۲۹ فروردین ۱۴۰۳ |۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 17, 2024
همه قومیت‌ها در ساختار حکومت نقش خواهند داشت

حوزہ / افغان طالبان کے ترجمان نے افغانستان میں طالبان کے حکمران گروپ کے طور پر قیام سے متعلق بعض اہم مسائل پر طالبان کے موقف کے بارے میں پریس ٹی وی سے گفتگو کی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی سروس کے مطابق، افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے افغانستان میں طالبان کے حکمران گروپ کے طور پر قیام سے متعلق بعض اہم مسائل پر طالبان کے موقف کے بارے میں پریس ٹی وی سے گفتگو کی ہے۔ جس کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:

ناظم: اس وقت افغانستان میں کس قسم کی حکومت کا تصور کیا جا رہا ہے؟

جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ پچھلے بیس سالوں سے ہم امارت اسلامی افغانستان (حکومت اسلامی افغانستان) پر قبضے کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے لیکن اب ہمارے رہنما افغانستان میں ایک جامع اسلامی ریاست کے قیام کے لئے ایک دوسرے سے مشاورت کر رہے ہیں۔ افغان سیاستدان اور مختلف  افغانستانی شخصیات اس حکومت میں موجود ہوں گیاور  یہی ان مشاورتوں کا مقصد بھی ہے جو اس وقت کی جاری ہیں۔

ناظم: حکومت کی شمولیت کے بارے میں کیا پشتون قومی گروہ بھی حکومت کا حصہ بنے گا؟

ہاں بالکل۔ افغانستان کی اسلامی امارت کسی مخصوص نسل پر مبنی نہیں ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے پاس بدخشان میں تاجک قومیت آباد ہے۔ فاریاب ، سری پل اور دیگر شمالی ریاستیں بھی ہیں کہ جو ازبک ہیں۔ اسی طرح جنوب میں پشتون اور دیگر نسلیں مل کر افغانستان کی اسلامی امارت کو تشکیل دیتی ہیں اور درحقیقت وہ افغانستان کے لوگ ہی تو ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام افغانستانی جامع اسلامی ریاست افغانستان کا حصہ بنیں۔ لہذا تمام قومیں افغانستان کی بہبود کے ساتھ ساتھ حکومت میں بھی حصہ لے سکتی ہیں کیونکہ یہ ان کا حق ہے۔

ناظم: میرا سوال دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف طالبان کے مؤقف اور داعش کے ساتھ طالبان کے تعلقات کے بارے میں ہے۔ اگر القاعدہ کی طرح داعش بھی کہتی ہے کہ وہ طالبان کی چھتری تلے رہنا چاہتی ہے تو طالبان اس دہشت گرد گروہ کے خلاف کیا مؤقف اختیار کریں گے؟

اولا تو داعش ایک افغانی وجود نہیں ہے بلکہ افغانستان میں موجود ایک غیر ملکی وجود اور رجحان ہے۔ ثانیا ہم نے انہیں شمالی صوبے کے ساتھ ساتھ مشرقی صوبہ ننگرہار، کونار سے بھی نکال دیا ہے اور داعش کے تقریبا ۲۶۰۰ اراکین کو کابل حکومت کے حوالے کر دیا ہے۔ داعش کے ساتھ ہماری جنگ کے دو یا تین سالوں کے دوران امارت اسلامیہ افغانستان کے تقریبا 1200 افراد شہید ہوئے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ  ہم نے داعش کو ان ریاستوں سے نکال باہر کر دیا ہے اس لئے اب افغانستان میں داعش کے ارکان نہیں ہیں۔ اگر داعش نے دوبارہ سر اٹھایا تو انہیں سرکوب کیا جائے گا۔ افغانستان کے لوگ داعش کو نہیں چاہتے کیونکہ داعش نے ان کے خلاف تشدد کی کارروائیاں کی ہیں۔ اسلامی امارت افغانستان ایک ایسی اسلامی ریاست کا مطالبہ کرتی ہے جس میں تمام نسلوں کی موجودگی ہو اور درحقیقت ایک ایسی اعتدال پسند اسلامی ریاست ہو کہ جس کے پڑوسیوں اور دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہوں۔

ناظم: آپ نے کہا کہ داعش اب افغانستان میں موجود نہیں ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں امریکہ نے کل اپنے بیان میں کابل ایئر پورٹ تک رسائی میں سیکورٹی کے فقدان کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ وہ داعش کے حملوں کی وجہ سے افغانستان میں امریکیوں کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

افغانستان کے کسی بھی صوبے میں داعش کے کوئی ارکان کھلے عام موجود نہیں ہیں ہاں ممکن ہے کہ وہ خفیہ طور پر موجود ہو سکتے ہیں۔ یقینا ہماری انٹیلی جنس اور سیکورٹی ایجنسیاں افغانستان کے تمام صوبوں اور علاقوں کی نگرانی کرتی رہتی ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا یہ ممکن ہے کیونکہ داعش کے کچھ ارکان جیل میں تھے اورجب  کابل میں حکومتی فورسز نے اپنی پوسٹیں چھوڑیں تو داعش کے بعض ارکان جیلوں سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ تو اس لئے یہ ممکن ہے کہ وہ خفیہ طور پر موجود ہوں ۔ یقینا ہم نے کسی بھی طرح کے واقعات کو روکنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کر رکھی ہیں۔

ناظم: کیا طالبان امریکہ کے افغانستان پر 20 سالہ قبضے کا معاوضہ طلب کریں گے اور واشنگٹن کو بین الاقوامی ٹربیونل میں لانے کی کوشش کریں گے؟ اس وقت طالبان اور واشنگٹن کے تعلقات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

ہم نے بیس سال تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا مقابلہ کیا۔ ہمارا ملک ان کے قبضے میں تھا اور اب بھی ہے کیونکہ امریکی افواج نے ابھی مکمل طور پر یہ ملک نہیں چھوڑا ہے۔ ہم اس دورانیہ کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور ایک نیا باب شروع کرنا چاہتے ہیں جس میں ہم امن، ملک کی تعمیر نو اور اپنے لوگوں کے درمیان باہمی تعاون کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کو بھی مدنظر رکھیں گے۔ میرے خیال میں اس نئے دور میں امریکہ کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ لے کیونکہ امریکیوں نے اس ملک کو صرف تباہ کرنے اور اس کے لوگوں کو قتل کرنے میں کردار ادا کیا۔ اب امریکہ کو افغانستان کے لوگوں کے لئے امن اور خوشحالی لانے میں مدد کرنی چاہیے۔ یہ امریکہ کا اخلاقی فرض ہے۔ البتہ ہم اس نئے دور میں پوری دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔

ناظم: آپ نے کہا کہ آپ ساری دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ کیا آپ کے خیال میں امارت اسلامیہ کے صیہونی حکومت (اسرائیل) کے ساتھ بھی تعلقات ہونے چاہیۓ ؟

بالکل بھی نہیں۔

ناظم: آپ کی نظر میں افغانستان کے حالات کا مجموعی جائزہ کیا ہے؟

افغانستان کے حالات دن بہ دن بہتر ہو رہے ہیں۔ ہماری سکیورٹی فورسز نے کابل کو فتح کر لیا ہے اور ہم لوگوں کو کام پر واپس آنے کے لئے ایک محفوظ ماحول فراہم کرنے میں پیش رفت حاصل کر رہے ہیں۔ تعلیمی سال شروع ہو چکا ہے اور طلباء سکول جا رہے ہیں اور اساتذہ کلاس میں واپس آ گئے ہیں۔ دوسرے افراد نے بھی اپنا کام دوبارہ شروع کر دیا ہے۔ بہرحال ابھی ملک میں حالات کو معمول پر لانے کے لئے مزید اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ مجھے امید ہے کہ عوام مستقبل قریب میں خوشحال ہوں گے۔ محفوظ اور پرامن ماحول سے لطف اندوز ہوں گے اور اپنی کوششوں کو صرف ملک کی تعمیر نو اور ترقی پر مرکوز رکھیں گے۔ میں پرامن اور باہمی تعاون کی امید بھی رکھتا ہوں جو ہم نے ماضی میں نہیں دیکھا۔

ناظم: آپ نے تعلیمی سال کے آغاز کا ذکر کیا۔ اس وقت طالبان کے نقطہ نظر کے بارے میں کافی تشہیر ہو رہی ہے۔ کیا لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت ہوگی؟ اس نئی امارت میں خواتین کے عمومی کردار کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

پورا افغانستان ہمارے کنٹرول میں ہے۔ یہاں ہزاروں لڑکیوں کے سکولز ہیں جو فعال ہیں اور ان کی طالبات کلاس میں جا رہی ہیں۔ کسی کو سکول جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور اس وقت سب طلباء سکول جا رہے ہیں۔ خواتین اساتذہ نے بھی اپنا کام دوبارہ شروع کر دیا ہے۔ خواتین کے لئے تعلیم اور تربیت کے ساتھ ساتھ دوسرے اداروں میں بھی  کام کرنے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ صرف اسلامی حجاب کی پابندی لازمی ہے۔ خواتین کے حقوق میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ ہم نے خواتین کو ان کے تمام حقوق سے پاسداری کا حق دیا ہے۔ صرف حجاب ضروری ہے۔ مغربی ممالک میں خواتین بغیر حجاب کے کلاسوں میں شرکت کرتی ہیں لیکن ہم ایک اسلامی معاشرے کے طور پر یہی کہتے ہیں کہ خواتین صرف حجاب پہن کر ہی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔ حجاب اسلامی ثقافت کا حصہ ہے۔ اس لئے کسی بھی عورت کو اپنے حقوق کے بارے میں پریشان نہیں ہونا چاہئے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .