۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
آل انڈیا علماء بورڈ

حوزہ/ مسلم ممالک کےسربراہانِ سے یہ اپیل ہے کہ طالبان حکومت سے رابطہ کرکے اس فیصلہ کو منسوخ کروایا جائے۔ حکومت ہند کو بھی سفارتی سطح پر اس فیصلے کی مذمت کرنی چاہئے اس لئے کہ یہ صرف خواتین کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ افغانستان کی آنے والی نسلوں کا مسئلہ ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ممبئی/ طالبان حکومت کی طرف سے افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر جو پابندی عائد کی گئی ہے وہ یقینا افسوسناک ہے ، اس طرح کی پابندی خواتین کی حوصلہ شکنی اور حق تلفی کے مترادف ہے ، کیوں کہ تعلیم ہر انسان کا خواہ وہ مرد ہوں یا عورت ان کا بنیادی حق ہے ، اور ہر زمانے میں اس کے حصول کیلئے مستقل انتظامات کیے گئے ہیں۔ عہد نبوی میں غزوۂ بدر کے موقعہ پر جن قیدیوں کو گرفتار کیا گیا ان میں بعض ایسے بھی تھے کہ وہ فدیہ ادا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے ، تو انہیں مسلمان مرد و خواتین کو تعلیم دینے پر مامور کیا تاکہ وہ اِس تعلیم کے عوض رہائی اور آزادی حاصل کرسکیں‌۔ حضرت محمد ﷺ کی تعلیمی سرگرمیوں میں مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی اہمیت دی گئی۔ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے مبارک عہد میں معلمین کی طرح معلمات کا بھی تقرر ہوتا تھا۔ حضرت اُم ورقہ، شفاء بنت عبداللہ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کا شمار عہد رسالت کی معلمات میں بجا طور پر کیا جا سکتا ہے۔رسول کریم ﷺ بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ حدیث میں ہے ؐکہ’’ جس نے تین بیٹیوں کی پرورش کی ان کی تعلیم و تربیت کی اور ان سے اچھا سلوک کیا تو اس کے لئے جنت ہے۔

“ ۔ اسلامی ادوار میں تعلیم کے حصول اور فروغ کے لئے مسلسل کاوشیں کی گئیں ہیں جن میں علوم و فنون کے مختلف میدانوں میں مردوں کے شانہ بشانہ خواتین کی بھی خدمات نمایاں ہیں۔ اس کی تابناک مثالوں سے تاریخ کے روشن ہے ۔ مسجد نبوی میں نمازوں کے بعد تعلیم و تلقین کا اہتمام کیا جاتا جس میں مرد و خواتین یکساں طور پر شریک ہوتیں اور جمعہ ، عیدین اور حج کے خطبات کے ذریعے عمومی تعلیم و تہذیب کا نظم و نسق وغیرہ جس نے ملک و قوم کی قیادت اور انسانی تمدن کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ موجودہ دور میں جہاں تعلیم کی قدر و قیمت پہلے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ بڑھ چکی ہے ، اور بلا امتیازِ مرد و زن تعلیم کے فروغ کے لیے مسلسل تحریکیں سرگرم عمل ہیں ، ایسے حالات میں تعلیمِ نسواں کے سلسلے میں افغان حکومت کا موجودہ فیصلہ یقیناً ناقابلِ برداشت اور انسانی اقدار کے خلاف ہے‌ جس پر افغان حکومت کو نظر ثانی کرکے فیصلہ سے رجوع کرنا چاہئے۔ اور مستقبل میں تعلیمِ نسواں کے فروغ کے لیے مضبوط اور خوش آئند اقدامات کرنے چاہئے۔ ان تمام خیالات کا اظہار آل انڈیا علماء بورڈ کی جانب سے کیا گیا۔ بورڈ نے یہ اعلان جاری کیا کہ تعلیم زندگی کا بنیادی مقصد ہے اور اسلام نے علم و تعلیم کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ہے اور اللہ رب العزت نے نبی کریم ﷺ کو غار حرا میں جو پہلی وحی کے ذریعے نبوت سے سرفراز فرمایا اس کا آغاز بھی لفظ ’ اقراء ‘ سے ہوتا ہے ۔ پھر قرآن مقدس میں کئی مقامات پر تحصیلِ علم کی تشویق و ترغیب دلائی ہے۔ طالبانی حکومت کے اس طرح کے ظالمانہ فیصلے افغان خواتین کے لئے تو تابوت میں آخری کیل ثابت ہونگے علاوہ بین لاقوامی سطح پر اس سے اسلام بھی رسوا ہو رہا ہے کیونکہ اس طرح کے غیر منصفانہ فیصلے اسلام کے نام پر کئے جا رہے ہیں۔

اخیر میں مسلم ممالک کےسربراہانِ سے یہ اپیل ہے کہ طالبان حکومت سے رابطہ کرکے اس فیصلہ کو منسوخ کروایا جائے۔ حکومت ہند کو بھی سفارتی سطح پر اس فیصلے کی مذمت کرنی چاہئے اس لئے کہ یہ صرف خواتین کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ افغانستان کی آنے والی نسلوں کا مسئلہ ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .