۲۹ خرداد ۱۴۰۳ |۱۱ ذیحجهٔ ۱۴۴۵ | Jun 18, 2024
امیر عبدالهیان

حوزہ / طالبان نے دہشت گرد گروپ داعش کے اعتراض کے جواب کہ "ہم نے ایرانی مرحوم صدر کی تعزیت کیوں پیش کی ہے؟ اور ہم شیعہ کی تکفیر کیوں نہیں کرتے؟، کو بیان کرتے ہوئے داعش اور طالبان کے درمیان فرق کو بیان کیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، طالبان حکومت کے خلاف تکفیری گروہ داعش کا ایک نیا مضمون جو کہ ایرانی صدر اور ان کے ساتھیوں کے ہیلی کاپٹر حادثہ میں انتقال پر طالبان کی جانب سے جاری تعزیت اور ہمدردی کے اظہار اور ایران کی حمایت کے خلاف شائع کیا گیا تھا، طالبان نے داعش کے اس مقالہ کا اس طرح جواب دیا ہے:

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمدلله؛ اما بعد:

حال ہی میں اہل شہادتین کے قاتلوں یعنی داعش کی طرف سے امارت اسلامیہ کے حکام کے خلاف ایک مضمون شائع کیا گیا ہے جس میں ایران کے صدر کی وفات پر تعزیت اور تسلیت کے اظہار کی مذمت کی گئی ہے۔ اس غیر علمی مقالہ میں انہوں نے بعض شکوک و شبہات کو بیان کیا ہے جس کا ہم مختصراً جواب دیں گے:

اول؛ داعش کے پیروکاروں نے اعتراض وارد کیا ہے کہ "ایران کا شیعہ صدر مشرک تھا اور مشرک کی تعزیت اور تسلیت اسلام میں جائز نہیں ہے!"

اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ:

آپ خارجیوں کے شرک و توحید کا معیار بھی اہل سنت والجماعت سے متصادم ہے اور آپ کے تکفیری اصول کے مطابق تو اہل السنۃ و الجماعت کے ائمہ کی بھی تکفیر کی جاتی ہے۔ کیا یہ آپ خارجیوں کا گروہ نہیں تھا جس نے امامان نووی اور ابن قدامہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے آداب و رواج کی وجہ سے تکفیر کیا تھا؟ کیا یہ آپ کی جماعت نہیں تھی جس نے ابو حنیفہ مذہب کی پیروی کرنے والے عصر حاضر کے بزرگ علماء کو تکفیر کیا تھا؟ کیا آپ کی جماعت کے بعض سرکردہ عناصر نے امام ابوحنیفہ کو "اہل مرجئہ" کہہ کر توہین نہیں کی اور ان کی تکفیر و تفسیق کی؟ آیا اس پر آپ نے ان کو بھی کبھی برا بھلا کہا یا ان کی حمایت ہی کی؟ اسی بہانے سے کس گروہ نے افغانستان، پاکستان اور دیگر سنی علاقوں میں سنی مدارس اور مساجد کو دھماکے سے اڑا یا؟ آپ لوگوں کے شرک، توحید، کفر اور ایمان کے معیار کے مطابق تو جمہور علماء اور عمائدین اہل السنۃ والجماعت بھی تکفیر ہوتے ہیں اور یہ مسئلہ قطعی ہے۔ لہٰذا آپ کی طرف سے اہلِ شہادتین کو مشرک کہنا ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے اور آپ نے کئی برسوں سے اہلِ شہادتین بالخصوص اہل سنت و الجماعت کو بھی اس خلافِ اسلام معیار سے تکفیر کر رکھا ہے۔

دوم؛ آپ نے شیعہ کی تکفیر کے لیے صحابہ کی تکفیر، قرآن کی تحریف، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر فحاشی وغیرہ کے الزامات جیسے مسائل کو بیان کیا ہے اور پھر کہا ہے کہ ان مسائل کی وجہ سے ایران کے شیعہ صدر کی تعزیت نہیں کرنا چاہئے تھی۔

اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں:

اولاً؛ جو مسائل بیان کیے گئے ہیں وہ مصداقی مسائل اور معین ہیں، مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص سبّ و شتم کا ارتکاب کرتا ہے، فلاں شخص تکفیر کرتا ہے، فلاں شخص زنا کی تہمت لگاتا ہے، فلاں شخص قرآن کی تحریف کا قائل ہے، تو یہ سب امور ایک شخص معین اور ایک مصداق کی مثال قرار پاتے ہیں۔

اب امارت اسلامیہ کے حکام کی جانب سے جن افراد کی تعزیت پیش کی گئی ہے ان میں سے کیا آپ کسی ایک ایسے مصداق کے بارے میں بتا سکتے ہیں جو قرآن کی تحریف کا قائل ہو یا اس نے اہل سنت کے مقدسات کی بے حرمتی کی ہو؟

دوم؛ اصل مشکل ہی خود خوارج دواعش کے اندر ہے، کیونکہ انہوں نے آج تک کبھی شیعہ کے ساتھ زندگی ہی نہیں گزاری، حالانکہ افغانستان میں اکثر شیعہ اور سنی اکٹھے رہتے ہیں اور ہم ان کے عقائد سے بھی واقف ہیں، اس لیے ان کے بارے میں جو ناروا باتیں آپ نے کہی ہیں وہ بہت قلیل اور چند افراد کے نظریہ سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں اور ان چیزوں کا مجموعی طور پر شیعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور آپ اس طرح بعض لوگوں کے نظریات یا عقائد کو ایک پورے مذہب سے نتھی کر رہے ہیں، حالانکہ یہ اہل السنۃ و الجماعت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ دوسرے لفظوں میں، آپ لوگ اس طرح اہل شہادتین کی تکفیر کا بہانہ تلاش کر رہے ہیں، جبکہ اہل السنۃ اور سیرت اسلام کا مذہب اور نظریہ یہ ہے کہ اہلِ شہادتین کے بارے میں حسنِ ظن رکھا جائے، سوءِ ظن نہیں۔

آخر میں اس بات پر تاکید کی جانی چاہئے کہ اہل سنت والجماعت کے ساتھ غداری اور خیانت کرنے والے داعش خوارج ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے فلسطین کی اسلامی مزاحمت کو بھی تکفیر کیا اور فلسطینیوں کو ہتھیار فراہم کرنے والوں پر مرتد ہونے کا حکم لگایا۔ (حوالہ کے لئے اصدار ابراہیم دواعش کی طرف رجوع کریں) یہ اہل سنت کے دشمن وہی افراد ہیں جنہوں نے امارت اسلامیہ کے ہزاروں مجاہدین کو شہید کیا اور جنہوں نے امریکہ اور نیٹو کے ہمنوا بن کر امارت اسلامیہ کے ساتھ جنگ کی۔

وہ لوگ جنہوں نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد اپنی تمام تر کوششیں اہلِ شہادتین کے خلاف جنگ پر مرکوز کئے رکھیں اور کبھی بھی اصل کفار اور صیہونیوں کو ذرہ برابر نقصان نہیں پہنچایا۔

لیکن اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جانی چاہیے کہ ایران نے فلسطینی اہل سنت کے دفاع کے لیے کئی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا اور دوسری طرف کئی اقتصادی پابندیوں کو بھی برداشت کیا اور اسی وجہ سے دنیا بھر کا دباؤ بھی سہا لیکن وہ ان کی حمایت سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹا، یہاں تک کہ حماس کے کئی عظیم رہنماؤں نے بھی ایران کی امداد پر انہیں خراجِ تحسین پیش کیا اور اسے سراہا ہے۔

ہم آج خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہماری زمین کا کوئی ٹکڑا آپ کے ہاتھوں میں نہیں لگا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آپ صہیونیوں کی حمایت میں فلسطینی مجاہدین کی امداد کا راستہ تک روک دیتے۔

واقعاً؛ (ایک بات تو بتاؤ کہ) تم لوگوں نے آج تک مسلمانوں کو کیا فائدہ پہنچایا اور اصل کفار کو کیا نقصان پہنچایا ہے ؟

والعاقبه للمتقین

مآخذ: افغانستان اسٹڈیز سینٹر چینل

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .