تحریر: مولانا گلزار جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی | سرزمین مدینہ پر گلشن زہرا میں ایک پھول کھلا جس کی خوشبو سے چمنستان شریعت میں بہار آئی وحی کے چراغوں کو لہو کا سرمایہ ملا , الہام کے اشاروں کو بقاء کا پیمانہ ملا، قران کی فصاحت و بلاغت کو استعارہ ملا ، نوک سناں کو رفعتوں کا منارہ ملا ، مقدر امت کی تاریکی کو اجالا ملا، ملت تشیع کو آقا و مولا ملا ، سجاد ع و سکینہ ع کو بابا ملا ، علی ع و زہرا س کو راج دلارا ملا ، رسول ص مقبول کو قلب و نظر کا تارا ملا ، قران و حکمت کو سہارا ملا ، نبیوں کو پیارا ملا ، فطرس کو پناہ کے طور پر گہوارہ ملا ،انا عتیق الحسین کا نعرہ ملا ، کشتی اسلام کو طوفانوں سے بچانے والا نا خدا ملا ، بشریت و آدمیت کی سلطنت کو راہنما ملا ، خطیب خطباء اور خطابت کو کنایہ ملا ، علی کی اغوش مسرت میں جب فاتح فرات ، حکیم کربلا کے ننھے ننھے قدموں نے جگہ پائی یا یوں کہوں کہ ید اللہ کے ہاتھوں پر ارض نینوا کا پورا نقشہ رکھ دیا گیا ، وجہ اللہ کے سامنے وجیہ کربلا رکھ دیا گیا، ولی اللہ کے دست دراز پر بقائے دین کا رہنما آیا ، علی کی اعلی نگاہی نے چشم حسین میں جھانک کر دیکھا سمندروں کا معنی خیز تلاطم دکھائی دیا عزم کی چمک آفتاب کی چمک سے زیادہ تھی حوصلوں کی روشنی نے قندیلوں کی روشنی کو ماند کر دیا تھا، چشم و ابرو کے اشاروں نے فتح ارض کربلا کا مژدہ سنایا پلکیں جھپک جھپک کر استقامت کے لیے داد و تحسین کی طالب تھی، پیشانی کی شکنوں میں اسلام کی لکیروں کا مقدر تھا ، گلے کی ملائمیت پر خنجر کی صلابت گریا کناں تھی خون کی دھار خنجر کی دھار پر غالب تھی لبوں پر تبسم کی ہلکی سی لکیر علامت تھی کہ حوصلوں کی لجام چھوٹے گی نہیں۔
ارادوں کا ہمالیائی عزم و استقلال میرے وجود میں ہے لب و رخسار کی سرخی کہہ رہی تھی کہ اسلام کے چہرے پر لالی میرے وجود سے رہے گی پرسکون آنکھیں اسلام کے پرچم کی بلندی کا بوسہ لے رہی تھی جب عین اللہ نے عین اللہ کی انکھوں میں جھانکا تو کیا دیکھا صبرو وفا علم و حلم حکمت و استقامت کا ایک بحر بے کراں ہے جو امواج چشم میں صاف نظر ارہا ہے حسین ابن علی کی چھوٹی چھوٹی انکھوں میں اشک مسرت کے قطرے ہیں جو نوح کی کشتی کو کھیپنے کا ہنر جانتے ہیں یہ وہی آب مختصر ہے جس کا ایک قطرہ نارنمرود پر پڑا تو ابراہیم کے لیے آگ گلزار ہو گئی ، یہ وہی قطرہ آبی ہے جسے دریائے نیل نے اپنی باہوں میں سمیٹا تو عصائے موسی کے اشارے سے بحق حسین ابن علی ع بارہ راستے بن گئے ،حضرت سلیمان کی حکومت حضرت شبیر ع کے ماتھے کا پسینہ ہے حضرت عیسی کے لیے رشک مسیحا ہیں تو جناب آدم کی توبہ کا باب محکم ، سرکار ذبیح اللہ حضرت اسماعیل کی آنکھوں کا قرار ہے ، ولیوں کی ولایت انھیں کا صدقہ ایک ہی وقت میں مجاہد بھی مسافر بھی ،غازی بھی نمازی بھی فاتح بھی اور مقتول بھی شہید بھی اور مشہود بھی , شہر حکمت کا شہنشاہ ہے تو مرج البحرین کا نقطہ ارتکازی، وادی سرمدی کا مکیں ہے تو توحید ازلی کا امین وحدت کی تجلی کا آئینہ ہے شریعت کی رگوں میں جس کا لہو دوڑ رہا ہے وہ انھیں کا ہے دشت بلا کو خاک شفا ان کے لہو کے قطروں نے بنایا امام عالی مقام کی یوں تو بہت سے خصوصیتیں ہیں مگر سب سے مشہور یہ تین ہیں ،
آپ کی ذریت میں نسل امامت کو رکھا گیا
(حَیۡثُ یَجۡعَلُ رِسَالَتَہٗ(سورہ انعام آیت 124)
رب کریم بہتر جانتا ہے کہ ثمر حکمت کس شاخ محبت پہ قرار دیا جایے رسالت اور ذریت امامت کو کس کے صلب میں قرار دینا ہے یہ فیصلہ حکیم علی الاطلاق خلاق عالم کا ہے یہ اور بات ہیکہ اسکے نظام عدل اور نسق و نسخ کے تقاضہ بغیر دلیل و برہان کے نہیں ہوتے۔
دوسری خصوصیت آپ کے مزار پر بنے قبہ کے نیچے دعا مستجاب ہوتی ہے زائر حسینی ، زائر کربلا اگر چاہتا ہیکہ اسکی دعا قبول ہو جائے تو اس پر ضروری ہیکہ وہ روضہ پر نور میں جالی سے لپٹ کر خلوص نیت کے ساتھ دست طلب دراز کرے انشاءاللہ اگر اسکے حق میں وہ دعا بہتر ہوگی تو حتما قبول ہوگی یہ نسخۂ آزمودہ ہے یہ خاص کرم ہے دور دراز سے آیے ہویے محبین حرم پاک کے لیے کہ انکے کاسہ طلب کو اس بارگاہ عالی وقار سے خالی نہیں جانے دیا جاتا اور تیسری خصوصیت یہ ہیکہ قدرت نے آپ کی تربت کی خاک کو خاک شفا قرار دیا ہے لا علاج امراض کا علاج اس خاک میں رکھا گیا ہے اسکی وجہ بھی بالکل واضح ہیکہ چونکہ شہید راہ خدا اپنی سب سے قیمتی شی جو جان ہے اسے خوشنودی رب کے لیے قربان کردیتا ہے تو اسکی جزا ہیکہ جس خاک میں اسکا لہو ملا ہے اسے خاک نہ رہنے دے بلکہ خاک شفا بنا دے عجیب مرحلہ یہ کہ بعض مسلمانوں کے سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ خاک شفا کیسے دے سکتی ہے جبکہ یہی لوگ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کی آب زمزم آب شفا ہے حالانکہ آب زمزم کی تاریخ کشت و خون کی نہیں ہے اس واقعہ میں لہو نہیں برسا ہے اور نہ ہی بہا ہے بلکہ عصمت نے شدت عطش میں ایڑیاں رگڑی پیروں سے خون بھی نکلا ہو یہ کسی روایت میں نہیں ملتا مگر یہ طے ہےکہ قدموں کی رگڑ سے اب شیریں آب زمزم چشمہ زمزم جاری ہوا جو آج تک لوگوں کے لیے سامان شفا ہے تو جب آب شفا بغیر لہو کے شفا دے سکتا ہے تو جس خاک میں شہیدوں کا لہو پیوست ہو جایے جذب ہو جایے وہ خاک خاک شفا کیوں نہیں ہو سکتی۔
اگر ان تینوں خصوصیتوں میں دیکھا جایے تو ذریت سب سے خاص ہے جو نسل امامت میں ہے اور تحت القبہ دعا کی قبولیت مخصوص ہے حاضر کے لیے مگر خاک شفا کی شفا عمومی ہے سبھی قسم کے مریضوں کے لیے اسمیں کسی مسلک و مذہب و مشرب کی قید نہیں ہے۔
شاید اسی لیے جوش نے عظمت شہید نینوا کو نظر میں رکھتے ہوئے فرمایا تھا
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکا ریگی ہمارے ہیں حسین
روز ولادت حکیم نینوا ہر زندہ ضمیر کو بہت بہت مبارک ہو









آپ کا تبصرہ