۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
حجاب

حوزہ/ کرناٹک میں حجاب پر پابندی کا مسئلہ یونیفارم کی خلاف ورزی سے جڑا ہوا نہیں ہے بلکہ اس کے پس پردہ فاشسٹ طاقتوں کی اسلام مخالف ذہنیت ہے ،ورنہ ہندوستان میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر طبقات میں پردہ کا تصور موجود ہے۔

تحریر: عادل فراز

حوزہ نیوز ایجنسی
کرناٹک کے سرکاری اسکول میں لڑکیوں کے باحجاب داخلے پر جس طرح پابندی عائد کی گئی ،وہ شخصی آزادی اور جمہوری اقدار کے خلاف ہے ۔ہندوستان میں آئے دن مختلف سماجی و سیاسی تنظیمیں شخصی آزادی کے لیے آواز اٹھاتی رہتی ہیں ،کیونکہ فاشسٹ طاقتیں اقلیتی طبقات کی آزادی کے خلاف ہیں ۔کرناٹک میں حجاب پر پابندی کا مسئلہ یونیفارم کی خلاف ورزی سے جڑا ہوا نہیں ہے بلکہ اس کے پس پردہ فاشسٹ طاقتوں کی اسلام مخالف ذہنیت ہے ،ورنہ ہندوستان میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر طبقات میں پردہ کا تصور موجود ہے ۔بعض علاقوں میں ’گھونگھٹ ‘ کا کلچر آج تک زندہ ہے،خاص طورپر دلتوں اور پسماندہ طبقات میں ’گھونگھٹ ‘ پردہ کی ہی دوسری شکل ہے ۔مگر ماڈرن دنیا نے ’پردہ ‘ کو عورت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بتلاکر اسے عریانیت کی طرف مایل کیاہے ،جس کی بنیاد پر ’گھونگٹ ‘ کو دقیانوسی سوچ کا آئینہ دار بتلاکر عورت کو بے پردگی کی دلدل میں دھکیل دیا گیا ۔ورنہ ’پردہ ‘ میں رہ کر بہت سی خواتین ہر شعبۂ زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہی ہیں ،مگر ہمارے یہاں ماڈرن ازم اور خواتین کی ترقی کا پیمانہ مغرب زدہ ہے ،لہذا کسی کو باپردہ خواتین کی ترقی نظر نہیں آتی ۔
کرناٹک میں جس طرح مسلم لڑکیوں کو ہراساں کرنےکی کوشش کی گئی ،اس سے فاشسٹ طاقتوں کی ذہنیت کا اندازہ ہوجاتاہے ۔ایک اکیلی لڑکی کو کیمپس میں درجنوں لڑکے ’جے شری رام ‘ کے نعرے لگاتے ہوئے گھیر لیتے ہیں ،اور اس کو ہراساں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔لڑکی ہراساں نہیں ہوتی اور جواب میں ’اللہ اکبر ‘ کا نعرہ بلند کرتی ہے ۔اس نعرے کو بھی مذہبی جنون کے تناظر میں پیش کیا گیا ،جبکہ یہ نعرہ مذہبی جنون کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے تشخص کے اظہار اور عالم خوف میں اعتماد،یقین اور حوصلے کی تلاش میں لگایا گیا تھا ۔’اللہ اکبر‘ کا نعرہ ’جے شری رام ‘ کے نعرہ کا جواب نہیں تھا کیونکہ وہ ’رام ‘ کے نام کا نعرہ غنڈہ گردی ،ہراسانی اور شخصی آزادی کے خلالف لگارہے تھے جبکہ اللہ اکبر کا نعرہ کسی کو ہراساں کرنے یا شخصی آزادی کو سلب کرنے کے لیے نہیں لگایا گیا ۔سوال یہ ہے کہ اگر اسکولوں میں باحجاب داخلے پر پابندی عائد کی جارہی ہے تو پھر کالج کیمپس میں بھگوا شالیں اور گمچھے کیوں نظر آرہے تھے ؟کالج میں ترنگے کی جگہ بھگوا جھنڈا بھی لہرایا گیا ،کیا سرکار اور انتظامیہ نے ایسا کرنے والے لڑکوں کے خلاف کوئی مناسب کاروائی کی ؟ اگر ایسا کسی مسلمان لڑکے نے کیا ہوتا تو کیا سرکار اور انتظامیہ کا ایسا ہی سرد ردعمل ہوتا؟واقعیت یہ ہے کہ ملک میں ’دیش بھکتی ‘ اور ’ہندو تووا‘ کے نام پر جو کچھ بھی ہورہاہے اسے سرکار اور انتظامیہ کی سرپرستی حاصل ہے ۔ورنہ جس طرح سرکار اور انتظامیہ نے اپنی پوری توانائی صرف کرکے شرجیل امام کو مجرم ثابت کردیا اسی طرح ترنگے کی جگہ بھگوا جھنڈا لہرانے والوں کو بھی ’دیش دروہی ‘ثابت کرکے جیل بھیجا جاسکتاتھا ۔مگر ہم جانتے ہیں ایسا نہیں ہوگا ۔کیونکہ سرکار یرقانی و زعفرانی تنظیموں کی آلۂ کار ہے اور انتظامیہ ان کے ہاتھ کو کھلونا۔ورنہ جس دیش میں مہاتما گاندھی کے مجسمے کو گولی مارکر علامتی خون نکالا جاتاہو اور مجرم کھلے عام گھوم رہے ہوں،اس دیش میں سرکار اور انتظامیہ سے انصاف کی امید رکھنا بڑی نا انصافی ہے ۔
پردہ اسلامی تشخص ہے ۔اس تشخص کو ختم کرنے کی منصوبہ سازی کی جارہی ہے ۔کیونکہ فاشسٹ طاقتیں مسلمانوں کو ان کےمذہی کلچر کے ساتھ قبول نہیں کرنا چاہتیں ۔کیونکہ جب کسی قوم کا تشخص ختم ہوجاتاہے تو اس کی حیثیت بھی مشکوک ہوکررہ جاتی ہے ۔ہندوستان میں مسلمانوں کا اپنا تشخص قائم ہے جو زعفرانی و یرقانی تنظیموں کے لیے ناقابل برداشت ہے ۔وہ چاہتی ہیں کہ یہ تشخص ختم کردیا جائے اور ہندوستان کا مسلمان بالکل ویسا نظر آئے جیسا وہ چاہتے ہیں ۔اس لیے آج اسکولوں میں باحجاب داخلے پر پابندی کا مطالبہ ہے ،ممکن ہے کل یہ کہدیا جائے کہ داڑھی کے ساتھ اسکولوں اور کالجوں میں داخلہ نہیں دیا جائے گا ۔ان مطالبات کی کوئی حد نہیں ہے ۔آج مسلمان ایک مطالبہ کو تسلیم کرے گا ،کل دوسرا مطالبہ ان کے سامنے ہوگا ۔لیکن مشکل یہ ہے کہ اسکول یا تو سرکاری ہیں یا سرمایہ داروں کی ذاتی ملکیت ہیں ۔ظاہر ہے وہ اپنی پالیسی اور حکمت عملی کے مطابق قانون بنائیں گے ۔اگر کسی کو سرکاری یا غیر سرکاری اسکولوں میں پڑھنا ہے تو انہیں ان کےبنائے ہوئے قوانین کو تسلیم کرنا پڑے گا ۔کیونکہ مسلمان ان اسکولوں اور کالجوں کی کمیٹیوں کے سامنے متحد ہوکر اپنے مطالبات نہیں رکھتے ۔اردو کے ختم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں نے اسکولوں سے اردو کو بطور مضمون رائج کرنے کا مطالبہ ہی نہیں کیا ۔وہ اپنے بچوں کو انگلش میڈیم میں پڑھانا تو چاہتے ہیں مگر اپنے تشخص کے مطالبے کے بغیر ۔ورنہ اسکولوں سے مطالبات کیے جاسکتے ہیں اور انہیں منوایا بھی جاسکتاہے ۔کیونکہ اسکول سماج کی ضرورت ہیں اور سماج کے لوگ ہی انہیں چلاتے ہیں ۔مسلمانوں کے لیے بڑی مشکل یہ ہے کہ انہوں نے بے شمار مدرسے بنائے ،عالیشان مسجدیں تعمیر کیں ،فلک بوس مذہبی عمارتیں قائم کیں لیکن ایسے تعلیمی اداروں کے قیام پر توجہ نہیں دی جہاں عصری تعلیم دی جاسکے ۔بعض لوگ اس طرف متوجہ تھے مگر ان کے پاس فنڈ کی کمی تھی ۔کیونکہ ہماری قوم کا زیادہ تر فنڈ مذہبی طبقے کے ہاتھوں میں ہے جس کا حساب و کتاب لاپتہ اور معاملات میں شفافیت صفر ہے۔مذہبی طبقے کی آمرانہ ذہنیت ،فلاحی امور کی طرف عدم توجہی اور معاملات میں شفافیت کے فقدان کی بنیاد پر ہی عوام ان سے متنفر ہوتی جارہی ہے ۔جس طرح دنیا میں اسلاموفوبیا عروج پر ہے اسی طرح ملک میں ’مولوی فوبیا‘ بھی شباب پر ہے ۔اس لیے مولویان کرام کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
بہرکیف!ایسے تشویش ناک حالات میں مسلمانوں کو سہارا تلاش کرنے کے بجائے خود کفیل ہوناہوگا ۔خود کفیل ہونے کے لیے الگ سے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنے ’مالی امور ‘ میں نظم و ضبط پیدا کرنا ہوگا ۔وہ رقومات جو مدرسوں ،مسجدوں اور دیگر عالیشان مذہبی عمارتوں پر صرف ہورہی ہے اس کے لیے شفاف نظام قائم کرنا ہوگاتاکہ ان کا صحیح مصرف ہوسکے ۔موجودہ حالات میں مذہبی طبقے کو بالکل نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ،اس لیے ان کے تعاون کے ساتھ ملّی فلاح و بہبود کی منصوبہ سازی کرنا ہوگی ۔جہاں مذہبی طبقے کی ضرورت نہیں ہے اس طبقے کو دخیل نہ کیا جائے تو بہتر ہوگا ۔کیونکہ قوم کی موجودہ صورتحال کی تمام تر ذمہ داری مذہبی طبقے پر ہی عائد ہوتی ہے جس نے قوم کو مذہبی امور میں ایسا الجھادیاہے کہ انہیں عذاب سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے ۔ملت جب ان مسایل سے نکلنے کا حل طلب کرتی ہے تو انہیں اورادووظائف اور مذہبی جلسوں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتاہے ۔بہتر ہوگا کہ ملت کے دردمند ،مخلص اور ذمہ دار افراد سرجوڑ کر بیٹھیں اور اپنے مسایل کے تصفیہ کے لیے خود جدوجہد کریں ۔سرکاروں اور سیاسی جماعتوں سے کوئی امید رکھنا ناانصافی ہوگی ۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .