۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا نے اترپردیش کی سبھی ماتمی انجمنوں ،مذہبی تنظیموں شیعہ سنّی و ہندوتعزیہ داروں سے اپیل کی کہ جب تک پولیس انتظامیہ کے ذریعہ اس متنازع اور توہین آمیز سرکلر پر معافی نہیں مانگی جاتی اور اسے واپس نہ

حوزہ/مولانا کلب جواد نے اترپردیش کی سبھی ماتمی انجمنوں ،مذہبی تنظیموں شیعہ سنّی و ہندوتعزیہ داروں سے اپیل کی کہ جب تک پولیس انتظامیہ کے ذریعہ اس متنازع اور توہین آمیز سرکلر پر معافی نہیں مانگی جاتی اور اسے واپس نہیں لیا جاتا ،پولیس انتظامیہ کے ذریعہ بلائی گئی کسی بھی میٹنگ میں شامل نہ ہوا جائے ۔ہم حکومت اترپردیش سے مطالبہ کرتےہیں ڈی جی پی اترپردیش پر اس سلسلے میں سخت کاروائی کی جائے ۔پولیس کا یہ سرکلر شیعہ و سنی اور ہندومسلمانوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے والا ہے ۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ/محرم الحرام کے پیش نظر پولیس انتظامیہ کی جانب سے جاری متنازعہ سرکلر پر سخت اعتراض جتاتے ہوئے مجلس علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سیدکلب جواد نقوی نے آج اپنی رہائش گاہ واقع جوہری محلہ پر پریس کانفرنس کوخطاب کیا ۔

مولانا نے صحافیوں کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ محرم جو ہمارا پاک و مقدس مہینہ ہے جس میں انتہائی پرامن اور پاکیزہ پروگرام منعقد ہوتے ہیں ،پولیس انتظامیہ نے جاری سرکلر کے ذریعہ محرم اور شیعوں کی شبیہ کو خراب کرنے کی کوشش کی ہےاورانتہائی توہین آمیز لفظیں استعمال کی ہیں ۔ایسا محسوس ہوتاہے کہ جیسے ڈی جی پی اترپردیش نے محرم کی روح اور اس کی اسپرٹ کو سمجھے بغیر یہ سرکلر جار ی کردیا۔پولیس انتظامیہ نے سرکلر میں تحریرکیاہے کہ محرم کے جلوسوں میں تبرا پڑھاجاتاہے جس پر دیگر فرقوں کے افراد کو اعتراض ہوتاہے اور جلوسوں میں شرپسند عناصر حصہ لیتے ہیں جو دیواروں اورآوارہ جانوروں پر دوسرے فرقے کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہونچانے کے لیے تبرا لکھتےہیں،یہ بالکل غلط اور محرم کو بدنام کرنے کی سازش ہے ۔محرم پاک اور مقدس مہینہ ہے ۔یہ وہ تیوہار نہیں ہے کہ جس میں لوگ بھنگ پی کے ہلڑ ہنگامہ کرتے ہوںیا شرابیں پی جاتی ہوں ۔محرم غم کا مہینہ ہے جس میں امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی یاد منائی جاتی ہے اس میں کسی قسم کا کوئی ہنگامہ اور بدتمیزی نہیں ہوتی ۔شیعہ اور سنّی دونوں پر امن طریقے سے محرم میں امام حسینؑ کا غم مناتےہیںبلکہ محرم میں ہندوبھی شامل ہوتے ہیں جس کےبارے میں ڈی جی پی صاحب کو معلوم ہونا چاہیے ۔

مولانانے کہاکہ ڈی جی پی اترپردیش کا یہ انتہائی توہین آمیز بیان ہے جسے پڑھ کر محسوس ہوتاہےکہ جیسے یہ بیان ابوبکر بغدادی اور اسامہ بن لادین کی طرف سے جاری ہواہے ۔اس بیان کی وجہ سے پورے اترپردیش میں شیعہ و سنّی تنائو پیدا ہوگیاہے ۔اگر کہیں کوئی واقعہ نمودار ہوتاہے تو اس کی ذمہ داری ڈی جی پی اترپردیش پر عائد ہوگی ۔ڈی جی پی صاحب آپ کس سنہ کی بات کررہے ہیں کہ دیواروں پر اور جانوروں پر تبرا لکھاجاتاہے ؟ کیا آپ آزادی سے پہلے کی بات کررہے ہیں جب انگریز شیعوں اور سنیوں میں پھوٹ ڈلوانے کے لیے ایسا کرتے تھے ؟۔ آپ کو محرم کی تاریخ بھی معلوم ہے یا نہیں؟ یا ہوا میں سرکلر جاری کردیا۔

ڈی جی پی اترپردیش اس کے ثبوت پیش کریں کہ جلوسوں میں کہاں تبرا پڑھاجاتاہے ۔جلوسوں میں نوحے پڑھے جاتے ہیں ،ماتم ہوتاہے اور امام حسینؑ کا غم منایا جاتاہے ۔اگر کبھی کسی نے کہیں سے تبراپڑھاہے ہے تو ڈی جی پی صاحب یاد رکھیں وہ پولیس اور سرکار کا ایجنٹ ہوتاہے ۔کانگریس ،سماجواد ی پارٹی اور بی ایس پی کے زمانے میں ایسا ہوتارہاہے کہ پولیس اور سرکار کے ایجنٹ شیعوں و سنّیوں کے درمیان تنازع پیدا کرنے کے لیے منبروں اور مسجدوںسے متنازع تقریریں کرتے تھے ۔کیاآپ چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے زمانے میں بھی ایسا ہی ہو،تاکہ ایک بار پھر شیعوں اور سنیوں کے درمیان جھگڑا پیدا ہوجائے ؟۔

مولانانے پولیس کےاس بیان پربھی سخت اعتراض جتایا اور مذمت کی جس میں کہاگیاہے کہ محرم کے پروگراموں میں جنسی تعلقات کے واقعات رونما ہوتے ہیں ۔مولانا نے کہاکہ ڈی جی پی صاحب آپ نے آخر کس حالت میں یہ بیان دیاہے ؟آیا آپ ہوش میں تھے یا نہیں ؟ ایساایک واقعہ پورے ہندوستان سے دکھائیے کہ جہاں محرم میں جنسی زیادتی یا اس طرح کاکوئی واقعہ ہواہو؟۔ کیا آپ محرم کو بدنام کرنا چاہتے ہیں ؟۔ آپ جھگڑا کرانا چاہتے ہیں ؟ کیا سوچ کر آپ نے یہ بیان دیاہے ؟۔ آپ نے کہاکہ محرم میں گائے کشی کی جاتی ہے ۔ان سے پوچھاجائے کہ محرم کے جلوسوں میں کہاں گائے کاٹی جاتی ہے ؟۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صرف شیعہ و سنّی فساد نہیں چاہتے بلکہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان بھی نفرت پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ اترپردیش میں الیکشن سے پہلے فساد بھڑک اٹھے ۔

مولانا نے اترپردیش کی سبھی ماتمی انجمنوں ،مذہبی تنظیموں شیعہ سنّی و ہندوتعزیہ داروں سے اپیل کی کہ جب تک پولیس انتظامیہ کے ذریعہ اس متنازع اور توہین آمیز سرکلر پر معافی نہیں مانگی جاتی اور اسے واپس نہیں لیا جاتا ،پولیس انتظامیہ کے ذریعہ بلائی گئی کسی بھی میٹنگ میں شامل نہ ہوا جائے ۔ہم حکومت اترپردیش سے مطالبہ کرتےہیں ڈی جی پی اترپردیش پر اس سلسلے میں سخت کاروائی کی جائے ۔پولیس کا یہ سرکلر شیعہ و سنی اور ہندومسلمانوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے والا ہے ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .