۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
پٹنہ

حوزہ/حجاب پر پابندی عائد کرنے کے بعد جے ڈی ویمنس کالج کی جانب سے اب یہ پابندی ہٹا لی گئی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق پٹنہ کالج برائے خواتین نے اپنے احاطے میں برقعہ پہننے پر پابندی عائد کی تھی جس سے ہفتہ کو دستبرداری اختیار کرلی گئی ۔ کالج نے اپنے ادارے کے نئے ڈریس کوڈ کے تحت برقعے پر امتناع عائد کیا تھا ۔ تاہم اس اقدام میں غلط فہمی کا اعتراف کرتے ہوئے کالج کے حکام نے کہا کہ کسی مخصوص کمیٹی کی طالبات کو پریشان یا ہراساں کرنا ان کا مقصد نہیں ہے ۔ جے ڈی ویمنس کالج کی جانب سے نوٹس میں کہا گیا تھا کہ برقعہ احاطہ کالج اور کلاس روم دونوں جگہ ممنوع رہے گا ۔تاہم کالج پرنسپل شیام رائے نے تصدیق کی کہ کالج میں برقعے پہننے پر پابندی کی نوٹس سے دستبرداری اختیار کرلی گئی ہے ۔

بہار کی راجدھانی پٹنہ کے جے ڈی ویمنس کالج میں طالبات کے برقع پہننے پر روک لگانے کے بعد زبردست ہنگامہ برپا ہو گیا تھا۔ اس ہنگامے کو دیکھتے ہوئے کالج انتظامیہ نے فیصلہ واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ کالج انتظامیہ نے یو ٹرن لیتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ لڑکیاں اپنی خواہش کے مطابق کالج برقع پہن کر بھی آ سکتی ہیں۔ اس سے قبل کالج انتظامیہ نے نیا قانون نافذ کرتے ہوئے مسلم طالبات سے صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ وہ برقع پہن کر نہ آئیں کیونکہ وہ سبھی طالبات میں یکسانیت دیکھنا چاہتی ہے۔

بہر حال، فیصلہ واپس لیے جانے کے بعد مسلم طالبات نے راحت کی سانس لی ہے اور اب وہ برقع پہن کر کالج جا سکیں گی۔ اگر یہ فیصلہ واپس نہیں لیا جاتا تو برقع پہننے والی طابات کو 250 روپے جرمانہ عائد کرنے کی بات کالج انتظامیہ نے کہی تھی۔ کالج انتظامیہ نے کہا تھا کہ ہفتہ (سنیچر) کو چھوڑ کر باقی سبھی دن طالبات یکساں ڈریس کوڈ میں ہی کالج آئیں۔

کالج انتظامیہ کے ذریعہ برقع پر پابندی لگائے جانے کی خبر پھیلتے ہی مسلم طبقہ میں کافی ناراضگی دیکھنے کو ملی تھی۔ طالبات نے خود بھی اس سرکلر پر سخت اعتراض ظاہر کیا تھا اور سوال اٹھایا تھا کہ کالج کو برقع سے آخر پریشانی کیا ہے۔ اب جب کہ قانون واپس لے لیا گیا ہے تو طالبات میں خوشی کا ماحول ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کالج انتظامیہ نے ان کے اوپر جان بوجھ کر یہ قانون تھوپنے کی کوشش کی تھی۔

برقع پر پابندی والی بات جب میڈیا میں آئی تو کچھ لوگوں نے کالج انتظامیہ سے اس سلسلے میں سوال کیا تھا جس پر کالج پرنسپل شیاما رائے نے صفائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ "ہم نے اس ضابطہ کے بارے میں پہلے ہی اعلان کر دیا تھا۔ نئے سیشن کے اورینٹیشن کے وقت بھی طالبات کو اس شرط کے بارے میں مطلع کیا گیا تھا۔" پرنسپل کا کہنا تھا کہ ایسا اس لیے کیا گیا تھا تاکہ طالبات ظاہری طور پر برابر نظر آئیں۔

مسلم مذہبی پیشواؤں نے بھی کالج انتظامیہ کے فیصلے پر اعتراض ظاہر کیا تھا۔ امارت شرعیہ کے کارگزار ناظم مولانا شبلی القاسمی نے کہا تھا کہ اس معاملے کی تفتیش کی جائے گی۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر پابندی لگی ہے تو ہم اس کی مخالفت کریں گے۔ مسلم مذہبی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ جے ڈی ویمنس کالج انتظامیہ کا یہ قدم غلط ہے۔ اس سے پرنسپل کی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے۔ مذہبی رہنماؤں نے یہ بھی الزام عائد کیا تھا کہ اس قانون کے ذریعہ ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ سماج کو توڑنے والا قدم ہے۔

دوسری طرف ورلڈ انسٹی ٹیوٹ اآف اسلامک اسٹڈی فور ڈائیلاگ کی ڈی جی ڈاکٹر زینت شوکت علی نے کہا کہ کالج اگر کسی کے خصوصی لباس پر روک لگاتا ہے تو یہ اس شخص کے جمہوری حقوق کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسلام میں خواتین کو باعزت طریقے سے کپڑے پہننے کو کہا گیا ہے اور اس پر طالبات عمل کرتی ہیں تو کسی کو اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .