حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کی ریاست کرناٹک کے ایک کالج میں پرنسپل نے حجاب پہننے والی طالبات کو کلاس سے باہر بیٹھ کر پڑھنے کا حکم دے دیا۔ ۲ ہفتے سے معاملہ چل رہا ہے۔ لیکن پرنسپل کا کہنا ہے کہ کالج آنے کے لیے تو حجاب پہن سکتی ہیں۔ کالج کے اندر حجاب پہن کر گھوم بھی سکتی ہیں۔ لیکن کلاس میں سب لڑکیاں برابر ہیں۔ لہٰذا کالج میں پڑھنا ہے تو حجاب اُتار کر آئیں ورنہ یونہی کلاس کے باہر برامدوں میں بیٹھ کر پڑھیں۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے، جتنی بھی لڑکیاں مسلمان ہیں وہ کالج چھوڑ کر جا سکتی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق،معاملہ اُڈپی کےگورنمنٹ ویمنس پی یو کالج کا ہے۔ چھ مسلم طالبات نے الزام لگایا ہےکہ پرنسپل انہیں کلاس میں حجاب پہننے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں اُردو، عربی اور بیری زبان میں بات کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ پرنسپل کا کہنا ہے کہ طالبات کیمپس میں حجاب پہن سکتی ہیں،لیکن کلاس روم میں اس کی اجازت نہیں ہے۔
طالبات نے دعویٰ کیا کہ ان کے والدین نے پرنسپل رودر گوڑا سے بھی رابطہ کیا، لیکن انہوں نے اس مسئلہ پر بات کرنے سے انکار کردیا۔لڑکیوں نے بتایا کہ گزشتہ تین دنوں سے ان کی حاضری بھی درج نہیں کی جارہی ہے اور انہیں ڈر ہے کہ اس سے کالج میں ان کی حاضری کم ہو سکتی ہے۔
دوسری طرف کالج کے پرنسپل رودرا گوڑا نے کہا کہ طالبات کیمپس میں حجاب پہن سکتی ہیں لیکن کلاس روم کے اندر اس کی اجازت نہیں ہے۔ کلاس روم میں یکسانیت کو یقینی بنانے کے لیے اس اصول پر عمل کیا جا رہا ہے۔پرنسپل نے کہا کہ اس معاملے پر جلد ہی والدین اور اساتذہ کی میٹنگ بھی بلائی جائے گی۔
واضح رہے کہ معاملہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کرناٹک حکومت تبدیلی مذہب مخالف بل لانے پر زور دے رہی ہے۔اس بل کوابھی قانون بننا ہے کیونکہ اسے قانون ساز کونسل سے پاس ہونا باقی ہے۔
چیف منسٹر بسواراج بومئی نے بل کو آئینی اور قانونی قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس بل کا مقصد تبدیلی مذہب کے خطرے سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے