اتوار 26 جنوری 2025 - 19:50
وطن کی محبت؛ دیش بھکتوں کو لباس سے نہیں احساس سے پہچانو

حوزہ/ دیش بھکتوں کو لباس سے نہیں احساس سے پہچانو تاکہ مال و ذر کی ہوس ضمیر کو تھپکی  دیکر سلا نہ دے محبت وطن زندہ ضمیری کی علامت ہے اسے اسیر ہواء ہوس نہ ہونے دیں۔ 

تحریر: مولانا گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی | یہ حقیقت روز روشن کی طرح آشکارا ہیکہ وطن سے محبت فطرت کی دین ہے شعور کی شاہراہوں پر جب حریت کی شمعیں روشن نظر آتی ہیں تو ان میں کہیں نہ کہیں وہ لہو کا رنگ نظر آتا ہے جو وطن کی آبرو پر جاں نثاری کا جزبہ ہوتا ہے کیا وطن کے لیے جام شہادت کا نوش کرنا زخموں کی قبا دوش پر سجانا محبت نہیں ہے اگر اک حساس قلب میں شمع محبت وطن روشن نہ ہو تو وہ کبھی بھی سرحدوں پر حفاظت وطن کے لیے خوشی خوشی اپنی جان جوکھم میں میں نہیں ڈالے گا چراغ سیاست تیل سے جلتا ہے مگر چراغ محبت وطن لہو سے جلتا ہے اس لیے گندی سیاست ملک کو توڑ نے کا کا کام کرتی ہے مگر حکمت محبت وطن ملک کو جوڑنے کا کام کرتی ہے آج کی راج نیتی ویناش کی راج نیتی ہے جبکہ وطن کی محبت وکاس سکھاتی ہے کون دیش بھکت ہے اور کون ملک کا غدار اس کو لباس سے پہچاننے کے بجائے کردار سے پہچانا جائے بلکہ یوں کہا جائے۔

دیش بھکتوں کو لباس سے نہیں احساس سے پہچانو تاکہ مال و ذر کی ہوس ضمیر کو تھپکی دیکر سلا نہ دے محبت وطن زندہ ضمیری کی علامت ہے اسے اسیر ہواء ہوس نہ ہونے دیں۔

آزادی ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے اسے پتنگ بازی کا دن نہ قرار دیں شہیدوں کے لہو سے سینچے ہوئے اس گلشن وطن کو خزاں رسیدہ ہونے سے بچانے کے لیے قلم و زبان سے اس آزادی کے اظہار کا حق ادا ہونا چاہیے تقریر و تحریر سے حریت کے حدود اربعہ کی رچنا کی جائے آنے والی نسلوں کو ویروں بہادروں اور جاں نثاروں کی تاریخ سے آگاہ کیا جائے مفتیان حق کے فتاوی کو پھر اک بار منظر عام پر لایا جایے وطن کے غداروں کے کرداروں سے اہل وطن کو آگاہ کیا جائے
کیونکہ ماضی کا جائزہ مستقبل سازی میں مددگار ثابت ہوتا ہے جب تک سچائی کی ڈگر پر چلنا اہل وطن کے لیے آسان نہیں کیا جائے گا مسائل پنپتے رہیں گے محبت وطن کاسہ قلب میں انڈیلی نہیں جا سکتی محبت وہ خوبصورت احساس ہے جو خاک وطن کی خوشبو سے محسوس کیا جا سکتا ہے جو زمین سے اٹھے اور ضمیر میں سما جایے اگر قوت حاسہ نے ظالموں کے تلوے نہ چاٹے ہوں تو مظلوموں سے ہمدردی ملت وطن کا شعار بن جاتی ہے۔

کیونکہ دیش بھکتی دیش کو لوٹنا نہیں ہے بلکہ دیش کے لیے اپنی جان مال سکھ دکھ سب کچھ نچھاور کرنا ہے رب کریم نے کاسئہ سر میں جو شمع عقل روشن کی اسکا تقاضا ہیکہ آنکھوں کی روشنی پر تعصب و تنگ نظری کی پٹی نہ چڑھائی جائے بلکہ عقل کی آبرو یہ ہیکہ اسے میزان عدل و عدالت پر رکھا جائے ملک کے نظام میں غیر عاقلانہ قوانین کو (سننسد) پارلیمنٹ میں صرف اس لیے پاس کرانا کہ راج نیتی چلتی رہے حکومت زیر قدم رہے خواہ آئین مملکت پائمال ہی کیوں نہ ہو ویشیش سمودائے کو ٹارگیٹ کیا جاتا رہے چاہے قوانین مملکت فطری اور عقلی راہوں کو کچھ بھی کہتے رہیں ووٹ بینک کے لیے ویر بہادروں کی بلی چڑھا دی جائے تاکہ دولت و ثروت کا حصول ہو ہو ووٹ ملتے رہیں کیا اسی کا نام دیش بھکتی ہے کیا یہی ہمارا آئین سکھاتا ہے اور کیا یہی جشن آزادی کا مطلب ہیکہ ہر آدمی قانون کے خوف سے اظہار محبت کرے اگر وطن کی محبت کا اظہار خوف و ہراس میں مبتلا کراکے ڈرا دھمکا کر کرایا جائے تو معاف کیجیے گا اس طرح عشق و شغف کے پیمانے نہیں چھلکتے بلکہ ملک میں ابناء وقت جنم لیتے ہیں اور فرزندان مصلحت کی پیداوار بڑھتی ہے۔

وطن کیا ہے ؟اسکے حدود اربعہ کیا ہیں ؟ اسکا جغرافیائی اعتبار کیا ہے ؟ شریعت کے نزدیک وطن کیا ہے ؟ شرافت کے نزدیک کیا ہے ؟ عشق و شغف کے حساب سے وطن کسے کہتے ہیں؟

ہم اصطلاحات کے پیچ و خم میں نہیں جانا چاہتے اس لیے کہ اسکی تفسیر و تفصیل اہل علم اور اہل تحقیق کے حوالے ہیکہ وہ احادیث کے اجالوں میں عوام کے ذہنی جالوں کو صاف کریں نوک قلم سے وطن کے حدود کی لکیریں کھینچیں سرحدیں معین کریں بس یہ خیال رکھیں کی زمین پر کھینچی گئی لکیریں ضمیروں میں نہ کھینچ جائیں۔

میرے خیال میں وطن اس خاک و مٹی کو کہتے ہیں جس سے آپ کو اپنے ہی لہو کی خوشبو آئے جس سے آپ کو ایک اپنے پن کا احساس نظر آئے جسکے خلاف کوئی لب کشائی کرے تو آپ کا خون کھول جائے جب دامن وطن پر کوئی ظالم نشتر لگا کر تار تار کرنا چاہے تو آپ کو غیض آجائے جب ملک کی دولت وثروت کو چوروں کے ہاتھوں میں دیا جائے تو آپ حرف سکوت میں نہ ڈھلے ہوں جراتوں کے پیمانے چھلک رہیں ہوں ملک کی دولت لوٹ کر بھاگ جانے والوں کا نام سنتے ہی لہو گرمانے لگے تو آپ دیش بھکت ہیں لیکن اگر آپ ان لٹیروں کی پناہ گاہ ہیں تو آپ کوئی بھی ہیں وطن کے غدار ہیں وفادار نہیں اس ملک کے نمکخوار نہیں ہیں غربت کا نان و نمک لوٹ کر جانے والوں کے تلوے چاٹنے والے نمک حرام کہے جاتے ہیں اگر صحافت میں صداقت کی رمق نہیں ہے تو مردہ چہرے چینلوں پر میکپ کی نمائش کر رہے ہیں اگر صحافت کو شیطان اور رحمان کے بندوں میں فرق نظر نہیں آتا تو وہ دیش بھکت نہیں ہیں۔

دیش بھکتی کا مطلب لبوں پر ترانہ سجانا نہیں ہے ہوا میں صرف ترنگا لہرانا نہیں گھر کی چھتوں پر علم دکھانا نہیں ہے جب تک وطن کی محبت ذہن کے ہر زاویہ میں سمائی نہ ہو جشن آزادی کا کیا مطلب جب تک دل کے ہر کونے میں شمع محبت وطن روشن نہ ہو زبان پر ترانوں کے جاری ہونے اسکولوں کالجوں دفتروں مدرسوں کے سجانے سنوارنے مٹھائیاں بانٹنے کا کیا مطلب ہے جب چینلوں سے صبح و مساء زہر افشانی کی جا رہی ہے خبروں کے بیوپار میں مادر وطن سے غداری کرنے والے ملک کی شانتی بھنگ کرنے والے قانون وطن آئین وطن کی دھجیاں اڑانے والے بھی اگر ملک میں دیش بھکتی کی سند لیکر ٹہلیں تو آزادی کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا رب کریم ہمارے اس ملک عزیز کی حفاظت فرما دشمنوں کے شر سے محفوظ فرما ہر میلی آنکھ کو بے نور فرما ملک عزیز میں ظلم کرنے والے ظالمین کو عذاب الیم کا مزہ چکھا ٹکڑوں میں بانٹنے کی کوشش کرنے والے استعمار کے ٹکڑوں پر پلنے والے غداروں کو نیست و نابود فرما ہمیں سچا محب وطن قرار دے ہر بھارتی کے دل میں محبت وطن کو مزید تقویت عطا فرما ہماری تحریری کوشش و کاوش کو قبول فرما۔

اہل وطن کو آئین سازی کا دن بہت بہت مبارک ہو

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha