حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،طالبان کابینہ میں اعلیٰ تعلیم کے وزیر عبدالباقی حقانی نے ایک نیوز کانفرنس میں نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ دنیا اس بار طالبان کے طرز حکمرانی کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے کہ وہ 1990 کی دہائی کے آخر میں اپنے پہلے دور اقتدار سے کس حد تک مختلف کام کر سکتے ہیں۔ گذشتہ دور میں خواتین کو ملازمت اور تعلیم کے مواقع سے محروم اور عوامی زندگی سے مکمل طور پر خارج کر دیا گیا تھا۔
طالبان نے اب دعویٰ کیا ہے کہ وہ خواتین کے تئیں اپنے رویوں میں تبدیلی لائے ہیں تاہم انہوں نے حالیہ دنوں میں مساوی حقوق کا مطالبہ کرنے والی خواتین مظاہرین کے خلاف تشدد کا استعمال بھی کیا ہے۔
عبدالباقی حقانی نے کہا کہ طالبان وقت کو 20 سال پیچھے نہیں لے جانا چاہتے اور یہ کہ ’ہم آج کے دور میں موجود چیزوں کی تعمیر شروع کریں گے۔
تاہم طالبات کو طالبان کی ان نئی پالیسیوں کے تحت لازمی ڈریس کوڈ سمیت دیگر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا جیسا کہ وزیر تعلیم کا مزید کہنا تھا کہ طالبات کے لیے حجاب لازمی ہوگا لیکن انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ اس کا مطلب سر پر سکارف ہے یا پورے چہرے کا پردہ۔
عبدالباقی حقانی نے کہا کہ کلاس رومز کو بھی صنفی طور پر علیحدہ علیحدہ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک ساتھ پڑھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ’ہم مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
وزیر تعلیم نے کہا کہ یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے مضامین کا بھی جائزہ لیا جائے گا لیکن انہوں نے اس کی مزید تفصیل نہیں بتائی۔
طالبان نے اپنے سابقہ دورہ اقتدار کے دوران موسیقی اور آرٹ پر پابندی عائد کر دی تھی۔