۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
حجۃ الاسلام والمسلمین سید رضی الموسوی

حوزہ/ آج ظالم کے سامنے کوئی حقیقی معنوں میں ڈٹا ہوا ہے تووہ ایران ہے سید حسن نصراللہ اس جملے کی مصداق بن کر اسرائیل و امریکہ کے سامنے سینہ سپر ہے آج کے یزید کے سامنے اگر کوئی ڈٹا ہے تو رہبر معظم کے پیروکار کھڑے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ سید رضی الموسوی نے جامع مسجد کشمیریاں لاہور میں خطبہ روز جمعہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہر جمعہ ہم ایک شرعی مسئلے کاذکر کرتے ہیں جیسا کہ آپ جانتے ہیں نماز واجب ہے جب نماز واجب ہے تو نماز سے متعلق تمام احکامات بھی واجب ہیں یعنی اس طرح اس واجب عمل کو ادا کیا جائے کہ خداوند متعال اپنی بارگاہ میں اس عبادت کو قبول کرے آپ اس قدر خضوع و خشوع و توجہ سے نماز پڑھیں کہ خدا اس واجب کو قبول و منظورکرے اسی طرح وضو کے بارے میں بھی توجہ کی تاکید ہے اگر جلد بازی کریں گے وضو کرنےمیں تو ممکن ہے کوئ اشکال پیش آئے اور اگر اشکال پیش آئے تو نماز کی صحت پر اثر انداز ہوسکتا ہے.اسی طرح نماز اور وضو کے بعد اذکار نماز پر بھی توجہ کی ضرورت ہے تلفظ مخارج کا خیال رکھنا بھی واجب ہے ایسا نہیں کہ آپ کو الحمد جس طرح آتی ہے آپ اسی طرح ہمیشہ پڑھتے رہیں بلکہ کوشش کریں تلفظ کو سیکھیں سکھانے والے موجود ہیں سستی و کوتاہی مت کریں ورنہ حقیقی معنوں میں واجب ادا نہیں ہوگا نمازسے متعلق ہر احکام سیکھنا واجب ہے تاکہ ایک مکمل نماز جو مطلوب پروردگار ہے ادا ہوسکے۔

انہوں نے کہا کہ نماز جان چھڑانے والی عبادت نہیں ہے بہت سے لوگ وضو سے لیکر ادائیگی تک کوتاہیاں کرتے ہیں مخرج پر بھی دھیان نہیں دیا جاتا جب س اور ص میں فرق ہے تو لازمی بات ہےان کے مطالب میں اور مخرج میں بھی فرق ہے ان اذکار کو مخرج کے ساتھ ادا کرنا واجب ہے جب سیکھنے کے مراکز موجود ہیں تو کوتاہی مت کریں ایسی ادائیگی ہو کہ خدا اس عبادت کو قبول کرے اسی طرح تکبیرةالاحرام پوری نماز میں واجب تکبیر ہے باقی تکبیرات مستحب ہیں واجب نہیں ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے نماز سے متعلق جو واجبات ہیں اسے سیکھنے کی ہمیں توفیق عطا فرما۔

علامہ رضی نے مزید کہا کہ قرآن اور اہلبیت کا کام آگاہی دینا ہے متنبہ کرناہے اس دنیامیں کیسے جینا ہے اعمال کیا ہیں اخلاقیات واجبات شرعی معاملات مستحبات یہ بتاناآئمہ کا کام ہے عزیزان دنیا میں لالچ مت کریں آخرت کہ طرف متوجہ رہیں وہاں فلاح چاہتے ہو تو یہاں نیک اعمال انجام دینے میں سستی مت کریں متنبہ کیاجاتا ہے جس نے ان باتوں پر عمل کیا وہ فلاح پاگیا اور جو بنا معرفت چلےگِئے وہ یقیناً آج جہنم میں جل رہے ہیں۔

یاد رہےاہل بیت کسی کے ساتھ دوستی یا دل لگی کے لئے دنیا میں نہیں آئے بلکہ وہ خدا کے پیغام کو انسانیت تک پہنچانے آئے ہیں اللہ نے کھلے عام تمام انسانیت کو دعوت عام دیا کہ نیکی کی طرف رجوع کرو کسی کے حسب نصب کو نہیں دیکھا بلکہ کہا جوبھی عمل صالح انجام دے گاوہ کامیاب ہے ایسے ہی تو سلمان اہل بیت کاحصہ نہیں بنے بلال رسول خدا کا منظور نظر نہیں بنا عمار یاسر دین اسلام کے جانباز نہیں بنے یہ سب اپنے اعمال کی وجہ سے فلاح یافتہ قرار پائے.علماء کا بھی یہی کردار ہے وہ بھی آپ لوگوں کو آگاہ کرنے کاکام کرتے ہیں یہ قرآن اور اہلبیت کا دستور ہے یہ دنیا عمل کی جگہ ہے اگر عمل نہیں کرو گے تو ناکام رہ جاو گے رسوا ہوجاو گےانسان کوشش کرے اور کچھ کوتاہیاں رہ جائیں تو اللہ کریم ہے انہیں بخش دیتا ہےمگر بخشش کی امید پر گناہ کرنا جائز نہیں اس کی معافی نہیں ہے.رسول اللہ فرماتے ہیںمیں کیا دیکھ رہا ہوں یہ دنیا کی محبت لوگوں پر اس طرح غالب آچکی ہے کہ یہ سوچتے ہیں کہ موت میرے لئے نہیں ہے بلکہ یہ میرے علاوہ دوسروں کے لئے ہے موت کے لئے تیاری ایسی کرو کہ بندے کے کردار سے پتہ چلے کہ یہ موت کے لئے بالکل تیار ہے جیسے ایک مسافر سفر کے لئے مکمل تیار ہوتا ہے جب ہم حج یازیارت پر جاتے ہیں توہم خود کو آمادہ کرتے ہیں موت کا بھی سفر تیار ہوچکا ہے خود کوآمادہ رکھیں رسول اللہ فرماتے ہیں کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ موت ان کے لئے جیسے ہے ہی نہیں ہے موت کسی وقت کسی بھی جگہ پر کسی حالت میں بھی آسکتی ہے۔

انکا کہنا تھا کہ اور ہم من حیث الانسان مسلمان رسول اللہ کے ان فرامین کو بالکل نظر انداز کررہے ہیں اس وقت بھی بہت سے لوگوں کا دھیان درس پر کم اور دکان کی طرف زیادہ ہے کیا پتہ ملک الموت آپ کی تاک میں ہو ان تمام نصیحتوں کےباوجود لوگ رسول خدا کی باتوں پر عمل نہیں کرتے کیونکہ دنیا کی محبت ان پر غالب آچکی ہےاگر ہم اپنے اطراف کی طرف دیکھیں کتنے لوگ تھے جو کتنے پلاننگ کررہے تھے مگر موت نے ان کو مہلت تک نہیں دیارسول اللہ اسی بات سے آگاہ کرنے توآئے ہیں پھر ایک جگہ فرماتے ہیں شکر کرو خدا نے تمہیں موت کے وقت سے آگاہ نہیں کیا ورنہ تم شاید بے خبر اپنے امور میں مگن رہتے اس مہلت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے یا موت کے انتظار میں کوئ کام نہ کرتے اسی لئے خدا نے موت کے وقت اور جگہ سےکسی کو آگاہ نہیں رکھا تاکہ ہم ہر وقت توبہ کرتے رہیں.پھر کیا فرماتے ہیں کہ دنیا کی محبت میں ایسے مصروف ہوچکے ہو کہ اپنی موت کو بھول چکےہو کیسے موت کا خیال آئے جب تک حب دنیا دل میں ہے موت کا تصور کیسے ہمارے دل میں آئے کیونکہ یہاں تو حب دنیا نے ڈیرا ڈال لیا ہےجس دن آخرت سے محبت ہوجائے موت کی فکر ہمیشہ ساتھ رہے گی آخرت کو آباد کرنے کی فکر رہے گی اسی لئے خدا فرماتا ہےمتقی بن کر رہو آخرت آباد رہے گی لوگوں کو چاہیے کے حق ادا کرتے رہیں دروس سے رغبت نہیں ہر کسی کو اپنے کام سے محبت ہوچکی ہے جیسے یہ وعض و نصیحت ہمارے لئے ہے ہی نہیں ہم تو عالم ہیں یہ تو جاہلوں کے لئے ہے یہ حقوق اللہ و حقوق العباد ہیں جو ہماری گردنوں پر ہے مگر ہم ہر چیز سے بےنیاز اپنی دنیا میں مگن ہیں.پھر فرماتے ہیں گویا ان لوگوں نے اپنے سے پہلے لوگوں کی کہ موت نہ دیکھی ہے نہ موت سنی ہے کیا آپ لوگ روز موت کے اعلانات نہیں سنتے ہم روز جنازوں میں شرکت کرتے ہیں مگر واللہ ہم پر بالکل اثر نہیں ہورہا ہم میں سے کتنوں نے اپنے پیاروں کو اپنے ہاتھوں سے دفن کیااپنے آپ کو ضمیر کی عدالت میں کھڑا کرو اور پوچھو تمہیں موت کی کتنی فکر ہے واقعی ہم مجرم ہیں.خدا ناکردہ اس حالت میں موت آجائے تو کیا انجام ہوگا دنیا کی دکان تو چلتی رہے گی آخرت کی دکان کا کیا کرو گے وہاں کے لئے کونسا مال بھیجا ہے دنیا میں جو ناجائز مال جمع کیا آخرت میں اسے لیکر جانا چاہتے ہو ہم نے تو دو دو دکانیں کھولی ہوئ ہیں ایک ہماری اپنی دکان اور ایک تجاوزات کی مد میں کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں اس حالت میں موت آجائے کیا جواب دو گے اللہ کو موت کو بھول چکے ہیں۔

انہوں نے حالات حاضرہ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حالات حاضرہ آپ کے سامنے ہیں امیر المومنین نے وصیت کیا تھا کہ ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دینااور ظالم کے مقابل کھڑے رہناآج مولا کے جملے کی صحیح عکاسی کوئی کررہا ہے تووہ ایران ہے آج ظالم کے سامنے کوئی حقیقی معنوں میں ڈٹا ہوا ہے تووہ ایران ہے سید حسن نصراللہ اس جملے کی مصداق بن کر اسرائیل و امریکہ کے سامنے سینہ سپر ہے آج کے یزید کے سامنے اگر کوئی ڈٹا ہے تو رہبر معظم کے پیروکار کھڑے ہیں۔ ظالم فقط امریکہ یا اسرائیل نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں موجود ظالمین بھی اس میں شامل ہیں۔تنظیموں میں موجود ظالمین کے خلاف بھی یہ جملہ ہے مولا فرماتے ہیں بس ظالم جو بھی ہو اس کے سامنے ڈٹ جاو آج ہم اپنے فیصلوں میں امیر غریب کا فرق کرتے ہِیں ہم چودہ عادل آئمہ کے ماننے والے کس طرف جارہے ہیں ہمارے آئمہ نے ظالموں کے خلاف مسلسل قیام کیا ہم تو اپنے علاقے کےبڑوں کے خلاف نہیں بول سکتے چاہے وہ صحیح کریں یا غلط کریں۔ظلم فقط جسمانی اذیت نہیں عدل و انصاف نہ کرنا بھی ظلم ہے صاحبان معرفت سے بے توجہی بھی ظلم ہے اپنی برادری کے لئے تو سب کچھ کررہے ہیں مگر علماء کے لئے کوئ کام نہیں کررہے اپنے امور پر مکمل توجہ دے رہے ہیں مگر جب علماء کی باری آتی ہے لوگ نظریں چراتے ہیں یہ ہے بھی ظالم کا ساتھ دینا ہے یہ بھی ظلم ہے۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ معاشرے میں موجود کتنے بیواوں مسکینوں کے آپ مددگار ہیں یہ بھی ظلم ہے ہمارے اندر موجود مظلوموں کی کسی کو پروا نہیں اور فلسطین اور کشمیر کے مظلوم نظر آرہے ہیں مولا علی کے دور میں کوئی یتیم بھوک سے نہیں رویا آپ اور میرے رشتہ دارروں میں آج کوئی غربت سے رورہا ہے کوئی قرض کی وجہ سے رورہا ہے آج سے عہد کروہر مظلوم کا ساتھ دیں گے اور کوئ ظالم ہی کیوں نہ ہو چاہے وہ ہمارے علاقے کا چوہدری ہی ہو ہم اس کے خلاف قیام کریں گے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .