تحریر: مولانا سراج حسین، قم المقدسہ ایران
حوزہ نیوز ایجنسی | حضرت مولانا ڈاکٹر کلب صادق طاب ثراہ شاید لفظوں میں آپکی شخصیت نہ سمٹ سکے۔ جو کچھ ہم اور آپ لکھ رھے ہیں وہ اتنا ھے جتنا ہم سمجھ سکے ورنہ آپکی ذات اس سے کہیں بلند تھی۔
پیکر عزم و ہمت ، مرد آھنین ، مدبر و دور اندیش ، کام کا دھنی ، بے لوث خدمت گزار ، جھگڑوں سے متنفر ، اتحاد کا علمبردار، جہالت کا دشمن ، علم و دانش کا دلدادہ ، تعلیم کا عاشق ، تبعیض و تفریق کا فرق مٹانے والا ، چھوٹا - بڑا، دوست –دشمن ہر ایک کو پیار بانٹنے والا ، زمانے کا رخ موڑدینے کی صلاحیت رکھنے والا ، جس کو صرف ایک ہی دھن تھی کام کام ، تعلیم تعلیم۔ جس کے پاس کاموں کے لیے فرصت نہ تھی مگر تعلیم کے لیے وقت ہی وقت تھا زمانے بھر میں روشنی پھیلا کر وہ سورج ڈوب گیا۔
مجھے یاد ہے عمر کے آخری دنوں میں بھی وہ خدا سے کام کے لیے وقت مانگ رہے تھے ۔ ان کے لبوں پہ اگر کویی دعا تھی تو بس یہی "خدایا مجھے کچھ مہلت دیدے تاکہ اپنے پروجیکٹ کو مکمل کرلوں"
جب بھی ملاقات ہویی انتہایی شفقت بھرے لہجے میں صرف مشن کی بات اور دوسروں میں وہی جذبہ پھونکنے کی پوری کوشش۔
آپ نے سکھایا کہ بغیر لڑے کام کیسے کیا جاتا ھے آپ نے بتایا جذبات اور احساسات پر قابو پاکر کیسے خدمت کی جاتی ہے آپ نے سمجھایا کہ دشمنوں کی یلغار اور اعتراضات کی بوچھار میں کیسے منزل تک پہونچا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا جس کو جو کہنا ہے کہتا رہے جواب یا صفایی دینے میں وقت ضایع مت کرو بلکہ اسی طاقت کو اپنے مقصد میں لگالو۔
یہ باتیں کہنے ور سننے میں تو بھلی معلوم دیتی ہیں مگر منزل عمل میں قدم لڑکھڑا تے ہیں کبھی خواہشات نفس مانع ہوتی ہیں کبھی شیظان زور لگاتا ہے کبھی اپنی انانیت آڑے آتی ہے لیکن ان سب کو کچل کر جو آگے بڑھ جایے اسے کلب صادق کہتے ہیں۔
آپ اپنی جانب سے بھر پور کوشش کرنے کے بعد اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے تھے ۔اور اسطرح خلوص کا دامن نہیں چھوڑتے تھے۔
خدمات سب جانتے ہیں چاہے وہ یونٹی کالج ہو ، ایراز میڈیکل کالج ھو ،ہاسپٹل ہو،اسکالر شپ کا بندو بست ہو ، غریبوں اور یتیموں کی تعلیم کا بندو بست ہو،علیگڈھ میں مدینۃ العلم کا قیام ہو،راشن کی تقسیم ہو، انسانیت کی فلاح و بہبود سے متعلق امور ہوں ،اختلافات کی آگ بجھانا ھو،شیعہ سنی کو ملانا ہو،ہندو مسلم بھایی چارہ پیدا کرنا ھو ، یا ظلم کے آگے ڈٹنا ہو،،،،،،الغرض کویی بھی خدمت ھو ہر جگہ محنت کی پھر خداکی ذات پر توکل کیا۔ اور یہی دو فارمولے اللہ نے بتایے ہین۔
ارشاد الہی ہے " لیس للانسان الا ما سعی" انسان کے لیے اتنا ہی ہے جتنا وہ کوشش کرے
"من یتوکل علی اللہ فھو حسبہ" جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ ہی اس کے لیے کافی ہے۔
یہی وجہ تھی اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی نہ غرور آیا نہ اکڑ۔ نہ بناوٹ آیی نہ خود پسندی ہمیشہ وہی خندہ پیشانی وہی انکساری اور سادگی ۔چھوٹا پہنچ جایے یا بڑا سب کے ساتھ اپناییت کا برتاو۔
وقت کی پابندی ایسی کہ لوگ دیکھتے رہ جاییں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ مقرر ۲ منٹ کی زحمت کہکر آدھا گھنٹا نکال دیتا ہے۔مگر مرحوم کا خاصہ تھا کہ جو وقت کہہ دیا بات اسی میں ختم ہوتی تھی۔ کتنی بار ایسا ہوا کہ آپ پانچ منٹ یا تین منٹ میں تقریر کر کے اسٹیج سے اتر آیے۔ اورکمال یہ کہ اپنی بات کو ایسے سمیٹا جیسے کوزہ میں سمندر۔
منبر پر جاتے تو نہ چیخ نہ پکار۔ نہ فریا دنہ دھاڑ ۔مگر بیان ایسا کہ دلوں میں اتر جایے۔فضایل ہوں یامصایب سب کا حق ادا ہوجاتا۔
لوگ تو رازانہ پیدا ھوتے اور مرتے ہیں مگر ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔آج بظاھر مرحوم ہماری نظروں میں نہیں لیکن انکے آثار حیات اور وجود کی کرنیں ہر سمت پھیلی ہویی ہیں۔ وہ خود تو نہیں ہیں مگر ان کے نقش قدم اور انکی راہ ہمارے سامنے ہے۔
اے جانے والے تجھ پر ہمارا سلام۔تیرے جانے سے ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل اداس ہے۔ لیکن ہم تجھ سے عہد کرتے ہیں کہ تیرے مشن کو کو اسی عزم سے آگے بڑھاتے رہیں گے۔ جہالت کے اندھیروں میں علم کے چراغ جلاتے رہیں گے۔ آپسی رنجشوں کو بھلا کر اور اختلافات سے اوپر اٹھ کر زمانے کو تعلیم سے آراستہ کرتے رہیں گے۔
خدایا تیری بارگاہ میں دعا ہے کہ مرحوم کو اعلی علیین اور جوار معصومین علیہم السلام میں جگہ عنایت فرما اور تمام فرزندان، پسماندگان عاشقان،عالم انسانیت، اہل علم کو صبر جمیل عطا فرمایے۔