۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
حضرت شہ میراں رحمہ اللہ تعالی علیہ تاراگڑھ اجمیر

حوزہ/ زبدہ کریم کو کہتے ہیں جب دودھ کو پھینٹ پھینٹ کر اسمیں سے مکھن نکال لیا جاتا ہے تو اسے عربی زبان میں زبدہ کہتے ہیں یعنی مکھن۔ اب لفظ زبدة العارفین کو یوں سمجھ لیجیے کی سبھی معرفت کی اعلی منزلوں پر فایز ہیں مگر ہندوستان میں آپ کی ذات والا صفات کو ہی زبدة العارفین کہا گیا ہے اس سے آپ کی شخصیت کی بلندی کا کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

تحریر: مولانا گلزار جعفری

حضرت حسین اصغر الملقب شاہ میراں سید حسین خنگسوار مشہدی نور اللہ مرقدہ کے القاب مطہرات

جناب حاجی ماسٹر شاہد حسین ص مرحوم نے اپنی کتاب شعاع خنگسوار میں آپ کے القابات لکھیں ہیں جنکی ہم یہاں مختصر وضاحت کریں گے تاکہ عصر رواں میں ان مطالب کو سمجھایا جا سکے جو القاب کے دفتر میں فضایل کے سمندر موجود ہیں جن سے عظمت شاہ میراں کسی حد تک سمجھی جا سکتی ہے جسکی معرفت اہل خرد کے لیے ضروری ہے تاکہ اس شخصیت کی عظمت سے ضرور واقفیت ہو جایے جس نے سب سے پہلے مملکت ہند میں پرچم عزا کو بلند کیا یا کم از کم یہ تو ماننا ہے ہوگا کہ راجستھان کے ریگزاروں میں گلشن عزا کھلا کر اپنے آنسوؤں سے زمین مودت کی سیچاءی کی اور انھیں پروان چڑھایا یہ عنوان تفصیل طلب ہے لہذا حوالاجات کے ساتھ کسی اور موقع پر قلم بند کیا جاءیگا فی الحال آپ کے القاب کچھ اس طرح سے ہیں۔

زبدة العارفین ، قدوة السالکین

برہان الواصلین ،تاج المقربین و المحققین ،نور آلہی ، نبیرہ حیدر کرار ع ،شہسوار، خنگسوار

تاجدار شہداء ہند ، رشک مسیحا

شہید اعظم در ہند

کسی بھی شخصیت کی عظمت ورفعت ،نجابت و شرافت ، فصاحت و بلاغت ، کمال و جمال، عروج و معراج، بلندی و ارتقاء ،علم کی وسعت ،عزم و عزیمت ،ارادہ میں صلابت ، قیام میں استقامت ، اخلاقیات میں رعایت ، علم و آگہی ،شعور و فکر، بصارت و بصیرت ،عشق ،و شغف ، محبت رسول ،اجر مودت، اہلبیت کے عشق کا اندازہ لگانا ہو تو اسکی حیات طیبہ کے نقوش کا جایزہ لیا جایے تاکہ اسکے چھوڑے ہویے قدموں کے نشان کی اقتداء کی جا سکے اور غبار قدم کے ذرات کو آنکھوں سے لگایا جا سکے تاکہ سرمہ گیں آنکھوں سے معرفت شہید کا ادراک کرنے کی روش پر رہوار شعور کو مہمیز کرنے کی سعی محکم کی جا سکے تاکہ ایک شہید کی عظمت کو سمجھنے میں کسی حد تک مدد ہو سکے۔

زبدةالعارفین؛ رب کاینات کی معرفت رکھنے والوں کی کریم

زبدہ کریم کو کہتے ہیں جب دودھ کو پھینٹ پھینٹ کر اسمیں سے مکھن نکال لیا جاتا ہے تو اسے عربی زبان میں زبدہ کہتے ہیں یعنی مکھن۔ اب لفظ زبدة العارفین کو یوں سمجھ لیجیے کی سبھی معرفت کی اعلی منزلوں پر فایز ہیں مگر ہندوستان میں آپ کی ذات والا صفات کو ہی زبدة العارفین کہا گیا ہے اس سے آپ کی شخصیت کی بلندی کا کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

قدوةالسالکین

سلوک الی اللہ یعنی اللہ کی جانب لے جانے والا راستہ سالک معرفت میں راہ خدا پر چلنے والے کو کہتے ہیں سالکین سالک کی جمع ہے۔

اب لقب کا کلی مطلب یہ بنا کہ آپ ان لوگوں کے لیے باعث قیادت و رہبری ہیں آپ ان کے لیے ایک قاید و ربر کی حیثیت رکھتے ہیں جو راہ خدا پر چلنے والے ہیں یقینا شہر مشہد مقدس سے سالکین الی اللہ کا جو کارواں غازیان اسلام کی شکل میں نکلا تو ان بادلوں میں بحیثیت شمس و قمر ، یا نجم و کوکب کا استعارہ تھی آپ کی ذات اقدس جو راہنماءی کے ساتھ ساتھ تقویت قلوب سالکین کا مظاہرہ کرہی تھی گویا آپ کے چہرہ اقدس کی ضیاووں سے غازیان اسلام راحت و سکون کے ساتھ سلوک الی اللہ کی جانب رواں دواں تھے آپ ان تاریک راہوں میں ان نورانی وجود غازیان اسلام کے لیے مشعل راہ تھے

برہان الواصلین

عربی زبان میں دو لفط استعمال ہوتے ہیں معرفت کی راہوں کی معنویت کو اجاگر کرنے کے لیے ایک کی تفصیل گزر گءی سلو ک الی اللہ

دوسرا وصول الی اللہ

یعنی اللہ تک پہونچنا آپ سالکین کے لیے قدوہ و قوت ہیں تو واصلین کے لیے برہان و دلیل ہیں برہان یعنی وہ معنوی دلیل جس کے ذریعہ سے انسان منزل مقصود تک رساءی حاصل کرتا ہے اگر راہ میں روشنی نہ ہو تو انسان تاریکیوں میں بھٹکتا رہتا ہے تو جس طرح عام راہ گیر کو شب ظلمت میں شمع فروزاں کی ضرورت ہے اسی طرح وصول الی اللہ کے لیے کسی برہان کی ضرورت تھی لہذا مجاہدین اسلام در ہند کے لیے باعث برہان آپ کی ذات معتبر قرار پاءی

تاج المقربین والمحققین

سلوک یعنی راہ پیماءی

وصول یعنی پہونچ جانا

اب تیسرا مرحلہ ہے پہونچ کر مدارج قرب خدا وندی کو پا لینا جو اسکے قرب کو پانے والے ہیں وہ بہت عظیم ہیں مگر اسکی عظمت و جلالت کا کیا کہنا جو انکے لیے تاج کرامت بن جایے۔

تاج سلطان کے سر پر وہ مقدس پوشاک ہوتی ہے جو انکی عزت و عظمت کا معیار ہوتی ہے یہاں پر اس لقب میں تاج معنویت کا ہے اور اشارہ عظمتوں کی معراج کا ہے فرزندان توحید جو اس صنم کدہ ہند میں اذان دینے کے محکم ارادہ سے نکلے تھے پرچم توحید کو لہراتے ہویے سلوک وصول اور قرب کے درجات معنویات کو آہستہ آہستہ طے کرتے چلے جا رہے تھے ان سب کے لیے تاج نگین در یاقوت تھے ہمارے آقا و مولا حضور بر نور حسین اصغر رحمت اللہ علیہ اور اسی طرح تحقیق کرنے والوں کے لیے بھی تاج کرامت تھے۔

نور آلہی

آپ کے القاب میں یہ لقب جس معنوی کمال کی جانب اشارہ کرہا ہے وہ عصمتوں عفتوں نبوتوں امامتوں ولایتوں قیادتوں کا آءینہ دار ہے مگر یہ سارے درجات آقاووں کے ہیں اور آپ ان سب کے نقش قدم پر چلنے والے خادم و غلام کی حیثیت رکھتے ہیں مگر راہ انقلاب اور پرچم توحید کی آبرو بچانے کے لیے جو عظیم ذمہ داری اپنے نحیف و ناتواں کاندھوں پر اٹھاءی ہے وہ کار انبیاء و اولیاء و اوصیاء ہے شاید اسی لیے تاریخ کے سنہرے صحیفوں میں یہ القاب درج کیے گیے ہیں جن سے اک شہید کے رتبہ کا اندازہ ہو جایے نور آلہی یعنی خدا کا نور ظاہر ہے کہ سالکین ،عارفین ،واصلین۔

مقربین و محققین سب کا ملجاو ماواں ذات حکیم علی الاطلاق ہے سبکی باز گشت نور ازلی کی جانب ہے اور آپ کو اس نور کا اثر قرار دیا گیا ہے اگر قلم پر غلو کا الزام نہ لگتا تو نور آلہی کی وضاحت میں معرفت کے دریا بہا دیتا بس فکر کی حدیں محدود ہیں اور آقا کی فضیلتیں لا محدود ہیں اور یہی سے آل محمد علیہم السلام کی عظمتوں کا اندازہ لگاءیں جب نعلین بردار آل رسول کی عظمتیں قابل ادراک نہیں تو بھر انکی کجا۔

نبیرہ حیدر کرار

نبیرہ غالبا فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی بیٹے کے ہیں اور یقینا کءی واسطوں کے بعد آپ فرزند ارجمند حیدر کرار ہیں اور کیوں نہ ہوکہ راہ وفا کا سبق جس نے حیات حضرت عباس ابن علی ع سے پڑھا ہو صبر و ضبط کا کلمہ حسن‌ مجتبی ع سے بڑھا ہو ,عزم و حوصلہ کی راہ رسالت مآب سے سیکھی ہو ذکر و فکر حضرت صدیقہ طاہرہ کی حیات طیبہ سے سیکھا ہو راہ انقلاب میں ایک آہنی دیوار ہو کر کاروان غازیان کے میر کارواں بن کر رہنماءی کا ہنر حسین ابن علی ع سے حاصل کیا ہو قوت و طاقت شجاعت وہمت ،شہامت و جواں مردی جس نے بارگاہ ولایت سے اپنے کاسہ گداءی میں سمیٹی ہو اس ذات کا حق تھا کہ اسے نبیرہ حیدر کرار لکھا اور پڑھا جایے اس لیے کہ وہ وقت کے حیدر کرار کی طرح بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والا تھا اس کے دست اقدس پر فتح و ظفر کا تمغہ تھا اسکی پیشانی پر کامیابی کا تاج شہادت تھا اسکی رگوں میں وہی پاکیزہ لہو تھا جو نسل حیدر کرار میں ہوتا ہے لہذا خون اپنا اثر ضرور دکھاتا ہے پرچم توحید کی آبرو کے لیے اپنے لہو کی سرخی کو عنوان حقیقت بناکر عنفوان شباب میں ہی جام شہادت نوش فرمایا عین حالت نماز میں دشمن نے شب خون مار کر شہید کیا تو شہید محراب کا پسر اپنے اب و جد کی سیرت پر جلتے ہوئے راہ خدا کی جانب عازم سفر آخر ہوا۔

جاری

تبصرہ ارسال

You are replying to: .