جمعہ 21 فروری 2025 - 10:11
مختصر تعارف حضرت شہ میراں رحمہ اللہ تعالی علیہ

حوزہ/ 22 شعبان المعظم روز ولادت با سعادت حضرت حسین اصغر رح کے پر مسرت موقع پر مختصر سا تعارف برائے خراج عقیدت حاضر ہے تاکہ قارئین کرام کے ذوق مطالعہ میں وسعت پیدا ہو سکے اور اک شہید راہ خدا کی عظمتوں سے واقف ہونے کی سعی بلیغ کی جا سکے۔  

تحریر: مولانا گلزار جعفری، تاراگڑھ اجمیر

حوزہ نیوز ایجنسی | 22شعبان المعظم روز ولادت با سعادت حضرت حسین اصغر رح کے پر مسرت موقع پر تبریک و تہنیت پیش کرتے ہیں اور یہ مختصر سا تعارف برایے خراج عقیدت حاضر ہے تاکہ قارءین کرام کے ذوق مطالعہ میں وسعت پیدا ہو سکے اور اک شہید راہ خدا کی عظمتوں سے واقف ہونے کی سعی بلیغ کی جا سکے۔

آپ کا نام‌ نامی اسم گرامی حضرت حسین اصغر المشتہر بحضور پر نور میراں سید حسین خنگسوار مشہدی نور اللہ تعالی مرقدہ الشریف، آپ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی جناب بی بی ہاجرہ علیھا الرحمہ تھا جنکا خاندان علمی اور معنوی فضایل و کمالات کا مرقع تھا۔آپ کے والد ماجد حضرت سید ابراہیم محدث رحمہ اللہ تعالی تھےآپ اک جلیل القدر عالم با عمل ،نیک و متقی تھے علم روایہ اور درایہ پر مکمل دسترس رکھتے تھے آپ مشہور زمانہ محدث بھی تھے خاندانی شرافت و شہامت کے حامل تھے۔

آپ کے خانہ مقدس میں جب بی بی ہاجرہ کےگلشن تمناء پر ایک حسین گل کھلا اور آپ کے باغ عقیدت میں وہ بہار آءی جسکے بعد خزاں کا کوءی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا،جب ایک سفید پارچہ میں لپیٹ کر شجاعتوں کے پیکر کو آپ کی آغوش معرفت میں دیا گیا تاکہ رسمی طور پر اذان و اقامت کہی جایے،عجب نہیں محدث محترم نے نگاہوں سے نگاہیں ملایی ہوں محدث نے مبلغ کے چہرے کے نقوش کا مطالعہ کیا آنکھوں کی چمک میں حوصلوں کی استقامت نظر آءی ہوگی، پیشانی کی وسعتوں میں موجود شکنیں شکست دشمن کا اعلان کر رہی ہوں گی،ننھی ننھی پلکوں کا حجاب چھپک جھپک کر سلامی بھر رہا ہوگا، مبلغ کی قوت شامہ محدث کے گلشن علم کو سونگھ کر لذت علم سے آشنا ہو رہی ہوگی، رخساروں کا گلابی پن بڑھ کر اسلام کی سوکھی رگوں میں لہو پلانے کا عہد وپیمان کر رہا ہوگا۔

ادھر شہسوار ابھی دست پدر پر سوار ہےہاتھوں کی مٹھیاں کھلی دست میراں نے انگشت ابراہیم علیہ الرحمہ کو تھاما بچہ کی فطرت کا تقاضا پورا کیا شجاعتوں کے امین نے دست محدث کی متحرک قلم تھامنے والی انگلیوں کو چوما بھی اور چوسا بھی تاکہ اسلامی روایات کے قلمکار والی انگلیوں سے وہ شیرینی حاصل کرلیں جس سے صبر و ضبط کو اپنے سینۂ میں جذب کر لیں، ادھر بچہ کی تڑپ اسکا چنچل پن ایک اشارہ تھا اس طوفان کا جو خاموشی کے نہاں خانوں سے جھانکا جا سکتا ہے چونکہ شہ میراں کی پر سکون‌آنکھوں کی چمک آپکے روشن مستقبل کی تلمیح تھی، پلکوں کا حجاب سرمہ گیں آنکھوں کا حسن‌مزید بڑھا رہا تھا۔ادھر حضرت محدث اپنے بیٹے کی آنکھوں میں اپنا بچپن دیکھ رہے تھے ادھر شہ میراں اپنی جوانی کا عکس عکیس چہرہ نورانی پدر میں دیکھ رہے تھے گویا باپ بیٹے اپنے ماضی و مستقبل کو حال کے آءینہ میں دیکھ رہے تھے۔

چشم و ابرو کے اشارہ کی جب یہ دیدہ وری پایے تکمیل کو پہونچی اور لمحوں نے تصورات میں صدیوں کا سفر مکمل کیا توحضرت محدث نے داہنے کان میں آ ہسثہ سے صدای ثکبیر بلند کی حضرت شہ میراں کے پورے وجود میں اک بجلی سے دوڑ گءی برق رفتاری سے عقیدہ توحید پورے روحانی وجود میں سرایت کر گیا چار تکبیروں نے چاروں جانب سے پرچم توحید بلند کرنے کا عہدو پیمان اپنے خاندانی شیروں کی مانند کیا کلمہ شہادتین پوری متانت و سنجیدگی کے ساتھ سنا مگر جیسے ہی ولایت کا اعلان کانوں سے ٹکرایا لبوں پر تبسم کا نغمہ جاری ہوا زیر لب مسکراہٹ نے ولایت کی پاسبانی کا وعدہ کر لیا اس شہر مقدس مشہد سے جو ولایت کا اعلان سنا ہے اسے ریگزاروں میں نہ پہونچا دوں تو میں قدم بوس نبیرہ حیدر کرار نہیں۔

فرات کی موجوں پر تشنگی میں علم دادا نے گاڑا ریگزاروں میں کوہساروں میں شدت تشنگی میں پرچم توحید لہرا کر غازی سے دادو تحسین لینے لگے جس جری نے ضبط نفس کا امتحان تشنگی کے صحرا میں دیا آب رواں کے چہرہ پر چلو بھر پانی مار کر فرات کے جسم کو چلو بھر پانی میں ڈوبو دیا اس ذات کے خاک قدم کو جو سرمہ بنا لے اسکا حق ہیکہ وہ شہسوار بھی ہو اور تاجدار شہداء ء ہند بھی۔

جو بریدہ بازوں کا صدقہ اپنے کاسہ گداءی میں لے لے اسکا حق ہیکہ وہ شہید اعظم در ہند کا لقب پایے ایک مشہور کہاوت ہے محاورہ ہے۔

پوت کے پیر تو پالنے ہی میں نظر آجاتے ہیں

حضرت محدث نے اذان و اقامت کہتے کہتے پوری حیات کا نقشہ جسم کے نشیب و فراز میں دیکھ لیا سر اقدس پہ تاج المقربین سجا ہوا ہے۔

قدموں میں قدوة السالکین

عزم و ارادہ میں برہان الواصلین

چہرہ کا نور کہہ رہا تھا کہ یہی نور آلہی ہے

بازوؤں کی قوت شہسواری کا اعلان تھا ہاتھوں کی مٹھیاں خنگسواری کا منظر پیش کر رہی تھیں گویا پورا سراپا اک مجاہد و غازی کا تھا حضرت محدث نے اپنی آغوش تربیت میں اس طرح پروان چڑھایا کی بچپن سے ہی حفظ قرآن مجید کی تعلیم دی اسلے آپ حافظ بھی ہو ءیے اور محافظ بھی اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تھا کہ حضرت روشن علی درویش کی فریاد و استغاثہ سنا اور بحر امداد چل پڑے سہرے کی لڑیوں کو ، پھولوں کو، کلیوں کو،جوانی کی امنگوں کو حسرتوں کے گلشنوں کو ، آرزوؤں کے باغ و بہار کو اور خواہشوں کے سمندروں کو قربان کر کے اپنے سر کو راہ خدا میں پیش کرنے کے لیے چل پڑے صنم کدہ ہند میں اذان دینے کے لیے ہجرت کا آغاز کیا بچپن میں جس تکبیر کی آواز سے جسم میں لرزہ ہوا تھا اب دشمن کو لرزا براندام کرنے کا وقت آن پہونچا تھا سیرت حضرت قاسم بن حسن علیہ السّلام پر عمل کرتے ہویے غازیان اسلام کے ہمراہ شادی کی تقریب چھوڑ کر شہادت کی چوکھٹ پر عازم سفر ہو گیے اور سندھ کی وادی سے ہوتے ہویے راجستھان کے ریگزاروں میں گلشن اسلام کھلانے کو آگیے اور اپنی شجاعانہ تبلیغ سے ہزاروں لوگوں کو مشرف با اسلام کیا،صبر وضبط،حسن‌ اخلاق ،حسن کردار ،حسن‌ گفتار ،حسن رفتار ، حسن نظر ،پرہیز گاری ،تقوی و تقدس ،ایمانداری ،عقیدوں کا استحکام ، غریبوں کا خیال ، مظلوموں اور حق پرستوں کا ساتھ دینا کمزوروں اور ناتواں پر رحم و کرم ، علم کی جانب پیش رفت ، بزرگوں کا احترام ،عقاید کی حفاظت ،پرچم توحید کی بلندی ،محبت اہلبیت اشاعت ،عزاءحسینی کی ترویج، ان تمام باتوں کی تعلیم و تربیت آپ ہمیشہ کرتے رہے۔

آج ان کے در کے فقیروں کی ذمہ داری ہیکہ آپ کی سیرت طیبہ پر چلیں۔

سرکار شہ میراں رح کو ناچ گانا ،ہلڑ ہنگامہ ، ساز و ترنگ ، ڈھول ڈھماکہ ،لہو لعاب ، لوٹ مار ، فریب و حیلہ ،سوزش و سازش ، ظلم و ستم ، دھوکہ دھڑی ، بے ایمانی ، قمار بازی ، حرام خوری ، چوری چکاری ، بد اخلاقی ،بد دیانتی ،بد کاری ،بد زبانی جیسے تمامتر صفات رذیلہ سے سخت نفرت تھی۔

ہمیں کوشش کرنا چاہیے کی اطاعت کا فریضہ انجام دیں آقا کو جو پسند ہے اسے رایج کریں جو نا پسند ہے اس سے بچیں۔

روز ولادت کی عیدی یہی ہیکہ سرکار کے بتایے ہویے راستہ پر چلیں انکی قربانیوں کو ہر گز فراموش نہ کریں عید کا مقصد صرف آتش بازی نہ ہو بلکہ اپنی نا جایز خواہشوں کو بھی اسی آتش میں بھسم کردیں رنگین پٹاخوں کے ساتھ رنگین مزاجی کو بھی جلادیں ، خیال رکھیں پٹاخوں کی آواز کی گھن گرج میں کسی غریب کی آواز نہ دب جایے ، شہرت کے حصول کی دہلیز پر شریعت کی پاءمالی نہ ہو جایے آسمان میں رنگ برنگ کی آتش بازی سے عید کا پیغام جایے تو کردار کی بلندی سے غلامی کا حق ادا کیا جایے اگر دور دراز کے علاقوں کو اس طرح خبردار کرنے کا ارادہ ہے تو پھر سال بھر اس بھرم کو بھی بر قرار رکھیں کی ہم خادم شہید راہ خدا ہیں ہم رہبران قوم ہیں رہزن نہیں، خادم ہیں ظالم نہیں ، حق پرست ہیں حق مخالف نہیں ، علم دوست ہیں علم دشمن نہیں ہم اس در کے غلام ہیں جہاں۔

شاہوں کو اذن کفش برداری نہیں ملتی

اپنی عظمت پہ رشک کیا کرو کے یہ رشک مسیحا کا آستانہ ہے ملک طواف کریں ،فرشتہ سلامی دیں ، نجف و کربلا کی خوشبووں کا صدقہ جس مزار جلی پر آتا ہو اس دربار ولی کو فرزند علی علیہ السلام،حسین اصغر نور اللہ مرقدہ کہتے ہیں۔

مختصر تعارف حضرت شہ میراں رحمہ اللہ تعالی علیہ

حضرت حسین اصغر الملقب شاہ میراں سید حسین خنگسوار مشہدی نور اللہ مرقدہ کے القاب مطہرات

جناب حاجی ماسٹر شاہد حسین ص مرحوم نے اپنی کتاب شعاع خنگسوار میں آپ کے القابات لکھیں ہیں جنکی ہم یہاں مختصر وضاحت کریں گے تاکہ عصر رواں میں ان مطالب کو سمجھایا جا سکے جو القاب کے دفتر میں فضایل کے سمندر موجود ہیں جن سے عظمت شاہ میراں کسی حد تک سمجھی جا سکتی ہے جسکی معرفت اہل خرد کے لیے ضروری ہے تاکہ اس شخصیت کی عظمت سے ضرور واقفیت ہو جایے جس نے سب سے پہلے مملکت ہند میں پرچم عزا کو بلند کیا یا کم از کم یہ تو ماننا ہے ہوگا کہ راجستھان کے ریگزاروں میں گلشن عزا کھلا کر اپنے آنسوؤں سے زمین مودت کی سیچاءی کی اور انھیں پروان چڑھایا یہ عنوان تفصیل طلب ہے لہذا حوالاجات کے ساتھ کسی اور موقع پر قلم بند کیا جاءیگا فی الحال آپ کے القاب کچھ اس طرح سے ہیں۔

زبدة العارفین ، قدوة السالکین

برہان الواصلین ،تاج المقربین و المحققین ،نور آلہی ، نبیرہ حیدر کرار ع ،شہسوار، خنگسوار

تاجدار شہداء ہند ، رشک مسیحا

شہید اعظم در ہند

کسی بھی شخصیت کی عظمت ورفعت ،نجابت و شرافت ، فصاحت و بلاغت ، کمال و جمال، عروج و معراج، بلندی و ارتقاء ،علم کی وسعت ،عزم و عزیمت ،ارادہ میں صلابت ، قیام میں استقامت ، اخلاقیات میں رعایت ، علم و آگہی ،شعور و فکر، بصارت و بصیرت ،عشق ،و شغف ، محبت رسول ،اجر مودت، اہلبیت کے عشق کا اندازہ لگانا ہو تو اسکی حیات طیبہ کے نقوش کا جایزہ لیا جایے تاکہ اسکے چھوڑے ہویے قدموں کے نشان کی اقتداء کی جا سکے اور غبار قدم کے ذرات کو آنکھوں سے لگایا جا سکے تاکہ سرمہ گیں آنکھوں سے معرفت شہید کا ادراک کرنے کی روش پر رہوار شعور کو مہمیز کرنے کی سعی محکم کی جا سکے تاکہ ایک شہید کی عظمت کو سمجھنے میں کسی حد تک مدد ہو سکے۔

زبدةالعارفین: رب کاینات کی معرفت رکھنے والوں کی کریم، زبدہ کریم کو کہتے ہیں جب دودھ کو پھینٹ پھینٹ کر اسمیں سے مکھن نکال لیا جاتا ہے تو اسے عربی زبان میں زبدہ کہتے ہیں یعنی مکھن،اب لفظ زبدة العارفین کو یوں سمجھ لیجیے کی سبھی معرفت کی اعلی منزلوں پر فایز ہیں مگر ہندوستان میں آپ کی ذات والا صفات کو ہی زبدة العارفین کہا گیا ہے اس سے آپ کی شخصیت کی بلندی کا کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

قدوةالسالکین: سلوک الی اللہ یعنی اللہ کی جانب لے جانے والا راستہ سالک معرفت میں راہ خدا پر چلنے والے کو کہتے ہیں سالکین سالک کی جمع ہے۔

اب لقب کا کلی مطلب یہ بنا کہ آپ ان لوگوں کے لیے باعث قیادت و رہبری ہیں آپ ان کے لیے ایک قاید و ربر کی حیثیت رکھتے ہیں جو راہ خدا پر چلنے والے ہیں یقینا شہر مشہد مقدس سے سالکین الی اللہ کا جو کارواں غازیان اسلام کی شکل میں نکلا تو ان بادلوں میں بحیثیت شمس و قمر ، یا نجم و کوکب کا استعارہ تھی آپ کی ذات اقدس جو راہنماءی کے ساتھ ساتھ تقویت قلوب سالکین کا مظاہرہ کرہی تھی گویا آپ کے چہرہ اقدس کی ضیاووں سے غازیان اسلام راحت و سکون کے ساتھ سلوک الی اللہ کی جانب رواں دواں تھے آپ ان تاریک راہوں میں ان نورانی وجود غازیان اسلام کے لیے مشعل راہ تھے۔

برہان الواصلین: عربی زبان میں دو لفط استعمال ہوتے ہیں معرفت کی راہوں کی معنویت کو اجاگر کرنے کے لیے ایک کی تفصیل گزر گءی سلو ک الی اللہ، دوسرا وصول الی اللہ، یعنی اللہ تک پہونچنا آپ سالکین کے لیے قدوہ و قوت ہیں تو واصلین کے لیے برہان و دلیل ہیں برہان یعنی وہ معنوی دلیل جس کے ذریعہ سے انسان منزل مقصود تک رساءی حاصل کرتا ہے اگر راہ میں روشنی نہ ہو تو انسان تاریکیوں میں بھٹکتا رہتا ہے تو جس طرح عام راہ گیر کو شب ظلمت میں شمع فروزاں کی ضرورت ہے اسی طرح وصول الی اللہ کے لیے کسی برہان کی ضرورت تھی لہذا مجاہدین اسلام در ہند کے لیے باعث برہان آپ کی ذات معتبر قرار پائی۔

تاج المقربین والمحققین: سلوک یعنی راہ پیماءی

وصول یعنی پہونچ جانا, اب تیسرا مرحلہ ہے پہونچ کر مدارج قرب خدا وندی کو پا لینا جو اسکے قرب کو پانے والے ہیں وہ بہت عظیم ہیں مگر اسکی عظمت و جلالت کا کیا کہنا جو انکے لیے تاج کرامت بن جایے،تاج سلطان کے سر پر وہ مقدس پوشاک ہوتی ہے جو انکی عزت و عظمت کا معیار ہوتی ہے یہاں پر اس لقب میں تاج معنویت کا ہے اور اشارہ عظمتوں کی معراج کا ہے فرزندان توحید جو اس صنم کدہ ہند میں اذان دینے کے محکم ارادہ سے نکلے تھے پرچم توحید کو لہراتے ہویے سلوک وصول اور قرب کے درجات معنویات کو آہستہ آہستہ طے کرتے چلے جا رہے تھے ان سب کے لیے تاج نگین در یاقوت تھے ہمارے آقا و مولا حضور بر نور حسین اصغر رحمت اللہ علیہ اور اسی طرح تحقیق کرنے والوں کے لیے بھی تاج کرامت تھے۔

نور آلہی: آپ کے القاب میں یہ لقب جس معنوی کمال کی جانب اشارہ کرہا ہے وہ عصمتوں عفتوں نبوتوں امامتوں ولایتوں قیادتوں کا آءینہ دار ہے مگر یہ سارے درجات آقاووں کے ہیں اور آپ ان سب کے نقش قدم پر چلنے والے خادم و غلام کی حیثیت رکھتے ہیں مگر راہ انقلاب اور پرچم توحید کی آبرو بچانے کے لیے جو عظیم ذمہ داری اپنے نحیف و ناتواں کاندھوں پر اٹھاءی ہے وہ کار انبیاء و اولیاء و اوصیاء ہے شاید اسی لیے تاریخ کے سنہرے صحیفوں میں یہ القاب درج کیے گیے ہیں جن سے اک شہید کے رتبہ کا اندازہ ہو جایے نور آلہی یعنی خدا کا نور ظاہر ہے کہ سالکین ،عارفین ،واصلین ،مقربین و محققین سب کا ملجاو ماواں ذات حکیم علی الاطلاق ہے سبکی باز گشت نور ازلی کی جانب ہے اور آپ کو اس نور کا اثر قرار دیا گیا ہے اگر قلم پر غلو کا الزام نہ لگتا تو نور آلہی کی وضاحت میں معرفت کے دریا بہا دیتا بس فکر کی حدیں محدود ہیں اور آقا کی فضیلتیں لا محدود ہیں اور یہی سے آل محمد علیہم السلام کی عظمتوں کا اندازہ لگاءیں جب نعلین بردار آل رسول کی عظمتیں قابل ادراک نہیں تو بھر انکی کجا۔

نبیرہ حیدر کرار: نبیرہ غالبا فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی بیٹے کے ہیں اور یقینا کءی واسطوں کے بعد آپ فرزند ارجمند حیدر کرار ہیں اور کیوں نہ ہوکہ راہ وفا کا سبق جس نے حیات حضرت عباس ابن علی ع سے پڑھا ہو صبر و ضبط کا کلمہ حسن‌ مجتبی ع سے بڑھا ہو ,عزم و حوصلہ کی راہ رسالت مآب سے سیکھی ہو ذکر و فکر حضرت صدیقہ طاہرہ کی حیات طیبہ سے سیکھا ہو راہ انقلاب میں ایک آہنی دیوار ہو کر کاروان غازیان کے میر کارواں بن کر رہنماءی کا ہنر حسین ابن علی ع سے حاصل کیا ہو قوت و طاقت شجاعت وہمت ،شہامت و جواں مردی جس نے بارگاہ ولایت سے اپنے کاسہ گداءی میں سمیٹی ہو اس ذات کا حق تھا کہ اسے نبیرہ حیدر کرار لکھا اور پڑھا جایے اس لیے کہ وہ وقت کے حیدر کرار کی طرح بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والا تھا اس کے دست اقدس پر فتح و ظفر کا تمغہ تھا اسکی پیشانی پر کامیابی کا تاج شہادت تھا اسکی رگوں میں وہی پاکیزہ لہو تھا جو نسل حیدر کرار میں ہوتا ہے لہذا خون اپنا اثر ضرور دکھاتا ہے پرچم توحید کی آبرو کے لیے اپنے لہو کی سرخی کو عنوان حقیقت بناکر عنفوان شباب میں ہی جام شہادت نوش فرمایا عین حالت نماز میں دشمن نے شب خون مار کر شہید کیا تو شہید محراب کا پسر اپنے اب و جد کی سیرت پر جلتے ہویے راہ خدا کی جانب عازم سفر آخر ہوا۔

مختصر تعارف حضرت شہ میراں رحمہ اللہ تعالی علیہ

شہسوار اور خنگسوار: ان دونوں القاب پر گفتگو ہم جب آستانہ عالیہ کے پائیتی دالان میں لگے کتبہ پر جو شب میں صلوات پڑھی جاتی ہے جب اسکا ترجمہ اور تشریح کریں گے تو ان دونوں پر تفصیل سے بحث کریں گے اس لیے یہاں ذکر سے احتراز کرتے ہیں۔

رشک مسیحا:اس لقب کو سب سے پہلے،سید بندہ حسن ص مرحوم نے کتاب شوکت خنگسوار میں استعمال کیا ہے موصوف نے لکھا ہیکہ آپ کی ذات رشک مسیحا ہے اور انکے بیان سے استفادہ کرتے ہوئے ماسٹر شاہد حسین ص مرحوم نے اپنی کتاب شعاع خنگسوار میں با عنوان لقب لکھا ہے جب تاراگڑھ کے اہل علم بزرگ شخصیوں نے لقب کا ذکر کیا ہے تو اب ہم پر لازم ہیکہ انکے علم و کمال پر اعتبار کرتے ہوئے نئی نسل کے لیے اس کی مختصر سی شرح کردی جائے۔

لقب دو لفظوں سے عبارت ہے لفظ رشک اور لفظ مسیحا رشک در حقیقت حسد کے مقابل میں آتا ہے حسد ایک مذموم صفت ہے اور رشک ایک ممدوح صفت ہے حسد کا مطلب ہے جلن یعنی کسی میں پائے جانے والے کمالات سے جلن کرنا اور یہ سوچنا کہ جو کچھ ہے وہ سب ختم ہو جائے اور اس طرح کی سوچ نگاہ قدرت میں قابل مذمت ہے مگر رشک کا مطلب ہیکہ کسی کے کمالات کو دیکھ کر اظہار مسرت کے ساتھ یہ نیک ارادہ رکھنا کہ یہ سارے کمالات جو ہمارے غیر میں ہیں وہ سب ہمارے پاس بھی ہو جائے اسکے پاس بھی رہیں یہ سوچ نگاہ قدرت میں قابل مدح ہے دوسرا لفظ ہے مسیحا یہ لفظ اپنے دامن میں معنی کا ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے یہ صفت نبیوں اور رسولوں کی ہے اور بالخصوص حضرت عیسی کو مسیح کہا گیا ہے قرآن مجید میں بھی لفظ مسیح استعمال ہوا ہے۔

گرچہ اسکی تفسیر و تفصیل اپنے مقام پر معنی خیز ہے لیکن یہاں پر اردو میں یہ لفظ شفا دینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے گرچہ حقیقتا شفا دینا ذات واجب کا کرم ہے مگر اس نے یہ حق اپنے معصوم بندوں کو اور ان شہیدوں کو دے رکھا ہے جنھوں نے اپنی جان کا نذرانہ اسکی بارگاہ عالی وقار میں پیش کیا ہے۔

حضرت شاہ میراں یعنی حضرت حسین اصغر علیہ الرحمہ شہید راہ خدا ہیں لہذا آپ کا وجود اپنے زمانہ میں اہل خیر کے لیے قابل رشک مسیحا تھا آپ لوگوں کے گا علاج امراض کو اپنی دعا کے ذریعہ سے شفایاب کر دیتے تھے اور آج بھی آپ کا مزار مقدس مرجع خلایق ہے اور بہت سے مریض آپ کے آستانہ سے لاعلاج امراض میں شفا یاب ہوتے ہیں بالخصوص وہ صندل جو صبح و مساء آپ کے قدموں میں پیش کیا جاتا ہے اور وہ صندل جو قبر مطہر کے سینۂ پر رکھا جاتا ہے اور چوبیس گھنٹے کے بعد اتار لیا جاتا ہے اور خدام حضرات کے ذریعہ سے وہ مریضوں میں بانٹ دیا جاتا ہے بہت سے زائرین نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہیکہ وہ مرض سرطان میں مبتلاء تھے اور مزار شریف کے سینۂ پر رکھے صندل سے شفایاب ہوئے شاید یہی وجہ ہیکہ۔ آپ کی ذات رشک مسیحا قرار پائی اور آج بھی شفا دینے والے مسیحائی کرنے والے آپ کے دیار محبت میں دامن دراز برایے رشک کئے ہوئے ہیں۔

تاجدار شہداء ہند: اس لقب کو بھی سب سے پہلے مرحوم بندے حسن ص مرحوم نے کتاب شوکت خنگسوار میں استعمال کیا ہے اور انکے بعد ماسٹر شاہد حسین ص مرحوم نے کتاب شعاع خنگسوار میں بصورت لقب ذکر کیا ہے یقینا مملکت ہندوستان کی وسیع عریض سر زمین پر لا تعداد شہداء اسلام کا مسکن ہے اور ایک سے ایک عظیم شخصیات مدفون ہیں جنکے مراتب و مدارج کو رقم کرنا ہم جیسے کوتاہ قلم کے بس کی بات نہیں ہے مگر چونکہ بزرگوں نے اپنی کتابوں میں یہ لقب لکھا ہے جس سے غلو کا استشمام بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سرکار شاہ میراں کا جلال و جمال و کمال اوصاف حمیدہ کردار کی بلندی اور عظمتوں کا ہمالیائی وجود ہے۔

اس بات کی دلیل ہیکہ آپ پر یہ لقب زیب دیتا ہے شہداء ہند کے تاجدار گرچہ اس ضمن میں یہ بات ابھر کر آتی ہیکہ سید الشہداء تو سرکار حسین ابن علی ع کی ذات عالی وقار ہے کیا اس لقب کے بعد کسی کو تاجدار شہداء کہہ سکتے ہیں جوبا عرض ہیکہ سید اور تاجدار میں معنی کے اعتبار سے بڑا فرق ہے تاج کی معراج عارضی ہے دنیاوی ہے اور سیادت کی عظمت ذاتی ہے نسبی ہے اور ابدی ہے۔

تاجداری کا تعلق فقط اس دور محدودہ سے ہے اور سیادت کا تعلق قیامت تک کا ہے سیدالشہدا کا لقب کسی ایک زمانہ کے لیے نہیں ہے بلکہ ہر زمانہ میں فرزند رسول ص جگر گوشۂ علی مرتضی ع دلبند زہرا سلام اللہ علیہا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سید الشہداء قرار دیے گئے ہیں جبکہ تاجدار شہداء ہند کا لقب اول تو ہند کے دایرے میں محدود ہے دوسرے اس زمانہ میں جن شہداء نے قربانیاں دی ہیں ان میں آپ کی ذات والا صفات اس عظمت و کرامت کی مستحق تھی کہ آپ کو تاجدار شہداء ہند کہا جائے مزید یہ کہ کاش فرزدق راجستھان میر بندہ حسن ص مرحوم نے اسکی وضاحت کی ہوتی یا اس دور میں کوئی اعتراض وارد کیا جاتا اور وہ اسکی تفصیل و توضیح دیتے تو بہت مناسب ہوتا اب جبکہ اس دور کا علمی سرمایہ مکمل طور پر محفوظ نہ رہ سکا اسباب و علل کچھ بھی رہے ہوں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ علمی گھرانہ میں اولاد کا لایق ہونا علم دوست ہونا بہت ضروری ہے تاکہ اپنے بزرگوں کے علمی سرمایہ کی حفاظت کر سکیں کاش عصر رواں کی نسل مصروف کو بھی یہ شعور آجائے اور وہ اپنے آباء و اجداد اساتذہ کرام کے علمی سرمایہ کو محفوظ رکھ سکے لکھنا تو نہیں چاہیے پر لکھ رہا ہوں کاش ہمارے بعد کوئی ایسی مسل ضرور رہے جو ہمارے مختصر سے علمی سرمایہ کو محفوظ رکھے ایک امید کی کرن اپنی نجفی شاگردوں سے ہے کی وہ میرے بیان و قلم کے سرمایہ قلیلہ کو ضیاع سے محفوظ ضرور رکھیں گے گرچہ انکی اپنی علمی مصروفیتیں ہم سے کہیں زیادہ ہیں اور انکا قد علمی بھی بہت بڑا ہے لہذا وہ اپنے قلم کی روانی اور فکر کی جولانی سے بہت کچھ صفحہ قرطاس پر رقم کر سکتے ہیں ۔

شہید اعظم در ہند: اس صفت حمدیہ اور لقب طیبہ کا ذکر بھی فرزدق راجستھان میر بندہ حسن اعلیٰ اللہ مقامہ نے اپنی کتاب شوکت خنگسوار میں کیا ہے گرچہ اس سے غلو کا استشمام کیا جا سکتا تھا اگر صرف شہید اعظم ہوتا کیونکہ یہ لقب مختص ہے سرکار سید الشہداء شہید اعظم شہید انسانیت حضرت امام حسین علیہ السلام سے لہذا کسی دوسرے کو شہید اعظم کہنا غیر مناسب ہے لیکن در ہند کی قید نے ہمیں اس اعتراض سے بچا لیا کیونکہ اس پوتر دھرتی پر جن مجاہدین اسلام نے پرچم توحید بلند کرنے کے لیے اپنی جان کا نذرانہ بارگاہ رب کریم میں پیش کیا اور سر کٹا کر حیات جاودانی اختیار کی اس دار دنیا کی نیرنگیوں کو تیاگ کر رب العزت کے پسندیدہ دین کو پروان چڑھانے کے لیے اپنے وجود کو قربان کردیا اور جن شخصیت کا یہ لقب ذکر ہوا ہے تاریخ کے اجالوں میں ان کے کردار کی بلندی کا یہ عالم ہیکہ جوانی کی امنگوں میں قدم زن تھے حسرتوں کے دیپ دل ناتواں میں روشن تھے تمناووں کے شجر پر گل زیبا مسکرا رہے تھے آرزوؤں کی ایک ہلچل تھی جو قلب مضطر میں کروٹیں بدل رہی تھی لباس عروسی زیب تن کئے تھے کہ در دہلیز پر اک دروش نے استغاثہ کیا (پورا استغاثہ مع ترجمہ کے اپنے مقام پر ذکر ہے) بس استغاثہ کو سنا اور مظلوم کی فریاد رسی میں لمحہ حیات بھی فرو گزاشت نہیں کیا بس نکل پڑے راہ جہاد کے لیے پھولوں کے سہرے کو چھوڑا خون کی سرخی سے رخ زیبا کو منور کرنے کا ارادہ کیا اور وادی ہند کی جانب غازیان اسلام کے ساتھ ہجرت فی سبیل کی عظیم ذمہ داری بر دوش کرکے میدان عمل میں اتر گئے اور اس طرح ظلم و جور کی بستیاں اجاڑتے ہوئے عالم انسانیت کو بچاتے ہوئے پرچم توحید لہراتے ہوئے علم غازی کی ہوا سے شفایابی کی اکسیر پھیلاتے ہوئے کوہ بیٹلی یعنی تاراگڑھ کے کوہساروں میں دین کا علم پتھروں پر گاڑتے ہوئے شمع شہادت کے اجالے اس وادی بے آب و گیاہ میں بکھیر کر شہید اعظم حقیقی سے دادو تحسین لیے ہندوستان کے شہید اعظم کا لقب پا گئے اور حسینیت کے صدقہ کو اپنے کاسہ شعور میں اس طرح محفوظ کیا کہ آج آپ کا روضہ پر نور مرجع خلائق بنا ہوا ہے اور عالم انسانیت اپنی خالی جھولیوں کو اس در عطا اور باب سخاوت سے بھر رہی ہے اور دل کی گہرایوں سے شہید اعظم در ہند کی عظمت و منقبت و فضیلت کو محسوس کر رہی ہے۔

مختصر تعارف حضرت شہ میراں رحمہ اللہ تعالی علیہ

میر بندہ حسن مرحوم نے عظمت شہید کے پیش نظر جا بجا آپ کے لیے جو القاب استعمال کئے ہیں ہماری کوشش یہ ہیکہ ان سبھی کی مختصر مفید تشریح کی جائے تاکہ اہل ولا کو سرمایہ عظمت فراہم ہو سکے۔

محسن اسلام: حالانکہ کتب تاریخ و سیر میں یہ لقب ذات حضرت ابو طالب یعنی جناب عمران والد گرامی حیدر کرار علیہما السلام کی شان عالی وقار میں استعمال ہوا لیکن جیسا کہ ہم وضاحت کر چکے ہیں کی لقب جو با عنوان صفت ہو وہ کسی ذات تک محدود نہیں ر تا بلکہ گردش لیل و نہار کے ساتھ اس صفت کے دوام پر منحصر ہوتا ہے یعنی جب بھی کوئی اس صفت محمودہ سے متصف ہوگا با عنوان لقب گردانا جا سکتا ہے بس جس طرح سے مکہ کے ریگزاروں میں کفار کے بنجر قلوب میں وادی بے آب و گیاہ میں صنم کدوں میں ظلمت کدوں میں ثروت خانوں میں جہالتوں کے بام و در میں ترویج اسلام کے لیے جو قربانیاں جناب ابو طالب نے دی ہیں انھیں کی سیرت مطہرہ۔ پر چلتے ہوئے اس کشور ہند جوثل شب تار کے تھا ظلمتوں کے گھٹا ٹوپ طوفانوں میں اس کفر و شرک کی وادی میں راجستھان کے ریگزاروں میں وادی بے آب و گیاہ میں پیغام شریعت پہونچا کر ہم پر احسان عظیم کیا ہے اور اس راہ میں وہ تمام تر قربانیاں دی ہیں جو ضروری تھی تو اس موذن در بلاد ہند کا حق ہیکہ اسے بھی محسن اسلام کے لقب سے یاد کیا جائے اور یہ لقب ان سے چھینا نہیں جا رہا ہے بلکہ انکے در دولت پر کاسہ شعور پھیلا کر دست طلب دراز کرکے منقار معرفت سے دریاۓ فضیلت سے چند بوندیں چننے کی درخواست کی جا رہی ہے۔بلکہ انکی سخاوت کے سمندر سے منقبت کا یہ آب حیات لیا گیا تاکہ عطش زدہ ہونٹوں کو سیرابی ملے اور شمشیر زبان سے خدمت حقیقی دین مبین کی جا سکے۔

حامی دین رسول انام: اس صفت اور لقب کا ذکر بھی میر بندہ حسن مرحوم نے اپنی کتاب شوکت خنگسوار میں کیا ہے ایسا لگتا ہیکہ مرحوم کی صاحب مزار سے بے پناہ عقیدت نے انکے رہوار شعور کو مہمیز کر کے ہر روز ایک نئے گوشۂ معرفت کی تلاش میں مشغول عبادت ہو جاتے تھے اور سرمایہ فکرو نظر کو بروئے کار لاکر اہلبیت علیھم السّلام کے گھرانے کی خیرات اپنے کاسہ علم میں سمیٹ کر لاتے ہیں یا یوں کہوں کے ہر روز القاب کا گلشن آل محمد ص سے اک گل زیبا چن کر لاتے ہیں اور مزار مقدس کے سہرے کی لڑیوں میں پرو دیتے ہیں اور شوکت خنگسوار میں جہاں کرامات کا ذکر کرتے ہیں وہاں کرم کے اعتبار کو ملحوظ خاطر رکھ کر وہی لقب سرکار شہ میراں کے لیے استعمال کر دیتے ہیں اسلیے کہ گلشن آل محمد کے ہر پھول کو شہید راہ خدا کو استعمال کا مکمل حق ہے اور پھر وہ شہید جسکے شجرہ کا شاخسانہ بھی انھیں کے کاشانہ مودت سے متصل ہو تو نور علی نور کی منزل ہے پہلا نور صلب آل محمد سے ہونا اور دوسرا شہادت در راہ خدا پیش کرنا اور اس حیات کی قربانی سے ہی دین کی حمایت کا فریضہ انجام دیا گیا اس لیے آپ کو حامی دین رسول انام کا خطاب میر ص مرحوم نے دیا جو حقیقت پر مبنی ہے اس لیے کے یہ لقب بھی گذشتہ لقب کی طرح صفت کے عنوان سے بحیثیت عرض ہے نہ کہ با عنوان طول اور یہی لفظ معرکہ کربلا میں ایک جری و بہادر نے اس وقت استعمال کیا جا داہنا بازوں قلم ہو چکا چاروں طرف سے دشمن کی یلغار ہے مگر قلب مطمئنہ کے لشکر کا علمدار بھی اس قدر مطمئن ہیکہ فرماتا ہے۔

واللہ ان قطعتم یمینی

انی احامی ابدا عن دینی

اگر تم نے میرے داہنے بازوؤں کو کاٹ بھی لیا ہے تو کیا ہوا میں ہمیشہ اپنے دین کی حفاظت کرتا رہونگا ظاہر ہیکہ جس شہید نے اپنے دامن شہادت میں غازی کہ بریدہ ہاتھوں کا صدقہ سمیٹ کر فاتح ہند قرار پایا ہو تو اسکا حق ہیکہ اسے حامی دین رسول انام کہا جائے

فاتح ہند: میر بندہ حسن صاحب اعلیٰ اللہ مقامہ نے آپ کی ستودہ ذات کے لیے یہ لقب بار بار استعمال کی ہے متعدد جگہوں پر اس طرح کے کلمات کا استعمال کیا یقینا منشی ص کی فہم و فراست پر یقین شرط ہے اور شبہ گناہ ہے انکے حسن عقیدت کو سلام ہے اور انکی فکر رسا قابل مدح و ثناء انکے علمی پیمانہ کو ناپنے کا کوئی آلہ ہمارے پاس نہیں ہے البتہ جو کچھ انھوں نے لکھا خواہ اس سے غلو کا استشمام ہو یا عقیدت کی خوشبو چھلکے مگر حقیقت تو یہی ہیکہ جب آپ نے فاتح ہند لکھا ہے تو آپ نے یقینا پورے ہندوستان کو فتح کیا ہوگا مگر تاریخ کی کتابیں اس زاویہ نظر سے خالی ہیں مگر یہ کہ راجستھان کشور ہند کے سب سے بڑے صوبہ کا نام ہے اور حضرت شہ میراں نے اسے یقینی طور پر فتح کیا ہے یا جس قدر قوت و طاقت والا راجا یہاں براجمان تھا جسنے اپنے سحر و جادو سے سنگ گراں کو کوہ عظیم سے تراش کر فضا میں معلق کیا بوقت نماز حملہ آور ہوا اور آپ نے دعاء رد سحر و بلا پڑھ کر اس سے مقابلہ کیا اور غرور راجا کو تہس نہس کیا اسکے جادوئی علم کے استعجاب کو چکناچور کیا تو اس لحاظ سے اس راجا کی شکست کشور ہند کی فتح کے مترادف ہے لہذا آپ کو اس اعتبار سے فاتح ہند کہا گیا اور پھر تاریخ مغلیہ یا تاریخ ملوکیت میں دہلی کے تخت پر براجمان حضرات کو بھی فاتح ہند کہا گیا جو آج تاریخ کی قبروں کے کھنڈروں میں گمنام پڑے ہیں مگر شہید راہ خدا آج بھی چشم حقیقت کھولے ہویے آرام سے سب کچھ دیکھ رہے ہیں سن رہیں بس یہ اسکا کرم ہیکہ وہ شمشیر زبان کھول نہیں رہا ہے ورنہ پھر کسی کی مجال تھی لب کشائی کر سکتا۔

لخت دل رسول ابرار: یہ لقب بھی کنایہ ہے ہیکہ اس پھول کا شاخسانہ کہا ہے اور خوشبو کا دایرہ کس نسیم سحری کے آنگن میں لگےگا رسول انام کا لخت جگر وہی ہے جو رسول ابرار کی نسل کے شہزادہ ہیں، بس اسی وجہ سے آپ کو فرزند رسول ا نام کہا گیا ہے یا لخت ر سول انام کیا گیا ہے۔

شہید اکبر: اس لقب کو پڑھکر ذہن بشری میں یہ سوال پیدا ہوتا ہیکہ کیا کوئی شہید اصفر بھی ہوتا ہے شہید تو شہید ہوتا ہے پھر اکبر اور اصغر کی قید لگانے کا کیا مطلب ہے۔

یقینا شہید شہید ہوتا ہے مگر چونکہ شہادت کے درجات ہیں اور انکے حصول کے اعتبار سے ہی انکے القاب درج کئے جاتے ہیں غازیان اسلام میں داخل ہونا جان کا نذرانہ بارگاہ رب جلیل میں پیش کرنا بہت بڑی سعادت ہے مگر شہادت کی سعادت کے لیے شہ میراں نور اللہ مرقدہ نے جس قدر محنت و مشقت فرمائی ہے وہ کسی بھی ذی عقل سے پوشیدہ نہیں ہے حجلہ عر سی کو خیر باد کہنا عروسی عقبی کو عروسی دنیا پر فوقیت دینا حسرتوں کے چراغوں کا شب دیجور کے سناٹے میں خاموش کر کے چراغ الہی کی تلاش میں نکل جانا دور دراز کا صعوبتوں بھرا سفر دلیل بنتا ہیکہ آپ کو فقط شہید ہی نہیں شہید اکبر کہا جائے۔

غازی اسلام: یقینا یہ لقب بھی میر بندہ حسن کی حسن عقیدت کی گہرائی و گیرائی ہے آپ کے شعور کی جھیل میں اس کوہ گراں کی فضاؤں نے جو حرکت دی تو فکرو نظر کے دریچے کھلتے چلے گئے اور کرامتوں کے چشمہ فیض سے سیرابی نے انکے لبوں سے یہ قیمتی القاب ادا کروا دییےجو بھی مشہد مقدس سے دفاع دیں اور حمایت اسلام کے لیے نکلے تھے سبھی کو غازیان اسلام کہا گیا مگر سردار اعلی کو بعنوان غازی اسلام یاد کرکے لقب کی فہرست میں داخل کرنا ایک عظیم صفت کی علامت ہے۔

صاحب صمصام: صاحب صمصام: یہ لقب بھی میر بندہ حسن نے اپنی کتاب شوکت خنگسوار میں ذکر کیا ہے جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ میر ص نے اپنی کتاب میں جو فضائل کے موتی بکھیرے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے صمصام کے معنی ہیں۔

سیف قاطع لا یرتد: یعنی ایسی غضب کی کاٹ رکھنے والی تلوار جسکا وار کبھی رد نہیں ہوتا یقینا تلوار بازی کے فن میں کلائی کی کلا کارفرما ہوتی ہے مگر اسمیں بڑا ہاتھ تلوار کی حقیقت کا بھی ہوتا ہے

تلوار کی بناوٹ اسکا معیار اسکی صورت اسکا پیچ و خم اور نوکیلا سا پھل سب کا تعلق مجاہد سے ہے

جب اک شجاع و بہادر کے ہاتھ میں تلوار ہو آنکھوں میں غضب ہو اور راہ خدا میں جہاد کا جزبہ پنپ رہا ہو اور میدان میں اترنے کا موقع بھی مل جائے تو پھر اسکی شجاعت کے ڈنکے بجتے ہیں اور اسکا حق ہیکہ اسکی کامیابی و کامرانی پر اسے صاحب صمصام کے لقب سے یاد کیا جائے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha