۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
اسلام آباد میں علماء و ذاکرین کانفرنس:

حوزہ/ مکتب تشیع کے حقوق اور مذہبی آزادی سلب کرنے کی معاندانہ روش ترک کی جائے، و تشیع کے خلاف آئین شکن اقدامات کو کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اسلام آباد/ بزرگ علماء کی زیر قیادت قائم فورم علمائے شیعہ پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ وطن عزیز پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ کی مدبرانہ قیادت میں مسلمانان برصغیر کی انتھک جدوجہد سے معرض وجود میں آیا ہے جس میں مکتب تشیع کی قیام و استحکام اور بقاء کیلئے قربانیاں اظہر من الشمس ہیں۔ جبکہ وطن عزیز کی بنیاد اہل اسلام و دیگر مذاہبِ کو مکمل مذہبی آزادی دینے پر رکھی گئی تھی اور آئین پاکستان اس کا آئینہ دار ہے۔ اس لیے مکتب تشیع کے خلاف آئین شکن اقدامات کو وطن عزیز پاکستان کی سالمیت کے لیے گہری سازش تصور کرتے ہوئے مکتب تشیع کی عبادات و مذہبی رسومات بالخصوص ولایت امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام اور عزاداری سید الشہداء کے خلاف کسی غیر آئینی اقدام کو قطعاً قبول نہیں کیا جائے گا۔

اعلامیہ میں واضح کیا گیا ہےآئین پاکستان سے روگردانی کر کے مکتب تشیع پر غیر آئینی رکاوٹیں ڈال کر کچھ سرکاری اہلکار پاکستان کے سپریم لاء مذہبی عبادات میں رخنہ اندازی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ جس کی قطعاً اجازت نہیں جا سکتی۔ اس امر کا اعلان علمائے شیعہ پاکستان کے زیر اہتمام ”علماء و ذاکرین کانفرنس برائے حقوق و تشیع و تحفظ عزاداری“ میں جاری کیے گئے متفقہ اعلامیہ میں کیا گیا ہے۔

کانفرنس کی قیادت قائدِ ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی صاحب، آیت اللہ حافظ ریاض حسین نجفی صاحب اور استاد العلماء مفسر قرآن شیخ محسن علی نجفی صاحب کر رہے تھے۔ اس موقع پر قائدین کانفرنس کے علاؤہ شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ سید تقی نقوی، علامہ عارف حسین واحدی،علامہ محمد رمضان توقیر، علامہ سید اسد زیدی، ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری،علامہ احمد اقبال رضوی، سید ناصر عباس شیرازی، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہید ی اور معروف علمائے دین شیخ انور علی نجفی، علامہ سید افتخار حسین نقوی، علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی، علامہ افضل حیدری، علامہ ناظر عباس تقوی نے خطاب فرمایا۔

کانفرنس کے بعد جاری کردہ متفقہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مکتب شیعہ کی مذہبی آزادی کو سلب کرنے کی مذموم کوششوں میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انتظامیہ شریک ہے جن کے متعصبانہ رویوں سے دہشتگردوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے جس سے ملک کی بنیادیں کمزور ہو رہیں ہیں اور جو یقیناً قابل مذمت ہے۔ اعلامیہ میں متنازعہ قانون سازی کی کوشوں، عزاداری سید الشہداء پر غیر قانونی بلاجواز پابندیوں، فور شیڈول، علماء و ذاکرین پر ناروا پابندیوں، یکساں قومی نصاب تعلیم کے نام پر متنازعہ نصاب کی ترتیب، مکتب تشیع کے خلاف سرگرم تکفیری عناصر کی فعالیت کی حوصلہ افزائی کرنے اور ذائرین کے لیے مشکلات کی حامل پالیسیوں کی شدید انداز میں بھی مذمت کی گئی۔ اور مکتب تشیع کے خلاف ہر سازش اور ان کی عبادات و مذہبی رسومات بالخصوص حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام اور عزاداری سید الشہداء کی بجاآوری سے متصادم کسی بھی غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام کو کسی صورت میں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔

اور اعلامیہ آخر میں واضح کیا گیا کہ اگر مکتب تشیع کے بنیادی حقوق سلب کرنے کی روش ترک نہ گئی تو ملت تشیع اپنا حقوق کے حصول کے لیے احتجاج کا حق محفوظ رکھتی ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .