۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
امام زین العابدین

حوزہ/ امیدوں کے پھول لایق اولادوں ہی کے شجروں میں کھلتے ہیں پھر جسکے صلب کرامت میں نسل امامت عین اللہ کو نظر آرہی ہو اسکی ولادت پر اس طرح کا اہتمام عقلی اور فطری ہے خواہ منظر کشی میں روایتی آہنگ نہ ہو مگر فطرتوں کے مضراب پر چھیڑے ہویے سازوں سے حقیقتوں کا ادراک کیا جا سکتا ہے۔

تحریر: مولانا گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی | شہر عشق و شغف جسکی گلیوں سے کملی والے سرکار کی خوشبو آرہی تھی ، جس سرزمیں پر نور پر مزمل و مدثر کے قدموں کی آہٹ گونج سناءی دے رہی تھی، پتھروں کے سینۂ پر نقش کف پایے رسول ص ابھرے ہویے تھے، اس شہر مدینہ کے محلہ بنی ہاشم میں گلشن زہرا کے باغ میں 15 جمادی الاولی کی صبح منیر ایک نوید لے کر آءی آغوش معرفت شہر بانو میں ایک کلی مسکراءی اور شجر شہر بانو پر جو ثمر شیریں کھلا اس نے شہشاہ کربلا کے لبوں پر تبسم بکھیر دیا حکیم کربلا نے امین نینوا کو آغوش میں لیا اور قرآنی سلطان کے دامن شفقت میں دیکر جد اعلی علی ع سے دعاؤوں کی درخواست کی۔

ادھر پہلے علی ع کی آغوش تربیت میں چوتھے علی ع کا آنا تھا علی ع نے علی ع کی خوشبو کو محسوس کیا فورا چشم عقیدت کو واں کیا اور نظر اولی میں وجہ اللہ کے چہرے کی زیارت کی گویا عین اللہ کے بچپن نے عین اللہ کی جوانی کا دیدار کیا ادھر علی اول ع نے علی چہارم ع کے وجود کو اپنے دست اقدس پر لیا یا یوں کہوں کہ ید اللہ نے ولی اللہ کو اپنے سینہ سے لپٹایا لبوں کو حرکت دی اور امین تحریک کربلا کے اذن واعیہ میں اذان و اقامت کہی مولا کی آواز تکبیر نے عصمت کے قلب و نظر میں توحید کے جلوے بکھیر دیے وجہ اللہ نے وجہ اللہ کو سامنے رکھا گویا ایک آءینہ تھا جسمیں علی کی جوانی اپنے بچپن کا چہرہ دیکھ رہی تھی ادھر علی ع کا بچپن اپنی بزرگی کا حسین چہرہ دیکھ رہے تھے وہ آنکھوں میں اطمینان ، وہ خاموشی میں ہزاروں تکلمات ، وہ ہاتھوں کی مٹھیوں میں دبی ہوءی شجاعت کی تصویر حقیقت، وہ جبین اقدس کی وسعتوں میں مقدر کی لکیریں، وہ پیشانی کی شکنوں میں صبرو شکیباءی ، وہ لب و رخسار میں والفجر کی تفسیر کے جلوے ، وہ چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں نور کی قندیلیں ، وہ ننہے ننہے بازوؤں میں قوت ربانی، وہ مختصر پر اثر وجود ذی جود، جسکی آنکھوں کی چمک نے حوصلوں کی رفعتوں کا ادراک فرمایا ، نوزایدہ بچے کے متحرک لب رب کی ثناء کا اعلان کر رہے تھے اسکے لبوں کی مسکراہٹ سے تسبیح آلہی کا ورد مترشح ہو رہا تھا۔

اسکی قوت شامہ نے لسان اللہ کی عطرزدہ دہن کی مہک کو محسوس کیا ارادوں کو بھانپ لیا اور اشاروں ہی اشاروں میں اقرار عہدو پیمان کرلیا ادھر علم لدنی کے مالک نے، نگاہ مستقبل شناس سے صحیفہ طفل صغیر میں وہ تمامتر صفات ثبوتیہ کے صفحات کی ورق گردانی فرماءی ، علی کی اعلی نگاہی نے حال کی حالت ، مستقبل کی استقامت کو پلک جھپکتے ہی سمجھ لیا مشکل کشاء کاینات نے جب معنی خیز نگاہوں سے مشکلوں میں امداد دینے کے ارادہ کا اظہاریہ فرمایا ہی تھا کہ بچہ نے زیر لب تبسم کے ساتھ درد و الم کے پی جانے ، پیمانہ صبر کے لبریز ہوجانے ، اور ہر محاذ مصیبت سے گذر جانے کا عزم مصمم اپنے چشم و ابرو کے اشارے سے اعلان فرمایا۔

عجب نہیں کہ خیبر شکن نے بچے کی مٹھیوں میں اپنی انگشت مبارک کو رکھا ہو اور سید سجاد ع نے پوری قوت کے ساتھ فاتح خیبر کی انگشت مبارک کو اپنے دہن کی جانب کھینچا ہو اور لبوں کے درمیان رکھ کر صبر علوی کو اپنے سینۂ میں جذب کرلیا ہو تاکہ دشت بلا میں یہ عرق صبر مشکل کشاءی کا فریضہ انجام دے اور عہد طفلی کے ایفاء میں مددگار ثابت ہو سکے۔

غرض کہ علی ع نے علی ع سے رازوں نیاز کیا ایک دادا نے پوتے کے نحیف کاندھوں پر شریعت کی حفاظت کا بار گراں بڑے پر اعتماد انداز سے ڈال دیا چونکہ امیدوں کے پھول لایق اولادوں ہی کے شجروں میں کھلتے ہیں پھر جسکے صلب کرامت میں نسل امامت عین اللہ کو نظر آرہی ہو اسکی ولادت پر اس طرح کا اہتمام عقلی اور فطری ہے خواہ منظر کشی میں روایتی آہنگ نہ ہو مگر فطرتوں کے مضراب پر چھیڑے ہویے سازوں سے حقیقتوں کا ادراک کیا جا سکتا ہے گرچہ اسکے لیے رہوار شعور کو مہمیز کرنے کی ضرورت ہے عقل کے دریچے کھلے ہوں عقیدت کے جام شیریں سے سیراب ہو اور علم و حکمت نے معرفت کی تربیت کی ہو تو یہ مناظر بصیرت سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ بس فکر لذت آشناء مودت ہو جایے طایر تخیل فضاء عشق میں پرواز کرے اور فکری سرمایہ کو جمع کر کے زیب قرطاس کرنے کا ہنر پیدا کرلے تو تحریر کی حریت عقیدوں کے قدموں میں زنجیر نہیں ڈال سکتی دامن احترام تھام کر عکس بندی کے فن کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے یہ میری ناقص فکر کا تجزیہ ہے اہل شعور سے اصلاح کا طالب ہوں اہل فکر کے لیے راہ تنقید و تبصرہ مفتوح ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .