۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
اربعین

حوزہ/ یہ جتنی بھی نعمتیں  جو ہمارے اطراف میں بکھری پڑی ہیں ان سب کے استعمال کے بعد بھی انسان اگر اپنے وجود ہی کے ارد گرد چکر کاٹتا رہے تو اس میں اور ایک جانور میں کیا فرق ہے ،  کربلا کا کمال یہ ہے کہ انسان کو  اپنے وجود سے اوپر اٹھا کر اس منزل پر پہنچاتی ہے کہ  جہاں انسان دوسروں کے لئے جینے کا ہنر سیکھتا ہے۔

تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | الحمد للہ ایک بار پھر ہم میں اسے ہر ایک عاشق حسینی خود کو ایک عظیم و یادگار سفر کے لئے آمادہ کر رہا ہے کچھ وہ ہیں جو پہلے ہی سید الشہداء سے تجدید عہد کے لئے کربلا پہنچ چکے ہیں کچھ منزل کی طرف گامزن ہیں تو کچھ نجف و کربلا کے راستے میں ہیں۔ اربعین الشہداء انسان کے وجود کے اندر ملکوت کی طرف پرواز کا ایسا شوق جگا دیتی ہے کہ کربلا پہنچے بنا انسان کو سکون نہیں ملتا کربلا پہنچ کر انسان کو محسوس ہوتا ہے کھوئی ہوئی متاع حیات اسے مل گئی ہو ۔ چہلم سید الشہداء کے موقع پر دنیا کے کونے کونے سے عاشقان سید الشہداء کا کربلا کی طرف ہجوم ، اس بات کی دلیل ہے کہ ۶۱ ہجری میں سید الشہداء علیہ السلام نے جو آواز استغاثہ بلند کی تھی آج بھی دنیا میں اس پر لبیک کہا جا رہا ہے ، لبیک یا حسین ع کی عملی تصویر آپ کو اس وقت کربلا میں نظر آ جائے گی جہاں ایک طرف شوق پرواز ہے تو ایک طرف مستحکم ارادہ جو لوگوں کے عظیم اجتماع کو کربلا کی طرف مائل کر رہا ہے ۔ عام طور پر کربلا کے سلسلہ سے کہا یہ جاتا ہے کہ انسان کے وجود کے اندر شوق و جذبہ ہو تو انسان کربلا پہنچ جائے گا شک نہیں ہے کہ انسان کی لگن و چاہت کسی بھی مطلوبہ ہدف تک پہنچنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن ساتھ ہی انسان کا ارادہ اس کی تدبیر کا بھی اس میں اہم رول ہے ورنہ بہت سے لوگ شو ق تو رکھتے ہیں جذباتی طور پر ان کے اندر یہ بات ہوتی ہے کہ وہ خود کو کربلا پہنچا دیں مگر کبھی کبھی ارادہ کا مستحکم نہ ہونا یا ضروری چارہ جوئی کا نہ ہونا تدبیر کا فقدان انسان کو عظیم سعادت سے محروم کر دیتا ہے فلسفی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو شوق" جزوی اور حیوانی ہے، اور "ارادہ " عمومی اور انسانی ہے، شوق لذت آمیز سرگرمیوں کی اصل ہے تو ارادہ تدبیری سرگرمیوں کا سرآّغاز ہے [1] انسان کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے شوق کو معنوی رخ دے دے اور اپنی چاہتوں کو اپنے معنوی ارادے کا تابع بنا لے ، ہم نے اس سے قبل بھی عرض کیا تھا انسان کی خواہشوں کی یہ خصوصیت یہ ہے کہ حیوانی عنصر انسان کو خواہش کی زنجیر کے ذریعہ اپنی طرف کھینچتا ہے ، انبیاء الہی کا کمال یہ تھا کہ انبیاء انسان کو خواہشوں سے آزاد کرانے کے لئے آئے تھے ۔
انبیاء اور انسان کی اعلیٰ خواہشات کو آزاد کرنا:
انسان کی ہر خواہش ایک قوت ہے۔ انبیاء قوتوں اور انسانی خواہشوں کو ختم کرنے کے لیے نہیں آئے تھے بلکہ وہ اس لئے آئے کہ انسان کو خواہشوں کے بندھنوں سے نجات دیں – انبیاء انسانی وجود کی قوتوں اور اعلیٰ خواہشات کو آزاد کرنے کے لیے آئے تاکہ وہ اعلی تمایلات و رجحانات ، جو فطری خواہشات کے بعد وجود میں آنا چاہیے انہیں ابھارا جا سکے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء روحانی آزادی دینے کے لیے آئے ہیں، اور تربیتی پہلو سے اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ وہ انسانی وجود کو انحصار اور اجارہ داری کی قید سے باہر نکالتے ہیں زندان سے اسے رہا کراتے ہیں ۔ زندان میں نہ جانے والے انسان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کبھی جیل میں نہیں گیا اس نے کبھی زندان میں قدم نہیں رکھا ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خواہشوں جیل میں قید نہیں ہے جبکہ دنیاوی انسان حیوانی خواہشات میں گھرا ہوا ہے[2]۔ ہر خواہش انسان میں ایک قوت وصلاحیت ہے۔ جب تک اس خواہش کو متحرک نہیں کیا جاتا ہے، وہ قوت صلاحیت اپنے آپ میں جامد اور پا بہ زنجیر ہے اس پر لگام کسی ہوئی ہے ، یہ کسی محرک کے ذریعہ احیاء و آزاد ہوتی ہے ۔ انبیاء قوتوں اور صلاحیتوں کو روکنے اور ان پر لگام کسنے نہیں آئے ہیں نہیں آئے تھے، بلکہ وہ پابند صلاحیتوں اورقوتوں کو اسارت سے چھڑانے آئے تھے ۔ پیغمبر اسلام نے عربوں کو اس دنیا ترک کر دینے کا ہنر سکھایا ، یعنی انہوں نے آخرت کو چھوڑ دینے کے تصور کو چھوڑ دینے کا طریقہ سکھایا ، اور اس وجہ سے آپ نے ان کی صلاحیتوں کو آزاد کیا انہیں پابند نہیں بنایا[3]۔
اسلام اور خواہشات:
روحانی سرمائے کے لحاظ سے اسلام خواہشات کو دبانے کے حق میں نہیں ہے کیونکہ ہر خواہش ایک قوت ہے، بلکہ یہ اعلیٰ خواہشات کی آبیاری کے حق میں اور خواہشوں کی کسی خاص دائرہ میں سکڑ جانے اور انحصار سے نکلنے کے ہے حق میں ہے اس بات کا طرفدار ہے کہ اعلی خواہشات کو پروان چڑھا کر بندشوں کو توڑا جائے [4]۔
دین کا مقصد روحانی قوتوں کے سلسلہ کو قید و بند سے آزاد کرانا ہے روحانی قوتوں کا وہ سلسلہ جس کےلئے آزاد ہونا ضروری ہے [5]۔
ہر خواہش ایک قوت ۔
موجودہ خواہشات کو روکنا اور ان سے تصادم و لڑنا حل نہیں ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ انسانی وجود کی اعلیٰ خواہشات کو ابھارا جائے پروان چڑھایا جائےا اور درحقیقت شخصیت کی نشوونما اور بندشوں و انحصار، اور محدودیت سے نکلنا ہے۔ ۔ اس کا حل یہ نہیں ہے کہ حسی خواہشیں مدھم ہو جائیں انہیں ختم کر دیا جائے بلکہ حل یہ ہے کہ ملکوتی صلاحیتیں و قوتیں آزاد ہو جائیں ، حل یہ ہے کہ خدائی قوتوں کو رہا کیا جائے۔ اس کا حل موجودہ چشموں کو پر کرنا نہیں ہے ، بلکہ دوسرے صاف چشموں کو جاری کرانا ہے ۔ اس کا حل خواہشات پر مشتمل موجودہ اس شخصیت کو ختم کرنا نہیں جو خواہشوں کی ترکیب سے مل کر بنی ہے بلکہ یہ شخصیت کا ایک اور جنم اور اسے وسعت بخشتے ہوئے شخصیت کی نشوونما ہے [6]۔
انبیاء اور قوتوں کو ابھارنا اور سنوارنا :
انبیاء جو قوتوں اور صلاحیتوں کو متحرک اور منظم کرتے ہیں وہ صرف فرد کی تعمیر اور انسانی معاشرے کی تعمیر کے ایسا کرتے ہیں اور دوسرے لفظوں میں وہ انسانی سعادت وکامیابی کے لیے ہوتے ہیں، فرد کو بگاڑنا یا انسانی معاشرے کو برباد کرنا ن یہ چیز ناممکن و محال ہے ، یعنی ان یہ کوشش معاشرے اور فرد دونوں ہی کی تعمیر کے لئے ہوتی ہے خواہشوں کو ابھار کر وہ معاشرہ کو تباہ کریں ایسا محال ہے [7]
اصل رجحان و خواہش :
ایک عارف کی تشخیص کے مطابق انسان کے وجود کے اندر جو اصلی رجحان و خواہش کا وجود ہے وہ ان جزوی خواہشات کے سلسلے سے کہیں زیادہ عمیق وگہرا ہے جو انفرادی جسم کی بقا یا نوع کی بقا کا ذریعہ ہیں، سونے کی خواہش۔
کھانے کی خواہش یا جنسی خواہشات ، انسان میں بنیادی خواہش ماورائی خواہش ہے، یعنی اصل کی طرف لوٹنے کی خواہش، حق کی طرف لوٹنے کا درد۔ دوسری خواہشات کے لحاظ سے انسان اپنے اندر کچھ اور شامل کرنا چاہتا ہے، مثلاً کھانا، پانی، مال جائداد لیکن اس خواہش کے مطابق وہ کچھ اور چاہتا ہے۔ یعنی اپنے آپ سے بلکہ اپنے حقیقی اور اصل میں حقیقی وجود سے جڑ جائے [8]
یہ جتنی بھی نعمتیں جو ہمارے اطراف میں بکھری پڑی ہیں ان سب کے استعمال کے بعد بھی انسان اگر اپنے وجود ہی کے ارد گرد چکر کاٹتا رہے تو اس میں اور ایک جانور میں کیا فرق ہے ، کربلا کا کمال یہ ہے کہ انسان کو اپنے وجود سے اوپر اٹھا کر اس منزل پر پہنچاتی ہے کہ جہاں انسان دوسروں کے لئے جینے کا ہنر سیکھتا ہے ، وہ اپنی خواہشوں کی تسکین اس بات میں محسوس کرتا ہے کہ دوسروں کی خواہشوں کا احترام کرے دوسرے کا ہاتھ تھام سکے ، اپنی صلاحیتوں کو دوسروں کے لئے استعمال کرے ، آپ نجف سے کربلا تک اس روح پرور منظر کو دیکھتے ہیں کہ اربعین السید الشہداء کے موقع پر ہر ایک فیلڈ کا ماہر انسان یہ کوشش نہیں کرتا کہ اسے کچھ حاصل ہو جائے بلکہ ہر ایک کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ دوسرے کو کچھ سکون پہنچایا جا سکے اور اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ کربلا انسان کا ہاتھ تھام کر ایسی منزل پر لے جائے جہاں خواہشوں کی زنجیریں انسان کو اپنی طرف نہ کھینچ سکیں بلکہ انسان اپنے ارادے کو اتنا مضبوط بنا لے کہ اس کے ارادے سے بڑھ کر کچھ نہ ہو ارادہ انسان تابع مزاج حسینیت بن جائے اس سے بڑھ کر بلندی اور کیا ہوگی ؟ مالک ہم سب کو توفیق دے کہ اربعین الشیداء علیہ السلام کے یاد گار اور تاریخی سفر سے ہم اپنے لئے وہ توشہ معنویت اکھٹا کر سکیں جسے حاصل کرنے کے بعد انسان حقیقت میں حر بنتا ہے ۔ ۔

[1] ۔ شرح منظومہ ،مجموعۀ آثار شہید مطہری، جلد ۵ ص ۴۵۶

[2] ۔ یادداشتهائے شهید مطهری جلد 4، ص 76۔

[3] یادداشتهائے شهید مطهری جلد 2، صفحہ 153

[4] ۔ یادداشتهائے شهید مطهری جلد 4، صفحہ 109۔

[5] ۔ حکمت ہا و اندرز ہا (۱ و ۲)، مجموعۀ آثار شہید مطہری، جلد 22، صفحہ 219۔

[6] ۔ یادداشتهائے شهید مطهری، جلد 4، ص 82۔

[7] ۔ وحی و نبوت، مجموعۀ آثارشہید مطہری ،جلد 2، صفحہ 166۔

[8] ۔ یادداشتهائے شهید مطهری، جلد ۱۔ ص ۳۰۷

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .