۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
شهید مدرس

حوزہ/ آپ ظالم پہلوی حکومت کے زمانہ میں پارلیمنٹ کے ممبر تھے لیکن جس بات نے آپ کو ممتاز کیا وہ آپ کی بے باکی اور شجاعت تھی۔ اور ہر وہ بات جو ملک و ملت اور اسلامی آئین کے خلاف ہوتی اسکی بلا خوف کھل کر مخالفت کرتے تھے۔

تحریر: مولانا سید علی ھاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | ایران کے تاریخ ساز فقیہ و مجاہد شہید آیت اللہ سید حسن مدرس رہ ۱۸۷۰ عیسوی کو زوارہ اصفھان ایران میں پیدا ہوئے۔ آپ کا سلسلہ نسب ۳۱ واسطوں سے حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام سے ملتا ہے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نجف اشرف تشریف لے گئے اور اس وقت کے بزرگ علماء و فقھاء سے کسب فیض و اجازہ اجتھاد حاصل کیا، اسکے بعد اصفھان واپس آ کر تدریس و تبلیغ میں مصروف ھو گئے۔ اور جب آپ پارلیمنٹ کے ممبر ہوئے تو تھران میں سکونت اختیار کر لی۔ تہران میں سیاسی سرگرمیوں کے باوجود تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ 
آپ ظالم پہلوی حکومت کے زمانہ میں پارلیمنٹ کے ممبر تھے لیکن جس بات نے آپ کو ممتاز کیا وہ آپ کی بے باکی اور شجاعت تھی۔ اور ھر وہ بات جو ملک و ملت اور اسلامی آئین کے خلاف ہوتی اسکی بلا خوف کھل کر مخالفت کرتے تھے۔ بقول رھبر کبیر انقلاب حضرت امام خمینی رہ آپ سے پہلے پارلیمنٹ میں نعرہ لگتا تھا "رضا شاہ زندہ آباد" لیکن آپ نے سب کے سامنے بھرے پارلیمنٹ میں "شاہ مردہ آباد" کے نعرہ لگائے۔ ظالم شاہ کی کھل کر مخالفت کرتے. ایک بار شاہ نے آپ سے پوچھا کہ آپ مجھ سے کیا چاھتے ھیں؟ آپ نے بلا خوف شاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ میں چاھتا ھوں تم نہ رھو۔ آپ کی شجاعت و خوانمردی ہی اسلامی انقلاب کا پیش خیمہ ھے۔ 
ظاھر ہے یہ انداز وہی اپنا سکتا ھے جو جنایتوں و خیانتوں سے دور اور اسکے دامن کردار پہ کسی جرم کا کوی دھبہ نہ ھو جیسا کہ خود آپ نے فرمایا: میں جو بھت سے اھم مسائل میں بےباکی سے اپنا نظریہ بیان کر دیتا ھوں۔ ھر حق بات بغیر کسی پرواہ کے کھ دیتا ھوں تو میرے پاس کچھ نھیں ھے اور نہ مجھے کسی چیز کی خواھش ھے۔ اگر تم بھی سبک بار ہو جاو، اپنی آرزو و خواھشات کم کر دو تو تم بھی آزاد ھو جاو گے۔" آپ نہ کبھی کسی دھمکی سے ڈرے اور نہ ہی کسی لالچ کا شکار ہوئے۔ سادگی و دینداری آپ کا طرہ امیتاز تھا۔ آپ خود فرماتے تھے "میرے جیسا انسان جو عمامہ کا تکیہ اور عبا پہ سو سکتا ہو اسے کس چیز کی پرواہ ھو سکتی ھے"۔ 
دنیا کے ھر چالاک و فریبکار حاکم نے دین و سیاست میں دوری بتای جسکا نتیجہ علمائے دین عبادت گاھوں تک محدود اور سیاست سے دور ھو گئے۔ دوسری جانب حکمراں اپنی من مانی کرتے رھے  لیکن شھید آیت اللہ سید حسن مدرس رہ نے اسلامی انقلاب سے برسوں پہلے نعرہ لگایا جو صرف نعرہ کی حد تک نھیں تھا بلکہ آپ خود اس پہ عمل پیرا تھے اور وہ "ہماری دینداری ھماری سیاست کے عین مطابق ھے اور ہماری سیاست ھمارے دین کے عین مطابق ھے" آپ نے کبھی بھی دین و سیاست کو حصول دنیا کا ذریعہ نھیں بنایا بلکہ ھمیشہ دین ھی آپ کا مقصد رھا اور دوسروں کو بھی یہی نصیحت کی کہ دین کو حصول دنیا کا ذریعہ نہ بناو۔ آپ نے فرمایا "اپنے حصول مقصد کے لئے دین کا سہارا نہ لو۔ کیوں کہ اگر شکست کھا گئے تو لوگوں کے اعتقادات کمزور ھو جائیں گے۔"  آج جو سماج میں مشکلات ھیں اور لوگ دین سے دور ھو رھے ھیں اسکی وجہ بھی یہی ھے کہ بعض خیانت کاروں نے اپنے حصول مقصد کے لئے دین کو وسیلہ بنا رکھا ھے۔ جب تک انکا مقصد حاصل ھوتا رھتا ھے دین کا نام لیتے ھیں اور جب مفاد ختم ھوا تو دین کا درد بھی ختم ھو جاتا ھے۔ جیسا کہ سرکار سیدالشھداء امام حسین علیہ السلام نے فرمایا " لوگ دنیا کے بندے ھیں اور دین صرف زبانوں تک محدود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
آپ کو احیائے دین کے سلسلہ میں مختلف زحمات و پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا متعدد بار جلا وطنی و اسیری برداشت کی۔ آخر یکم دسمبر ۱۹۳۷ عیسوی کو ماہ مبارک رمضان میں حالت روزہ میں پہلے زبردستی زھریلی چائے دی گئی اور جب چائے سے ظاھرا کوئی اثر نہ دکھا تو نماز مغرب کے وقت آپ ہی کے عمامہ سے آپ کا گلا گھونٹ کر شھید کر دیا گیا آپ کی قبر مبارک کاشمر ایران میں مومنین کی زیارت گاہ ھے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد جب ایران میں پہلا نوٹ چھپا تو رھبر کبیر انقلاب حضرت امام خمینی رہ نے حکم دیا کہ اس پر آپ کی تصویر ھو۔  

وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا

تبصرہ ارسال

You are replying to: .