"(سورہ بقرہ: 128)ترجمہ:"اے ہمارے رب، ہمیں اپنا فرمانبردار بنا، اور ہماری نسل سے بھی ایک ایسی امت پیدا کر جو تیری فرمانبرداری کرے، اور ہمیں ہمارے مناسک دکھا، اور ہمیں معاف کر۔ بے شک تو ہی توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔"

حضرت ابراہیم نے اپنی نسل میں ایک گروہ کو ہمیشہ دین ابراہیمی پر قائم رکھنے کی دعا کی اور اُسی پاک نسل میں رسول کو مانگا۔

"رَبَّنَا وَٱبْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًۭا مِّنْهُمْ يَتْلُوا۟ عَلَيْهِمْ ءَايَٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلْكِتَٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ"(سورہ بقرہ: 129)ترجمہ:"اے ہمارے رب، ان میں سے ایک رسول بھیج جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے، انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، اور ان کے نفوس کو پاک کرے۔ بے شک تو غالب اور حکمت والا ہے۔" حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اپنی نسل کے پاک اور پاکیزہ سلسے میں رسول اللہ کو مانگا اور رسول اللہ ﷺ کو اللّٰہ نے اس کی تکمیل کے طور پر بھیجا۔

سورہ جمعہ کی آیت 2 میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی قبولیت کا ذکر مندرجہ ذیل ہے:"هُوَ ٱلَّذِى بَعَثَ فِى ٱلْأُمِّيِّۦنَ رَسُولًۭا مِّنْهُمْ يَتْلُوا۟ عَلَيْهِمْ ءَايَٰتِهِۦ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلْكِتَٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا۟ مِنْ قَبْلُ لَفِى ضَلَٰلٍۢ مُّبِينٍۢ"(سورہ جمعہ: 2)ترجمہ:"وہی اللہ ہے جس نے اُمیّوں میں ایک رسول بھیجا، جو اُنہیں اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے، اور ان کے نفسوں کو پاک کرتا ہے، اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔"

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کی اُسنے جناب ابراہیم کی دعا کے نتیجے میں حضرت محمد ﷺ کو بھیجا، جنہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے مطابق لوگوں کو کتاب (قرآن) اور حکمت (دینی علم) کی تعلیم دی اور ان کے نفوس کو پاک کیا۔

جناب ابراہیم کی دعا اور اللّٰہ کا جواب کی انسانوں کی امامت خِلافت یا نبوّت کا منصب ظالمین کو نہیں ملے گا وہ صرف جناب اِبراھیم کی زرّیت میں صرف اُنکو ہی ملےگا جو ظلم سے دور رہے پاک اور پاکیزہ رہے یعنی جنکے قریب رجس جا ہی نہیں سکتا اور جو ہر حال میں اللّٰہ اور رسول کے فرما بردار رہے اور وہ رسول اللہ کے اہلبیت ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے بعد خلافت و امامت کے اصل حق دار ہیں۔

خلافت کے شرائط: تقویٰ، علم اور جسمانی طاقت

1. تقویٰ سب سے بڑا معیار ہے

"إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ ٱللَّهِ أَتْقَىٰكُمْ" (سورہ الحجرات: 13)

"اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔"

2. علم اور جسمانی طاقت لازمی ہے

جب بنی اسرائیل نے بادشاہ کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت طالوت کو منتخب کیا اور فرمایا:"إِنَّ ٱللَّهَ ٱصْطَفَىٰهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُۥ بَسْطَةًۭ فِى ٱلْعِلْمِ وَٱلْجِسْمِ" (سورہ البقرہ: 247)

"اللہ نے طالوت کو تم پر منتخب کیا ہے اور اسے علم اور جسمانی طاقت میں فضیلت دی ہے۔"

یہ آیت ثابت کرتی ہے کہ خلافت کے لیے علم اور جسمانی طاقت لازمی شرط ہے۔

اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلے نہ کرنے والے خلیفہ یا حکمران

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:1. "وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُو۟لَـٰئِكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ" (سورہ المائدہ: 45)"جو اللہ کے نازل کردہ فیصلے کے مطابق فیصلہ نہ کرے، وہی ظالم ہیں۔"

2. "وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُو۟لَـٰئِكَ هُمُ ٱلْفَـٰسِقُونَ" (سورہ المائدہ: 47) "جو اللہ کے نازل کردہ فیصلے کے مطابق فیصلہ نہ کرے، وہی فاسق ہیں۔"

3. "وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُو۟لَـٰئِكَ هُمُ ٱلْكَـٰفِرُونَ" (سورہ المائدہ: 44)"جو اللہ کے نازل کردہ فیصلے کے مطابق فیصلہ نہ کرے، وہی کافر ہیں۔"

سورہ النساء کی آیت 58 میں اللہ تعالیٰ نے حکمرانی کے اصول بتائے ہیں۔

"إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا"ترجمہ:"اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے اہل کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو، اللہ تمہیں اس بات کی بہت اچھی نصیحت دیتا ہے، بیشک اللہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔"

اس آیت میں اللہ نے حکمرانوں کو عدل و انصاف سے کام لینے کا حکم دیا ہے جسکا مطلب حکمران کا عادل ہونا بہت ضروری ہے۔یہ اصول خلافت اور حکمرانی کے لئے انتہائی اہم ہے۔

اللّٰہ نے قرآن میں یہ بھی بتا دیا کی اللّٰہ جسے خلیفہ بنائے گا تو وہ ایسا ویسا نہیں ہوگا جیسے وہ پہلے علم جسم عدل و انصاف اور تقوے میں افضل لوگوں کو بنا چکا ہے اللّٰہ جسے رسول کے بعد خلیفہ بنائے گا تو اس میں یہ ساری شرائط ہونی چاہئے ۔

حدیثِ رسول ﷺ اور بارہ خلفاء

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"میرے بعد بارہ خلفاء ہوں گے، سب قریش میں سے ہوں گے" (صحیح مسلم، حدیث 1821)

یہ حدیث واضح طور پر بتاتی ہے کہ خلافت و امامت کا تسلسل بارہ افراد پر مشتمل ہوگا، جو قریش (یعنی اہلِ بیت) میں سے ہوں گے۔

نماز میں آلِ محمد پر درود بھیجنا

نماز میں درود پڑھتے وقت ہم کہتے ہیں:"اللهم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد"

یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آلِ محمد کی فضیلت اور برتری ہمیشہ قائم رہے گی، اور اللہ نے خود اہلِ بیت کی عظمت کو تسلیم کیا ہے۔

نتیجہ

خلافت اللہ کے حکم سے ہوتی ہے، کسی انتخاب یا طاقت کے زور پر نہیں۔

نبی ﷺ کے بعد خلافت اہلِ بیت میں جاری رہی۔

حقیقی خلیفہ وہی ہوگا جو تقویٰ، علم، عدل اور جسمانی طاقت میں سب سے افضل ہو۔

"وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۗ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡفَٰسِقُونَ"ترجمہ:"اللہ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں زمین پر خلافت دے گا، جیسے اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلافت دی تھی، اور وہ ان کے لیے اس دین کو مستحکم کرے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے، اور ان کے خوف کے بعد انہیں امن عطا کرے گا، وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوں گے، اور جو اس کے بعد کفر کرے گا، وہ فاسق ہوں گے۔"

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں زمین پر اُسی طرح سے خلافت دے گا جیسے اس نے پچھلے لوگوں کو دیا ۔ ایت بتا رہی ہے کی پچھلے لوگو کی طرح ہی بنائیگا یعنی جو کوالٹی حضرت آدم،حضرت طالوت،حضرت ابراہیم میں پائی جاتی ہے یعنی جو شرک،ظلم،سے دور رہے علم میں جسم میں تقوے میں عدل انصاف میں افضل تھے ویسے ہی اللّٰہ اور رسول کے بنائے ہوئے خلیفہ میں بھی ساری خصوصیات پائی جائیگی۔

اور یہ تمام خصوصیات صرف اہلبیت کے 12 اماموں میں ہی پائی جاتی ہیں کوئی بھی قرآن کی شرط پر ان 12 کو چک کر سکتا ہے۔

بارہ خلفاء کی پیش گوئی رسول اللہ ﷺ نے خود کی، جو اہلِ بیت میں جاری رہی۔

اہلبیت کی گارنٹی قرآن نے دی ہے کی کسی طرح کی برائی اُنکے قریب جا ہی نہیں سکتی۔

رسول اللہﷺ کی حدیث اور اہلِ بیت کی امامت

رسول اللہﷺ نے فرمایا:1. "جس کا میں مولا ہوں، اس کے علی مولا ہیں" (حدیثِ غدیر)

2. "میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں: قرآن اور میری اہلِ بیت، یہ دونوں قیامت تک جدا نہیں ہوں گے"۔

یہ احادیث واضح کرتی ہیں کہ خلافت و امامت کا تسلسل اہلِ بیت میں ہے، کیونکہ وہی قرآن کے اصولوں پر پورے اترتے ہیں۔

نتیجہ: خلافت کا اصل معیار

1. اگر کوئی شخص علم، عدل، تقویٰ، اور صالح عمل میں سب سے افضل نہ ہو، تو وہ اللّٰہ اور رسول کی طرف سے خلیفہ نہیں ہوسکتا۔

2. اگر کوئی خلیفہ قرآن کے احکام کے خلاف حکمرانی کرے، تو وہ خلیفہ یا امام نہیں بلکہ ظالم، فاسق اور کافر ہے۔

3. قرآن کے مطابق، خلافت زبردستی، سازش یا وصیت یا کسی کمیٹی کے ذریعے حاصل نہیں کی جاسکتی۔

4. حقیقی خلفاء وہی ہوں گے جو قرآن و سنت پر مکمل عمل کریں،

5. تاریخ میں بہت سے حکمران آئے، لیکن قرآن کی شرائط کے مطابق، خلیفہ وہی ہیں جو علم، عدل اور تقویٰ میں سب سے افضل ہوں۔

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے 12 اماموں کی پیش گوئی فرمائی، جن میں پہلے حضرت علیؑ اور آخری امام مہدیؑ ہیں۔

آخری بات

نماز میں ہم آلِ محمد پر درود بھیجتے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ خلافت محمدﷺ کے بعد آلِ محمد میں ہی ہے۔

لیکن امت نے ہمیشہ آلِ محمد سے روگردانی کی، جس کا نتیجہ آج تک بھگتا جا رہا ہے۔

اللہ ہمیں قرآن کی روشنی میں خلافت و امامت کو سمجھنے اور ہمیں اللّٰہ اور رسول کے بنائے ہوئے 12 اماموں کو ماننے اور اُنکے سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

یہاں کچھ اہم کتابوں کے حوالے دیے جا رہے ہیں جہاں آپ کو اس حدیث کا ذکر ملے گا:

1. صحیح مسلم: یہ حدیث صحیح مسلم کی کتاب "الامارة" کے باب میں آئی ہے۔ یہاں پر حدیث میں ذکر ہے کہ "میری امت کے بارہ خلیفہ ہوں گے، اور یہ سب قریش سے ہوں گے۔"

2. صحیح بخاری: صحیح بخاری میں بھی اس مضمون کی حدیث موجود ہے، اگرچہ وہ لفظی طور پر مختلف ہو سکتی ہے، لیکن اسی مفہوم کی حدیث ہے جو خلافت اور قریش کے بارے میں ہے۔

3. مسند احمد بن حنبل: امام احمد بن حنبل کی "مسند" میں بھی اس حدیث کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں پر زیادہ وضاحت سے ذکر کیا گیا ہے کہ یہ بارہ خلیفہ دین کی رہنمائی کے لیے ہوں گے۔

4. ابن ماجہ: ابن ماجہ کی سنن میں بھی اس طرح کی حدیث ملتی ہے، جس میں خلافت اور قریش کے ذکر کی تصدیق کی گئی ہے۔

5. الطبقات الكبرى (ابن سعد): ابن سعد کی "الطبقات الكبرى" میں اس حدیث کا ذکر اس طریقے سے ہے کہ بارہ خلیفہ مسلمانوں کی قیادت کریں گے اور ان کا تعلق قریش سے ہوگا۔

6. الشرح المحرر (ابن قدامہ): اس کتاب میں بھی اس حدیث کی تفسیر اور اس کے مختلف پہلوؤں پر بحث کی گئی ہے، خاص طور پر اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ خلافت قریش سے ہی آئے گی۔

یہ احادیث مختلف کتابوں میں موجود ہیں، اور ان کا مقصد امت کی قیادت کے لیے اللہ کی طرف سے ایک خاص طریقہ کار کی نشاندہی کرنا ہے۔

یاد رکھیے یہ 12 خلیفہ اہلبیت کے 12 امام ہیں جنمیں وہ تمام کوالٹی جو قرآن نے بتائی ہے وہ سب موجود ہیں ۔

نماز میں محمد کے فورًا بعد آلِ محمد پر درود پڑھنا خلافت کے تسلسل کی واضح دلیل ہے۔

اللهم اجعلنا من أتباع أهل البيت ووفقنا لفهم القرآن وأحكامه، آمين۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha