۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
حضرت شہ میراں رحمہ اللہ تعالی علیہ تاراگڑھ اجمیر

حوزہ/ ہم اس در کے غلام ہیں جہاں شاہوں کو اذن کفش برداری نہیں ملتی اپنی عظمت پہ رشک کیا کرو کے یہ رشک مسیحا کا آستانہ ہے ملک طواف کریں ،فرشتہ سلامی دیں ، نجف و کربلا کی خوشبووں کا صدقہ جس مزار جلی پر آتا ہو اس دربار ولی کو فرزند علی ع ،حسین اصغر نور اللہ مرقدہ کہتے ہیں۔

تحریر: مولانا گلزار جعفری،تاراگڑھ اجمیر

حوزہ نیوز ایجنسی | آپ کا نام‌نامی اسم گرامی حضرت حسین اصغر المشتہر بحضور پر نور میراں سید حسین خنگسوار مشہدی نور اللہ تعالی مرقدہ الشریف۔

حضرت شہ میراں رحمہ اللہ تعالی علیہ تاراگڑھ اجمیر

آپ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی جناب بی بی ہاجرہ علیھا الرحمہ تھا جنکا خاندان علمی اور معنوی فضایل و کمالات کا مرقع تھا۔

آپ کے والد ماجد حضرت سید ابراہیم محدث رحمہ اللہ تعالی تھےآپ اک جلیل القدر عالم با عمل ،نیک و متقی تھے علم روایہ اور درایہ پر مکمل دسترس رکھتے تھے آپ مشہور زمانہ محدث بھی تھے خاندانی شرافت و شہامت کے حامل تھے۔

آپ کے خانہ مقدس میں جب بی بی ہاجرہ کےگلشن تمناء پر ایک حسین گل کھلا اور آپ کے باغ عقیدت میں وہ بہار آءی جسکے بعد خزاں کا کوءی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

جب ایک سفید پارچہ میں لپیٹ کر شجاعتوں کے پیکر کو آپ کی آغوش معرفت میں دیا گیا تاکہ رسمی طور پر اذان و اقامت کہی جایے۔

عجب نہیں محدث محترم نے نگاہوں سے نگاہیں ملایی ہوں محدث نے مبلغ کے چہرے کے نقوش کا مطالعہ کیا آنکھوں کی چمک میں حوصلوں کی استقامت نظر آءی ہوگی، پیشانی کی وسعتوں میں موجود شکنیں شکست دشمن کا اعلان کر رہی ہوں گی۔

حضرت شہ میراں رحمہ اللہ تعالی علیہ تاراگڑھ اجمیر

ننھی ننھی پلکوں کا حجاب چھپک جھپک کر سلامی بھر رہا ہوگا، مبلغ کی قوت شامہ محدث کے گلشن علم کو سونگھ کر لذت علم سے آشنا ہو رہی ہوگی، رخساروں کا گلابی پن بڑھ کر اسلام کی سوکھی رگوں میں لہو پلانے کا عہد وپیمان کر رہا ہوگا۔

ادھر شہسوار ابھی دست پدر پر سوار ہےہاتھوں کی مٹھیاں کھلی دست میراں نے انگشت ابراہیم علیہ الرحمہ کو تھاما بچہ کی فطرت کا تقاضا پورا کیا شجاعتوں کے امین نے دست محدث کی متحرک قلم تھامنے والی انگلیوں کو چوما بھی اور چوسا بھی تاکہ اسلامی روایات کے قلمکار والی انگلیوں سے وہ شیرینی حاصل کرلیں جس سے صبر و ضبط کو اپنے سینۂ میں جذب کر لیں، ادھر بچہ کی تڑپ اسکا چنچل پن ایک اشارہ تھا اس طوفان کا جو خاموشی کے نہاں خانوں سے جھانکا جا سکتا ہے چونکہ شہ میراں کی تھری ہوءی پر سکون‌آنکھوں کی چمک آپکے روشن مستقبل کی تلمیح تھی۔

پلکوں کا حجاب سرمہ گیں آنکھوں کا حسن‌مزید بڑھا رہاتھا ادھر حضرت محدث اپنے بیٹے کی آنکھوں میں اپنا بچپن دیکھ رہے تھے ادھر شہ میراں اپنی جوانی کا عکس عکیس چہرہ نورانی پدر میں دیکھ رہے تھے گویا باپ بیٹے اپنے ماضی و مستقبل کو حال کے آءینہ میں دیکھ رہے تھے۔

چشم و ابرو کے اشارہ کی جب یہ دیدہ وری پایے تکمیل کو پہونچی اور لمحوں نے تصورات میں صدیوں کا سفر مکمل کیا توحضرت محدث نے داہنے کان میں آ ہسثہ سے صدای ثکبیر بلند کی حضرت شہ میراں کے پورے وجود میں اک بجلی سے دوڑ گءی برق رفتاری سے عقیدہ توحید پورے روحانی وجود میں سرایت کر گیا چار تکبیروں نے چاروں جانب سے پرچم توحید بلند کرنے کا عہدو پیمان اپنے خاندانی شیروں کی مانند کیا کلمہ شہادتین پوری متانت و سنجیدگی کے ساتھ سنا مگر جیسے ہی ولایت کا اعلان کانوں سے ٹکرایا لبوں پر تبسم کا نغمہ جاری ہوا زیر لب مسکراہٹ نے ولایت کی پاسبانی کا وعدہ کر لیا اس شہر مقدس مشہد سے جو ولایت کا اعلان سنا ہے اسے ریگزاروں میں نہ پہونچا دوں تو میں قدم بوس نبیرہ حیدر کرار نہیں۔

فرات کی موجوں پر تشنگی میں علم دادا نے گاڑا ریگزاروں میں کوہساروں میں شدت تشنگی میں پرچم توحید لہرا کر غازی سے دادو تحسین لینے لگے جس جری نے ضبط نفس کا امتحان تشنگی کے صحرا میں دیا آب رواں کے چہرہ پر چلو بھر پانی مار کر فرات کے جسم کو چلو بھر پانی میں ڈوبو دیا اس ذات کے خاک قدم کو جو سرمہ بنا لے اسکا حق ہیکہ وہ شہسوار بھی ہو اور تاجدار شہداء ء ہند بھی

جو بریدہ بازوں کا صدقہ اپنے کاسہ گداءی میں لے لے اسکا حق ہیکہ وہ شہید اعظم در ہند کا لقب پایے ایک مشہور کہاوت ہے محاورہ ہے۔

پوت کے پیر تو پالنے ہی میں نظر آجاتے ہیں

حضرت محدث نے اذان و اقامت کہتے کہتے پوری حیات کا نقشہ جسم کے نشیب و فراز میں دیکھ لیا سر اقدس پہ تاج المقربین سجا ہوا ہے۔

قدموں میں قدوة السالکین

عزم و ارادہ میں برہان الواصلین

چہرہ کا نور کہہ رہا تھا کہ یہی نور آلہی ہے

بازوؤں کی قوت شہسواری کا اعلان تھا ہاتھوں کی مٹھیاں خنگسواری کا منظر پیش کر رہی تھیں گویا پورا سراپا اک مجاہد و غازی کا تھا حضرت محدث نے اپنی آغوش تربیت میں اس طرح پروان چڑھایا کی بچپن سے ہی حفظ قرآن مجید کی تعلیم دی اسلے آپ حافظ بھی ہو ءیے اور محافظ بھی اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تھا کہ حضرت روشن علی درویش کی فریاد و استغاثہ سنا اور بحر امداد چل پڑے سہرے کی لڑیوں کو ، پھولوں کو، کلیوں کو،جوانی کی امنگوں کو حسرتوں کے گلشنوں کو ، آرزوؤں کے باغ و بہار کو اور خواہشوں کے سمندروں کو قربان کر کے اپنے سر کو راہ خدا میں پیش کرنے کے لیے چل پڑے صنم کدہ ہند میں اذان دینے کے لیے ہجرت کا آغاز کیا بچپن میں جس تکبیر کی آواز سے جسم میں لرزہ ہوا تھا اب دشمن کو لرزا براندام کرنے کا وقت آن پہونچا تھا سیرت حضرت قاسم بن حسن علیہ السّلام پر عمل کرتے ہویے غازیان اسلام کے ہمراہ شادی کی تقریب چھوڑ کر شہادت کی چوکھٹ پر عازم سفر ہو گیے اور سندھ کی وادی سے ہوتے ہویے راجستھان کے ریگزاروں میں گلشن اسلام کھلانے کو آگیے اور اپنی شجاعانہ تبلیغ سے ہزاروں لوگوں کو مشرف با اسلام کیا،صبر وضبط،حسن‌ اخلاق ،حسن کردار ،حسن‌ گفتار ،حسن رفتار ، حسن نظر ،پرہیز گاری ،تقوی و تقدس ،ایمانداری ،عقیدوں کا استحکام ، غریبوں کا خیال ، مظلوموں اور حق پرستوں کا ساتھ دینا کمزوروں اور ناتواں پر رحم و کرم ، علم کی جانب پیش رفت ، بزرگوں کا احترام ،عقاید کی حفاظت ،پرچم توحید کی بلندی ،محبت اہلبیت اشاعت ،عزاءحسینی کی ترویج، ان تمام باتوں کی تعلیم و تربیت آپ ہمیشہ کرتے رہے

آج ان کے در کے فقیروں کی ذمہ داری ہیکہ آپ کی سیرت طیبہ پر چلیں۔

سرکار شہ میراں رح کو ناچ گانا ،ہلڑ ہنگامہ ، ساز و ترنگ ، ڈھول ڈھماکہ ،لہو لعاب ، لوٹ مار ، فریب و حیلہ ،سوزش و سازش ، ظلم و ستم ، دھوکہ دھڑی ، بے ایمانی ، قمار بازی ، حرام خوری ، چوری چکاری ، بد اخلاقی ،بد دیانتی ،بد کاری ،بد زبانی جیسے تمامتر صفات رذیلہ سے سخت نفرت تھی۔

ہمیں کوشش کرنا چاہیے کی اطاعت کا فریضہ انجام دیں آقا کو جو پسند ہے اسے رایج کریں جو نا پسند ہے اس سے بچیں۔

روز ولادت کی عیدی یہی ہیکہ سرکار کے بتایے ہویے راستہ پر چلیں انکی قربانیوں کو ہر گز فراموش نہ کریں عید کا مقصد صرف آتش بازی نہ ہو بلکہ اپنی نا جایز خواہشوں کو بھی اسی آتش میں بھسم کردیں رنگین پٹاخوں کے ساتھ رنگین مزاجی کو بھی جلادیں ، خیال رکھیں پٹاخوں کی آواز کی گھن گرج میں کسی غریب کی آواز نہ دب جایے ، شہرت کے حصول کی دہلیز پر شریعت کی پاءمالی نہ ہو جایے آسمان میں رنگ برنگ کی آتش بازی سے عید کا پیغام جایے تو کردار کی بلندی سے غلامی کا حق ادا کیا جایے۔

حضرت شہ میراں رحمہ اللہ تعالی علیہ تاراگڑھ اجمیر

اگر دور دراز کے علاقوں کو اس طرح خبردار کرنے کا ارادہ ہے تو پھر سال بھر اس بھرم کو بھی بر قرار رکھیں کی ہم خادم شہید راہ خدا ہیں ہم رہبران قوم ہیں رہزن نہیں، خادم ہیں ظالم نہیں ، حق پرست ہیں حق مخالف نہیں ، علم دوست ہیں علم دشمن نہیں ہم اس در کے غلام ہیں جہاں شاہوں کو اذن کفش برداری نہیں ملتی اپنی عظمت پہ رشک کیا کرو کے یہ رشک مسیحا کا آستانہ ہے ملک طواف کریں ،فرشتہ سلامی دیں، نجف و کربلا کی خوشبووں کا صدقہ جس مزار جلی پر آتا ہو اس دربار ولی کو فرزند علی علیہ السلام،حسین اصغر نور اللہ مرقدہ کہتے ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .